پاکستان کی معیشت روبہ زوال لیکن عمران خان کے خیراتی ادارے مالا مال

وزیراعظم بننے کے بعد چیریٹیز کی آمدن میں ہوشربا اضافہ ہونا شروع ہوا تو برطانیہ اور امریکہ میں دو چیریٹیز نے سالانہ گوشوارے جمع کروانا ہی بند کر دیا

امریکہ نے عمران خان فائونڈیشن کا اسٹیٹس مئی دوہزار اکیس میں ختم کر دیا

بشرٰی بی بی کے پروجیکٹ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ نے ٹرسٹ کے بابر اعوان کے نام پر رجسٹر ہونے سے پہلے ہی کام شروع کر دیا اور پاکستان میں ٹیکس استثنٰی کا اسٹیٹس حاصل کیے بغیر عطیات وصول کرنا بھی شروع کر دیے۔

شوکت خانم میموریل ٹرسٹ، نمل کالج اور عمران خان فائونڈیشن کے امریکہ، برطانیہ اور پاکستان میں دفاتر نے فیکٹ فوکس کی بارہا درخواست کہ ان اداروں کی صرف پچھلے تین سالوں کے سب سے زیادہ چندہ دینے والے سو افراد اور کمپنیوں کی فہرست فراہم کی جائے، کوئی تعاون نہ کیا اور کسی ای میل کا جواب نہ دیا۔ جبکہ انہی ای میلز سے باقی لوگوں کو دیگر معاملات پر مسلسل جواب دیا جاتا رہا۔

احمد نورانی، عمارہ شاہ

جیسے جیسے پاکستان کی معیشت روبہ زوال ہوتی گئی، وزیرِاعظم عمران خان کے خیراتی اداروں کے عطیات میں برق رفتار اضافہ دیکھا گیا۔  

وزیراعظم عمرا خان کے  اقتدار کے دوران ان  کے خیراتی اداروں کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہوتا رہا۔ یہ سب ایسی صورتحال میں ہوا جب معیشت تباہی کے دھانے پر کھڑی تھی، افراط زر دن بہ دن بڑھتا جا رہا تھا اور آج مجموعی ملکی پیداوار کا تناسب  دو ہزار اٹھارہ کے پانچ اعشاریہ آٹھ سے گر کر ایک اعشاریہ دو پہ کھڑا ہے،

______________________________________________________

اشتہار

تحقیقاتی صحافت کو آگے بڑھائیں۔

“گوفنڈمی” کے اس لنک پر جائیں اور فیکٹ فوکس کی “گوفنڈمی” کیمپئن میں اپنا حصہ ڈالیں۔

https://gofundme.com/FactFocus

[فیکٹ فوکس کی “گوفنڈمی” کیمپیئن کی ویڈیو دیکھیں۔]

_____________________________________________________

نہ صرف یہ بلکہ عمران خان کے دو خیراتی اداروں نے ان کے وزیراعظم بننے کے بعد نامعلوم وجوہات کی بنا پہ امریکہ اور برطانیہ میں سالانہ گوشوارے جمع کرانا روک دیا ہے باوجود اس امر کے کہ قانونی طور پہ ان کا جمع کرنا ضروری ہے۔

نتیجتہً عمران خان فاونڈیشن کو امریکی ٹیکس ادارے آئی آر ایس کی طرف سے ٹیکس سے استثنٰی کی جو سہولت تھی وہ مئی دوہزار اکیس میں ختم کر دی گئی۔

 

 اطلاعات تک رسائی کے قوانین کے تحت، تین مختلف ممالک میں موجود خیراتی اداروں سے براہ راست  اور فیڈرل بورڈ آف ریوینیو پاکستان سے حاصل کیئے گئے ڈیٹا اور دستاویزات کے بغور مشاہدہ سے صاف پتا چلتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے خیراتی اداروں کی سالانہ آمدنی پاکستان تحریک انصاف کی خیبر پختونخواہ میں دو ہزار تیرہ کی حکومت اور بعد میں دو ہزار اٹھارہ میں وفاقی حکومت بننے کے بعد دوگنا ہو گئی ہے۔

جیسے جیسے یہ خیراتی ادارے اپنی دولت میں اضافہ کرتے گئے، امریکہ، برطانیہ اور خلیجی ممالک میں ان کے نیٹ ورک میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔

عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد جیسے ہی انکے خیراتی اداروں کی آمدن میں ہوشربا اضافہ ہونا شروع ہوا، دو خیراتی اداروں نمل کالج (نمل نالج سٹی) اور عمران خان فاونڈیشن نے برطانیہ اور امریکہ میں   متعلقہ سرکاری اداروں میں سالانہ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے بند کر دیئے ہیں جس کے نتیجہ میں امریکہ کی ریوینیو اتھارٹی آئی آر ایس نے پندرہ مئی دو ہزار اکیس کو عمران خان فاونڈیشن کودی گئی  ٹیکس کی چھوٹ کی سہولت کو ختم کر دیا۔

برطانوی چیئرٹیز کمیشن نے فیکٹ فوکس کو اس امر کی تحریرً تصدیق کی ہے، جبکہ امریکی آئی آر ایس کی ویب سائٹ عمران خان فاونڈیشن کے ٹیکس استثنٰی ختم ہونے کی تصدیق کرتی ہے۔  عمران خان فاونڈیشن عمران خان کے خیراتی اداروں میں ایک بڑا نام ہے۔  

صرف یہی نہیں بلکہ عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو فنڈز دینے والوں کی فہرست کو کھنگالتے ہوئے سنجیدہ نوعیت کی بے ضابطگیاں سامنے آتی ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کو مجبور کیا تھا کہ وہ  اپنی مختلف  انتخابی مہمات پر ہونے والے اخراجات کی وضاحت کیلیے پارٹی ڈونرز کی فہرست فراہم کرے۔ اس فہرست میں سے عطیہ دینے والے کچھ حضرات سے جب اخبار دی نیوز کے تحقیقاتی صحافی فخر درانی نے رابطہ کیا تو انھوں نے تحریری طور پر اس بات کی تصدیق کی کہ یہ پیسہ انھوں نے عمران خان کے خیراتی اداروں کو دیا تھا نہ کہ انکی سیاسی جماعت کو۔

دنیائے کرکٹ کا شہرہ ہونے، خیراتی اداروں کی فنڈنگ  کے لئے  کرشماتی نعروں کے استعمال کرنے اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے تعلیمی پس منظر کی وجہ سے   پاکستان کی اشرافیہ ہمیشہ عمران خان کی گرویدہ رہی ہے۔ دوسری طرف عمران خان نے اپنی کرکٹ کی شہرت اور شخصیت کے مذہبی پہلو کی تشہیر کر کے عوام کے ساتھ اپنا تعلق بنائے رکھا۔ اسی لئے شوکت خانم کینسر ہسپتال کا قیام بہت اہمیت کا حامل تھا کیونکہ یہ منصوبہ عمران خان کا پہلا اہم خیراتی منصوبہ تھا۔

سماجی خدمت کے شعبہ میں عمران خان  اسی ادارے کے ذریعے سامنے آئے اور یہ تاثر بنانے میں بھی کامیاب رہے کہ وہ ایک ایماندار اور دیانت دار عوامی رہنما ہیں۔ اور یوں انکے سیاسی عزائم کو سامنے لانے کا راستہ ہموار ہوا جن کا مرکزی نکتہ صرف یہ تھا کہ تمام بڑے سیاست دان چور ہیں۔

شوکت خانم میموریل ٹرسٹ

شوکت خانم میموریل ٹرسٹ جوپاکستان کے دو شہروں پشاور اور لاہورمیں  کینسر ہسپتال اور ریسرچ سینٹر چلاتا ہے جبکہ شوکت خانم کراچی زیرِ ہے، بیرونی ممالک سے  دو ہزار گیارہ تک ایک ارب سے تین ارب کے درمیان عطیات وصول کرتا تھا۔ یہ وہی سال ہے جب ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ نے کھلِ عام عمران خان کی سیاسی جماعت کو اقتدار میں لانے کے لیے سپورٹ کرنا شروع کیا۔ اسی سال سے خیراتی اداروں کے عطیات میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔ صرف شوکت خانم میموریل ٹرسٹ نے سال دو ہزار پندرہ میں آٹھ اعشاریہ نو ارب، سال دو ہزار سولہ میں آٹھ اعشاریہ تین ارب اور سال دو ہزار سترہ میں آٹھ اعشاریہ سات ارب روپے اکھٹے کیے۔  

اگست دو ہزار اٹھارہ میں عمران خان صاحب وزیراعظم بن گئے اور ان کی جماعت نے مرکز کے علاوہ ملک کے چار میں سے تین صوبوں میں حکومتیں بنائیں تو ایک مرتبہ پھراگلے تین سالوں کے عطیات میں زبردست اضافہ ہوا۔

سال دو ہزار اٹھارہ میں شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے عطیات دس اعشاریہ چھ ارب روپے تک بڑھ گئے۔

سال دو ہزار انیس میں عطیات مزید تین اعشاریہ دو ارب  روپے کے اضافے کے ساتھ تیرہ اعشاریہ چار نو ارب ہو گئے۔

دو ہزار بیس میں  کل عطیات پندرہ اعشاریہ ایک تین ارب روپے کی خطیر رقم کو پہنچ جاتے ہیں ۔یہ اعداد دنیا بھر سے صرف شوکت خانم میموریل ترسٹ کے لیئے جمع ہونے والے عطیات کے ہیں۔ باقی خیراتی اداروں کو ملنے والے عطیات ان کے سِوا ہیں۔

یہ گراف سال دوہزار سات سے دوہزار بیس تک کی صرف شوکت خانم ٹرسٹ کی ہر سال کی دنیا بھر سے جمع ہونے والے عطیات نیلے رنگ کے بارس کی صورت میں دکھا رہاہے جبکہ اورنج رنگ کی لائن انہی سالوں میں پاکستان کی جی ڈی پی گروتھ ریشو دکھا رہی ہے۔ قارعین گراف میں کسی بھی جگہہ جا کر متعلقہ سال کی معلومات دیکھ سکتے ہیں۔

امریکہ سے  شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے لیے جمع ہونے والے عطیات دو ہزار اٹھارہ میں چھ اعشاریہ چار ملین ڈالر، دو ہزار انیس میں سات اعشاریہ نو ملین ڈالر، اور دو ہزار بیس میں نو اعشاریہ تین ملین ڈالرز تک بڑھ  گئے۔

جب عمران خان اقتدار میں نہیں تھے تو امریکہ سے عطیات کی مد میں دو ہزار گیارہ اور دو ہزار بارہ میں ایک اعشاریہ نو ملین ڈالرز موصول  ہوئے جو کہ  دو ہزار دس کے دو اعشاریہ پانچ ملین ڈالرز سے کم ہو گئے تھے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں اقتدار ملنے کے بعد سال دو ہزار چودہ میں یہ امریکہ سے ملنے والے یہ عطیات اچانک بڑھ کر چار اعشاریہ آٹھ ملین ڈالرز ہوئے اور پھر دو ہزار پندرہ میں کم ہو کر تین اعشاریہ تین ملین ڈالرز رہ گئے۔ تاہم عمران خان کے اقتدار پہ براجمان ہونے کے بعد عطیات کا اتار چڑھاومستحکم ہو گیا اور لگاتار اضافہ کے ساتھ دو ہزار بیس میں نو اعشاریہ تین ملین ڈالرز تک پہنچ گیا۔

امریکن ریوینیو اتھارٹی آئی آر ایس کی ویب سائیٹ پر شوکت خانم میموریل ٹرسٹ (جو کہ امریکہ میں عمران خان کینسر اپیل کے نام سے رجسٹرڈ ہے)  کے سال دو ہزار انیس، دو ہزار بیس اور دو ہزار اکیس کے فارم نائن نائن زیرو (سالانہ ٹیکس گوشوارے) میسر نہیں تھے۔ فیکٹ فوکس نے گوشواروں پر دیے گئے رابطہ نمبر کے ذریعے عمران خان کینسر اپیل کے دفتر میں کیتھی نامی خاتون سے بات کی تو اس نے پہلے یہ بتایا کہ گوشوارے جمع کروائے گئے ہیں اور پھر ان تین سالوں کے فارم نائن نائن زیرو فراہم بھی کیے۔

شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے لیے برطانیہ سے جمع ہونے والے عطیات سال دو ہزار اٹھارہ میں چھ اعشاریہ سات ملین پاونڈ، سال دو ہزارانیس میں آٹھ اعشاریہ ایک ملین پاونڈ اور سال دو ہزار بیس میں بارہ اعشاریہ تین ملین پاونڈ کو پہنچ گئے۔ قابلِ ذکر امر یہ ہے کہ برطانیہ میں سال دوہزار گیارہ میں شوکت خانم کے کل عطیات صرف دو اعشاریہ تین ملین پائونڈ تھے، جو دوہزار بارہ میں دو اعشاریہ آٹھ ملین پائونڈ تک پہنچے، دوہزار تیرہ میں تین اعشاریہ چارملین پائونڈ، دوہزار چودہ میں تین اعشاریہ دو ملین پائونڈ، دوہزار پندرہ میں چار اعشاریہ چار ملین پائونڈ، دوہزار سولہ میں پانچ ملین پائونڈ جب کہ دوہزار سترہ میں پانچ اعشاریہ چھ ملین پائونڈ تک پہنچے۔

چند ماہ قبل پی ٹی آئی کی طرف سے الیکشن کمیشن کو دی جانے والی فہرست میں عطیات دینے والوں میں سے ایک نام ممتاز احمد مسلم کا ہے۔ موصوف کو حال ہی میں اکتوبر دو ہزار اکیس میں مشہور سیاحی مقام  نتھیاگلی میں کئی ملین ڈالرز کا ایک پر تعیش ہوٹل بنانے کا ٹھیکہ دیا گیا۔ اس حقیقت سے ابھی چند روز قبل اخبار “دی نیوز” نے ہی پردہ اٹھایا۔ “دی نیوز” کی رپورٹ کے مطابق موصوف نے پی ٹی آئی کو چوبیس ہزار نو سونواسی ڈالرز بطور تحفہ دیئے۔ مزید براں وفاقی تحقیققاتی ادارے کی تحقیقات کے مطابق ممتاز احمد مسلم کا نام ان پاکستانیوں کی فہرست میں بھی ہے جن کی متحدہ عرب امارات میں بھی جائیدادیں ہے۔ جب کہ آئی سی آئی جے کی طرف سے کیے جانے والے حالیہ انکشافات “پنڈورا پیپرز” کے مطابق ممتاز احمد مسلم دریشک سیکورٹی سولوشنز آئی این سی نام اکی آفشور کمپنی کے بھی مالک ہیں۔

شوکت خانم میموریل ٹرسٹ  کے علاوہ عمران خان کے دیگر خیراتی اداروں کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال بھی سنجیدہ نوعیت کے معاملات کی نشاندہی کرتی ہے۔ ایک خیراتی ادارہ نمل کالج سٹی کے نام سے ہے۔ یہ ادارہ برطانیہ میں “نمل کالج ” کے نام سے رجسٹرڈ ہے اور امریکہ میں” فرینڈز آف نمل آئی این سی” کے نام سے رجسٹرڈ ہے۔

نمل کالج

عمران خان کے نمل کالج پروجیکٹ نے برطانیہ میں ٹیکس اتھارٹیز کو سال دو ہزار اٹھارہ سے ٹیکس گوشوارے نہیں جمع کروائے۔ دو ہزار اٹھاہ وہی سال ہے جب خان صاحب وزیراعظم بنے۔ شوکت خانم میموریل ٹرسٹ جو برطانیہ میں “عمران خان کینسر اپیل” کے نام سے کام کرتا ہے نے عمران خان کے وزیرِاعظم بننے کے بعد بھی اپنے ٹیکس گوشوارے جمع کروانا جاری رکھا۔ یہاں اس امر کی نشاندہی ضروری ہے کہ برطانیہ میں شوکت خانم ٹرسٹ کو مینیجرز اور اکائونٹنٹس کی وہی ٹیم چلاتی ہے جو نمل کالج اور عمران خان فائونڈیشن کے معاملات بھی دیکھتی ہے۔

برطانوی چیریٹیز کمیشن کی سرکاری ویب سائٹ پر یہ بات نہ صرف  صاف طور پر لکھی گئی ہے بلکہ سرخ نشان سے نمایاں کرتے ہوئے یہ یاد دہانی بھی کروائی گئی ہے کہ نمل کالج نے اپنے حساب کتاب کی تفصیلات آٹھ سو ستتر دنوں کی تاخیر کے باوجود جمع نہیں کروائے۔

یو کے چیئریٹیز کمیشن کی ویب سائٹ دکھا رہی ہے کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد نمل کالج نے اپنے سالانہ گوشوارے جمع کروانے بند کر دیے ہیں۔ قارئین برطانوی چئیریٹیز کمیشن کی ویب سائٹ تک اس لنک سے خود بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں.

ا

یو کے چیئریٹیز کمیشن کی ویب سائٹ دکھا رہی ہے کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد برطانیہ میں عمران خان ریلیف فنڈ (عمران خان فائونڈیشن) نے اپنے سالانہ گوشوارے جمع کروانے بند کر دیے ہیں۔ قارئین برطانوی چئیریٹیز کمیشن کی ویب سائٹ تک اس لنک سے خود بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں.

یو کے چیئریٹیز کمیشن کی ویب سائٹ دکھا رہی ہے کہ برطانیہ میں شوکت خانم ٹرسٹ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد بحی اپنے سالانہ گوشوارے جمع کرواتا رہا۔ صرف نمل اور عمران خان فائونڈیشن کے معاملات چھپائے گئے۔ قارئین برطانوی چئیریٹیز کمیشن کی ویب سائٹ تک اس لنک سے خود بھی رسائی حاصل کر سکتے ہیں.

تفصیلات کے حصول کے لیے اطلاعات تک رسائی کے قانون کے تحت فیکٹ فوکس کی جانب سے برطانوی چئیریٹیز کمیشن کو تحریری درخواست دی گئی۔ کمیشن نے گیارہ جنوری دو ہزار بائیس کو نہ صرف ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کی تحریرً تصدیق کی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نمل کالج کے پچھلے سالوں کے گوشوارے بھی فراہم کیے جو ویب سائٹ پر موجود نہیں تھے۔

دوسری طرف امریکہ میں “فرینڈز آف نمل” کو وفاقی ٹیکس سے حاصل شدہ استثنٰی خودکار سسٹم کے تحت پندرہ مئی دو ہزار انیس کو ختم کر دیا گیا۔ اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ مسلسل ٹیکس گوشوارے اور فارم نائن نائن زیروجمع نہیں کرائے گئے تھے۔ تاہم نمل کا یہ اسٹیٹس بعد میں بحال کر دیا گیا۔ امریکی ٹیکس اتھارٹی آئی آر ایس کی ویب سائٹ پر نمل کالج کے دو ہزار اٹھارہ اور اس کے بعد کے سالوں کے ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔ گوشوارں پر دیئے گئے رابطہ نمبرز پ فیکٹ فوکس کی طرف سے کی گئی کالز اور پیغامات کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

 اس عرصے میں سال دو ہزار اٹھارہ میں نمل کو ایک سو پچاسی ملین روپوں کے عطیات وصول ہوئے جو دو ہزار بیس میں برق رفتاری سے ایک اعشاریہ چار ارب روپے تک پہنچ گئے۔ (تقریبا سات سو فیصد کا اضافہ ہوا)۔

عمران خان فائونڈیشن

 اب آتے ہیں عمران خان فاونڈیشن  کی طرف۔ اس ادارے کو امریکہ میں حاصل شدہ ٹیکس استثنٰی پندرہ مئی دو ہزار اکیس کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کی وجہ بھی وہی ہے کہ فارم نائن نائن زیرو مسلسل تین سال گزرنے کے باوجود جمع نہیں کرایا گیا۔

۔

آئی آر ایس کی ویب سائیٹ کا سکرین شاٹ جو کہ امریکہ میں عمران خان فائونڈیشن کے ٹیکس استثنٰی اسٹیٹس کے ختم ہونے کا بتا رہا ہے۔ قارعین آئی آر ایس کے اس لنک پر جا کر عمران خان فائونڈیسن کا ای آئی این نمبر 20-3770402درج کے متعلقہ معلومات خود سے دیکھ سکتے ہیں۔

یہ صورتحال معاملات کو مشکوک بناتی ہے۔ عمران خان فاونڈیشن کے پرانے گوشواروں پہ دیے گئے رابطہ نمرز پر فیکٹ فوکس کی طرف سے کی گئی کالز اور میسجز کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ یہی نہیں، امریکہ، برطانیہ اور پاکستان میں بھی عمران خان فائونڈیشن نے فیکٹ فوکس کی ای میلز کہ عمران خان فائونڈیشن کے صرف پچھلے تین سالوں کے پانچ لاکھ روپے سے زیادہ رقم دینے والے ڈونرز کی تفصیلات فراہم کی جائیں، کا کبھی جواب نہیں دیا۔ عمران خان فاونڈیشن کے پاکستان میں موجود دفتر کے ایک نمائندہ نے فیکٹ فوکس کو بتایا کہ عمران خان فاونڈیشن نے بطور ادارہ کام کرنا بند کر دیا ہے۔ تاہم یہ بات انتہائی دلچسپ ہے کہ عمران خان فاونڈیشن پاکستان میں عطیات وصول کر رہا ہے اور متعلقہ ٹیکس حکام کو اپنے گوشوارے بھی جمع کروا رہا ہے۔ پاکستان میں ایف بی آر میں جمع کروائے گئے ان خیراتی اداروں کے ٹیکس گوشواروں سے پتا چلتا ہے کہ عمران خان خان فاونڈیشن نے سال دو ہزار اٹھارہ میں ایک سو چھبیس ملین روپے، دو ہزار انیس میں تین سو چودہ ملین روپے اور دو ہزار بیس میں تیرہ ملین روپے کے عطیات اکٹھے کیئے۔ عمران خان فاونڈیشن کی جانب سے پاکستان میں جمع کیئے گئے گوشواروں سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ سال دو ہزار بیس میں ادارے کے انتظام و انصرام پہ ایک ارب روپے خرچ ہوئے۔ یہ دستاویزی ثبوت عمران خان فاونڈیشن کے پاکستان میں موجود نمائندے کے دیئے گئے بیان کہ عمران خان فاونڈیشن نے بطور ادارہ کام کرنا بند کر دیا ہے کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں۔

عمران خان فاونڈیشن کی ویب سائٹ پچھلے چند ماہ سے پراسرار طور پر غیر فعال کر دی گئی ہے۔ قارعین بین الاقوامی آرکائیو ویب سائیٹ archive.org پر جا کر عمران خان فائونڈیشن کے پاکستان چیپٹر کی ویب سائیٹ

http://www.imrankhanfoundation.org.pk

ٹائپ کر کے اس ویب سائیٹ پر ماضی میں موجود رہا مواد دیکھ سکتے ہیں۔

تاہم عمران خان فائونڈیشن کے فیس بک پیج پر بائیس جنوری دو ہزار بیس کو پوسٹ کی  گئی معلومات کے مطابق عمران خان فاونڈیشن نے اخوت فاونڈیشن کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پہ  دستخط کیئے ہیں۔ اخوت فاونڈیشن لوگوں کو آسان قرضہ جات فراہم کرتی ہے اور اب تک ایک سو تیس ارب روپے خرچ کر چکی ہے۔ اس بات سے بھی پاکستان میں عمران خان فاونڈیشن کے دفتر میں موجود نمائندے کی اس بات کی نفی ہوتی ہے کہ ادارہ بند ہو چکا ہے۔ تاہم مقامی یا بین الاقوامی میڈیا میں کہیں بھی یہ خبر سامنے نہیں آئی کہ عمران خان فاونڈیشن کو امریکہ میں حاصل شدہ ٹیکس استثنٰی واپس لے لیا گیا ہے۔ متعلقہ اتھارٹیز کے ایکشن کے باوجود یہ ادارہ چھبیس مارچ دوہزار بائیس تک حاصل کیے گئے عطیات کی تفصیلات جمع نہیں کروائی گئیں۔ برطانیہ میں تو ایک ہزار دنوں زیادہ وقت گزرنے باوجود معلومات چھپائی جا رہی ہیں۔

القادر یونیورسٹی ٹرسٹ

عمران خان کے خیراتی اداروں میں سے آخری قابلِ ذکر ادارہ جس پر فیکٹ فوکس نے کام کیا ہے وہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ ہے۔ خاتون اوّل اس ٹرسٹ کی ٹرسٹی ہیں۔ یہ ادارہ دو ہزار انیس میں اسلام آباد (پاکستان) میں بابر اعوان کے ذریعے رجسٹر ہوا۔ اس کے قیام کا مقصد وزیراعظم کی ان خواہشات کی تکمیل ہے کہ روحانیت کی تعلیم جدید تعلیمی انداز میں دی جا سکے۔ تاکہ لوگوں کو مغربی کلچر سے بچایا جا سکے۔ انکے مطابق اس کلچر نے نوجوانوں کے دماغوں کو گھیرا ہوا ہے۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی باقاعدہ  رجسٹریشن  دسمبر دو ہزار انیس میں ہوئی تھی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ یونیورسٹی عمارت اس وقت تک مکمل ہو چکی تھی۔ یاد رہے کہ یہ یونیورسٹی پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے ستر میل جنوب کی طرف واقع شہر جہلم میں ہے۔

دستاویزات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس وقت تک یونیورسٹی کو ایک ارب روپے کے عطیات وصول ہو چکے تھے۔ ایف بی آر کے نمائندہ کے مطابق اس وقت تک یونیورسٹی کو ٹیکس استثنٰی نہیں دیا گیا۔ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کے لیئے وصول شدہ فنڈنگ کے متعلق پاکستان میں اس وقت تک کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔

القادر یونیورسٹی، سوہاوہ، جہلم

القادر یونیوسٹی ٹرسٹ کے جہلم میں موجود ریکارڈز کے مطابق فروری دوہزار اکیس میں اسلام آباد میں کھولے گئے دو اکائونٹس میں سو سے زیادہ کریڈٹ ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ ایک اکائونٹ میں ہونے والی چند اہم کریڈٹ ٹرانزیکشنز میں اٹھارہ فروری دوہزاراکیس کو پچاس ملین روپے، سترہ مارچ دوہزاراکیس کو پھر پچاس ملین روپے، پندرہ اپریل دوہزاراکیس کوچھیانوے اعشاریہ پچانوے ملین روپے، چار اکتوبر دوہزاراکیس کو تیس ملین روپے، سات اکتوبر دوہزاراکیس کو پھر تیس ملین روپے، بارہ اکتوبر دوہزاراکیس کو پچیس ملین روپے شامل ہیں۔ اسی طرح دوسرے اکائونٹ میں بیس مئی دوہزاراکیس کو انیس اعشاریہ آٹھ ملین روپے اور یکم نومبر دوہزاراکیس کو ستاسٹھ اعشاریہ انسٹھ ملین روپے اہم کریڈٹ ٹرانزیکشنز شامل ہیں۔

Scroll to Top