فیروزوالہ فائلز: متعد بار اثاثے چھپانے کے باوجود عمران خان ہمیشہ کسی بھی کاروائی سے محفوظ رہے

عمران خان کے والد اکرام اللہ خان نیازی نے ایک خاتون نگہت ارم سے انیس سو چھیانوے میں لاہور کے نواح میں واقع پانچ سو کنال اراضی کے لیے مختار نامہ خاص حاصل کیا

قانون کے مطابق کسی زمین کا مختار نامہ خاص رکھنے والا شخص اس زمین کو کسی کو بیچ تو سکتا ہے مگر نہ تو اپنے بچوں کو یا کسی کو بطور تحفہ دے سکتا اور نہ ہی اس کے انتقال کی صورت میں وہ زمین اس کے بچوں کو بطور وراثت منتقل ہو سکتی ہے

دو ہزار چار میں اس مختار نامہ خاص کے ذریعے اکرام اللہ نیازی نے یہ زمین اپنے بچوں یعنی عمران خان اور انکی چار بہنوں کو ستر لاکھ روپے کے عوض بیچ دی

دوہزار چار میں زمین اپنے نام منتقل ہو جانے کے باوجود عمران خان نے یہ زمین اپنے دوہزار پانچ میں اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہ کی، یہی ہی نہیں، اسی سال انہوں نے یہ زمین الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جمع کروائے گئے اپنے اثاثوں کے سالانہ گوشوارے میں بھی ظاہر نہ کیا۔ عمران دوہزار دو سے دوہزار سات تک قومی اسمبلی کے رکن تھے۔

اس کے بعد عمران خان نے دوہزار چھ اور دو ہزار سات میں بھی یہ زمین الیکشن کمیشن کے سالانہ گوشواروں میں چھپائی اور دوہزارپانچ سے دوہزار نو تک اپنے سالانہ ٹیکس ریٹرنز میں بھی یہ زمین چھپاتے رہے۔

مارچ دوہزار آٹھ میں اکرام اللہ خان نیازی کا انتقال ہوا۔ سن دوہزار دس کے سالانہ ٹیکس ریٹرنز میں آخر کار عمران خان نے یہ زمین ظاہر کر دی۔ مگر حیران کن طور پر انہوں نے خریدی گئی اس زمین کو بطور "وراثت” ظاہر کیا اور جو زمین انہوں نے اور انکی بہنوں نے ستر لاکھ کے عوض خریدی تھی اسکی قیمت کو "صفر” لکھا۔ قانونی ماہرین کے مطابق، یہ ‘مِس ڈیکلیریشن آف ایسٹس’ کی واضح مثال ہے۔

عمران خان کے خلاف آف شور کمپنی چھپانے کے کیس میں سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر عمران خان کو ریلیف دیا کہ چونکہ آف شور کمپنی صرف عمران خان کے لندن اپارٹمنٹ کے معاملات دیکھنے کیلیے استعمال ہوتی تھی اور چونکہ عمران نے لندن اپارٹمنٹ ایمنسٹی اسکیم کے تحت قانونی طور پر ڈیکلیئر کر دیا تھا اس لیے آف شور کمپنی ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مگر فیکٹ فوکس کی تحقیقات کے مطابق آف شور کمپنی نیازی سروسز لمیٹڈ کی بنک اسٹیٹمنٹس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آف شور کمپنی کے بنک اکائونٹس میں صرف پانچ سالوں میں لندن اپارٹمنٹ پر آنے والے تمام اخراجات سے کہیں زیادہ رقوم آئیں۔ سپریم کورٹ یا کسی بھی متعلقہ فورم کو آف شور کمپنی کی بنک اسٹیٹمنٹس کے حوالے سے سامنے آنے والے نئے شواہد کا جائزہ لینا ہو گا۔

عمران خان نے دوہزارپانچ میں پشاور میں ایک پلاٹ تحفے میں لیا اور دس سال تک ڈیکلیئر نہیں کیا۔ بعد میں اپنی چیریٹی کو عطیہ کرنے کا اعلان کر دیا۔

پاکستان بھر میں پچھلے چند ماہ میں سامنے آنے والے سب سے بڑے اسکینڈل جس میں وزیراعظم پر توشہ خانہ سے قیمتی تحائف لینے کا الزام لگایا اور پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کے باوجود کیبینٹ ڈویژن نے تحائف کی تفاصیل جاری کرنے سے انکار کیا، حکومت انفارمیشن کمیشن کے فیصلے پر عملدرآمد رکوانے کیلیے اسلام آباد ہائیکورٹ تک گئی، فیکٹ فوکس کی تحقیقات سے ثابت ہو گیا ہے کہ عمران خان نے دوکروڑتیتیس لاکھ نوے ہزار کا ایک "قیمتی تحفہ” ایک کروڑ سولہ لاکھ نوے ہزار میں خریدا اور جس وقت انکی حکومت اسلام آباد ہائیکورٹ سے التجا کر رہی تھی کہ حکومت کو قیمتی تحائف کی تفاصیل جاری کرنے پر مجبور نہ کیا جائے عین اسی وقت انکے وکلا ماضی کے چند سالوں کے برعکس بہت جلدی عمران خان کے سال دوہزار اکیس کے ریٹرنز جمع کروا رہے تھے۔

شمیسہ رحمٰن

نگہت ارم، جو کہ شاہ نظیر عالم، سابقہ چیف، پنجاب پولیس جو ستائیس جون انیس سو انہتر کو انتقال کرگئے تھے کی بیوہ اور انکے تین بالغ بیٹوں شاہ عارف عالم، جنرل ریٹائرڈ شاہ رفیع عالم اور شاہ جلیل عالم کی سوتیلی والدہ تھیں، نے لاہور کے قریب واقع پانچ سو کنال زمین کا مختار نامہ انیس سو چھیانوے میں اکرام ﷲ خان نیازی کو دیا۔

اکرام ﷲ نے دو ہزار چار میں یہ زمین اپنے پسر عمران خان اور چار دختران کو فروخت کر دی۔ عمران خان نے چھ سال تک اس جائیداد کو پاکستان کے ٹیکس حکام سے پوشیدہ رکھا اور آخرکار صفر قیمت کیساتھ وراثتی جائیداد کیطور پر ظاہر کیا باوجود اسکے کہ یہ جائیداد موروثی نہیں تھی بلکہ اِن بہن بھائیوں نے اسے ستر لاکھ پاکستانی روپوں کے عوض خریدا تھا۔

____________________________________________________________________________________________

اشتہار

تحقیقاتی صحافت کو آگے بڑھائیں۔

"گوفنڈمی” کے اس لنک پر جائیں اور فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپئن میں اپنا حصہ ڈالیں۔

https://gofundme.com/FactFocus

[فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپیئن کی ویڈیو دیکھیں۔]

______________________________________________________________________________________________

تاہم پاکستان کے موجودہ وزیرِاعظم کی جانب سے غلط اثاثے ظاہر کرنے کا یہ پہلا موقع نہیں تھا۔

فیکٹ فوکس کی جانب سے اُنکی جائیداد کے ریکارڈ، اِنکم ٹیکس گوشواروں اور الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی دستاورزات کا تفصیلی جائزہ یہ ثابت کرتا ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان نے متعدد بار ناصرف اپنے اثاثے چھپائے بلکہ اُنکے بارے میں غلط بیانی بھی کی۔

لاہور شہر کے قریب انتہائی اہم جائیداد ہو یا اُنکے نام آفشور کمپنی سے منسلک بینک اکائونٹس، پشاور میں پلاٹ سے لیکر توشہ خانے میں سے رکھ لیے گئے تحفے کا عُجلت میں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیے جانا ہو، اثاثے چھپانے اور اُن سے متعلق غلط بیانی کرنےکی متعدد کہانیاں عمران خان کے گرد لپٹی نظر آتی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان اور ان کے ترجمانوں فیکٹ فوکس کی طرف سے بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

عمران خان نے ایک کروڑ سولہ لاکھ اسی ہزار روپے مالیت کا توشہ خانے سے رکھا گیا ایک تحفہ جسکی اصل قیمت دو کروڑ تیتیس لاکھ نوے ہزار روپے ہے کو اپنے معمول کی نسبت کافی جلدی جمع کرائے گئے گوشواروں میں ظاہر کیا۔ دو ہزار اکیس میں جب عمران خان یہ گوشوارے جمع کروا رہے تھے تب ساتھ ہی اُنکی حکومت پاکستان انفارمیشن کمیشن یعنی پی آئی سی کی جانب سے جاری کیے جانیوالے حکم نامے کی تنسیخ کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کر چُکی تھی۔ واضح رہے کہ پی آئی سی نے اپنے جاری کردہ حکم نامے میں حکومت کو بیرونی ممالک سے موصول ہونیوالے تمام تحائف کی تفصیلات جاری کرنے کا حکم دیا تھا۔ غیرملکی حکومتوں کیطرف سے بھیجے جانیوالے تمام تحائف توشہ خانے میں رکھے جاتے ہیں۔ حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں یہ مئوقف اختیار کیا کہ توشہ خانہ کے سامان کی تفصیلات جاری کرنا "قومی مفاد” کے منافی ہے۔ یہ معاملہ ابھی بھی عدالت میں زیرِ التوا ہے۔

فیروزوالہ کی زمینیوں کی پراسراریت

عمران خان نے اپنی اہم ترین جائیدادوں میں سے ایک، پاکستان کے دوسرے بڑے دارالحکومت لاہور کے مضافات میں واقع ایک قیمتی زمین کو تقریباْ پانچ سال تک چھپائے رکھا اور بعد میں غلط بیانی کرتے ہوئے اپنےانکم ٹیکس گوشواروں میں "وراثتی جائیداد” کیطور پر ظاہر کیا۔

پاکستان میں اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ منتخب نمائندوں کو اثاثوں کے اظہار میں معمولی غلطیوں پر نااہل قرار دینے کی کئی مثالیں سمیٹے ہوئے ہے۔

اس قیمتی جائیداد کے کاغذات سے پتہ چلتا ہے کہ عمران خان اور اُنکی بہنوں نے یہ جائیداد اپنے والد اکرام ﷲ خان نیازی سے ستر لاکھ پاکستانی روپوں کے عوض اکتوبر دو ہزار چار میں خریدی۔

دوہزار چار میں والد کی طرف سے بچوں کوپانچ سو کنال زمین ستر لاکھ میں بیچنے کے معائدے کے پہلے صفحے کی تصویر۔ مکمل معائدہ دیکھنے کیلیے اوپر دیے گئے ٹیکسٹ میں ہائپرلنک پر کلک کریں۔

عمران خان اور انکی بہنوں نے نے تیرہ اکتوبر دوہزار چار کو اپنے والد سے زمین خریدی اور دو ہی دن بعد محکمہ مال کے ریکارڈ میں اس زمین کا انتقال بھی خریدنے والوں کے نام ہو گیا۔

دوہزار چار میں زمین کا عمران خان اور بہنوں کے نام انتقال

جائیداد کی سرکاری دستاویزات کیمطابق یہ زمین ایک خاتون مِس نگہت اِرم کی ملکیت تھی جِس نے خاص اِس زمین کیلئے اُنیس سو چھیانوے میں اکرام ﷲ خان نیازی کو پاور آف اٹارنی یا مختار نامہ دیا۔ یہ اہم اراضی جو پانچ سو کنال اور نو مرلے پر مشتمل تھی، موضع رنگیاں، پھالیہ، فیروز والہ، ڈسٹرکٹ شیخوپورہ ، لاہور شہر کے مضافات میں واقع ہے۔

لاہور شہر کے نواح میں واقع فیروزوالہ کا نقشہ

فیروزوالہ کی زمین کی حالیہ تصویر۔ نوٹ: یہ تصویر فیکٹ فوکس نے اٹھائیس دسمبر دوہزاراکیس کو لی۔

پاکستانی قانون کیمطابق اپنے نام پر موجود کوئی بھی اثاثہ ظاہر نہ کرنا اثاثہ چھپانا ہے اور اس سے متعلق غلط معلومات دینا غلط بیانی ہے۔ عمران خان نے یہ دونوں کام کیے۔ اگرچہ یہ جائیداد اُنھوں نے اکتوبر دو ہزار چار میں خریدی تھی تاہم اُنکی جانب سے الیکشن کمیشن میں سن دو ہزارپانچ، سن دو ہزار چھ، اور سن دو ہزار سات کیلیے جمع کرائی گئی اثاثوں کی تفصیلات میں اسکا ذکر نہیں تھا-



عمران خان کے سن دو ہزار پانچ سے دو ہزار نو کے انکم ٹیکس گوشواروں کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اِس اہم جائیداد کو اِن تمام سالوں کے دوران ٹیکس حکام سے بھی چھپاتے رہے ہیں۔ وہ ہی نہیں اُنکی بہنوں نے بھی دو ہزار پانچ سے دو ہزار آٹھ کے عرصے میں اِس جائیداد کو اِنکم ٹیکس حکام سے چھپائے رکھا حالانکہ یہ جائیداد اُنھوں نے خریدی تھی اور یہ اُنکے نام منتقل ہوئی تھی۔

دوہزارآٹھ میں والد کے انتقال کے بعد آخرکار دو ہزار نو میں وزیرِاعظم عمران خان کی ہمشیرہ، علیمہ خان نے اِس کو غلط بیانی کرتے ہوئے وراثتی جائیداد کیطور پر جسکی قیمت صِفر تھی ظاہر کیا۔ حالانکہ اُنھوں نے اپنی بہنوں اور بھائی کیساتھ ملکر اِسے ستر لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد خریدا تھا۔ یہ موروثی جائیداد نہیں تھی۔ کیونکہ پراپرٹی کی مالک نگہت اِرم تھیں۔جبکہ علیمہ خان کے والد کے پاس صرف پاور آف اٹارنی تھی جس سے وہ یہ زمین عمران خان اور اُنکی بہنوں کو بطور تحفہ نہیں دے سکتے تھے۔ اُنکے پاس صرف اِسکو بیچنے کا اِختیار تھا، مالکانہ حقوق نہ ہونے کیوجہ سے وصیت میں دینے کا اختیار نہیں تھا۔ اِس جائیداد کی "جمع بندی” نامی دستاویز بھی اِس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ اِس دستاویز سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ جائیداد دو ہزار چار تک مِس نگہت اِرم کے نام رہی اور اسی سال جب عمران خان اور اُنکی بہنوں نے اِسے خریدا تو اُنکے نام منتقل ہو گئی۔

آخر کار دوہزار دس میں عمران خان نے فیروزوالہ کی اس جائیداد کو اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیا مگر خریدی گئی اس جائیداد کو "وراثت” کے طور پر ڈیکلیئر کیا۔ یہی نہیں ٹیکس ریٹرنز میں اس کی قیمت بھی صفر بتائی جبکہ سرکاری دستاویزات کے مطابق یہ زمین خریدنے کیلیے انہوں ایک بڑی رقم ادا کی۔

دوہزاردس کے عمران خان کے کے ٹیکس ریٹرن کے متعلقہ حصے کی تصویر، دیکھا جاسکتا ہے کہ عمران خان نے فیروزوالہ پراپرٹی کو "وراثت” ظاہر کیا اور اسکی قیمت بھی صفر بتائی۔

پندرہ سال کی مسلسل غلط بیانی کے بعد عمران خان اور اُنکی چار بہنوں نے بالآخر اِس زمین کو متین احمد بھُلہ کو اکتوبر دو ہزار اُنیس میں پینتیس کروڑ روپے میں بیچ دیا۔ یہ زمین اکٹھی ایک ہی جگہ پر واقع ہے۔ عمران خان جو کہ ناصرف ملک کے وزیرِاعظم ہیں بلکہ ٹیکس ریفارمز کی اکثر وکالت کرتے بھی نظر آتے ہیں، نے خود اپنی بہنوں کیساتھ اِس مکمل زمین کو اسّی رجسٹریز جن میں سے ہر ایک کی مالیت چالیس لاکھ روپے تھی کے ذریعے فروخت کیا۔ ایسا خریدار کی جانب سے ٹیکسز سے بچنے کیلیے کیا جاتا ہے جِن کا اطلاق زمین کی قیمت چالیس لاکھ سے اوپر ہونے کی صورت میں ہوتا ہے۔ اِس طرح ایک ہی زمین کو دو مہینے کے عرصے میں اسّی ٹکڑوں میں فروخت کر کے عمران خان اور اُنکی بہنوں نےجائیداد کے خریدار کی ٹیکس بچانے میں سہولت کاری کی۔ پراپرٹی خریدنے کے بعد تین سال کے عرصے میں فروخت کرنے پر فروخت کنندہ پر کوئی ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ عام طور پرخریدار اورفروخت کنندہ اس طرح اسلیے کرتے ہیں کہ خریدنے والے کو زیادہ ٹیکس نہ دینا پڑے اور اس طرح پراپرٹی کی قیمت کچھ زیادہ کر لی جاتی۔ اِس طرح دونوں پارٹیز ریاست کو قانونی جائز ٹیکسز سے محروم کر رہی ہوتی ہیں۔

عمران خان اور بہنوں کی طرف سے ایک ہی جگہہ پر واقع ایک ہی زمین کو ایک ہی شخص کو اسّی مرتبہ بیچنے کے بعد زمین کے اسّی انتقال ہوئے۔ یہ ان میں سے ایک انتقال کی تصویر ہے۔ فیکٹ فوکس نے محکمہ مال کے دفاتر سے اصل ریکارڈ کا مکمل جائزہ لیا۔

دوہزارانیس میں فیروزوالہ پراپرٹی بیچنے کے اسّی معائدوں میں سے ایک "سیل اگریمنٹ” کے آخری صفحے کی تصویر۔

اِکرام چوہدری سنیئر ایڈووکیٹ سُپریم کورٹ جو اسلام آباد میں مقیم ہیں، سے جب پوچھا گیا کہ اگر ایک خطہِ اراضی کسی شخص نے ایک مکمل رجسٹرڈ معاہدے کے تحت خریدا ہو اور ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے ریکارڈ کیمطابق جائیداد کو اِس شخص کے نام پر منتقل کیا گیا ہو تو کیا وہ شخص اِس زمین کو اپنے ٹیکس کو گوشواروں اور ویلتھ سٹیٹمنٹ میں ظاہر کرنے کا پابند ہے؟ چوہدری صاحب نے جواب دیا:” یقیناْ اُس شخص کیلئے اِس پراپرٹی کے اپنے نام منتقل ہونے کے بعد اِس مالی سال کے اِنکم ٹیکس کے گوشواروں میں پراپرٹی کو ظاہر کرنا ضروری ہے۔” اِس ہی سوال کا جواب دیتے ہوئے اسلام آباد کے ایک سینئر ایڈووکیٹ عامر عبدﷲ عباسی نے کہا: "ہاں۱ ایک بار جائیداد آپکے نام ہو جائے تو اِسکو ظاہر کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ تاہم، صرف ایک انکم ٹیکس کا ماہر ہی جائیداد خرید کر ظاہر نہ کرنے کی صورت میں لاگو ہونیوالی سزائوں کا تعین کر سکتا ہے۔”

اِس سوال کے جواب میں کہ کیا ایک خِطہ زمین کیلیے مختار نامہ یا جنرل پاور آف اٹارنی رکھنے والا شخص جو اپنے بیٹے کو کسی رقم کے عوض باقاعدہ فروخت کے معاہدے کے تحت اپنی زندگی میں وہ خطہِ زمین فروخت کرتا ہے، تو کیا اُسکا بیٹا اِس زمین کو وراثتی جائیداد کیطور پر ظاہر کر سکتا ہے؟ چوہدری صاحب اور عباسی صاحب دونوں کا مئوقف تھا کہ وہ بیٹا ایسی صورت میں اِس جائیداد کو وراثتی جائیداد کیطور پر ظاہر نہیں کر سکتا۔ اُنھوں نے کہا "یہ غلط بیانی کے زمرے میں آئیگا”۔

پشاور کا تحفہ اور ٹیکس اتھاریٹیز

عمران خان نے دو ہزار پانچ میں پشاور شہر میں ایک پلاٹ تحفتاً وصول کیا۔ جس کا اعتراف وہ متعدد بار کرچکے ہیں۔ تاہم انھوں نے اس پلاٹ کو اپنے انکم ٹیکس گوشواروں یا ویلتھ سٹیٹمنٹ میں کبھی ظاہر نہیں کیا۔ انھوں نے اس پلاٹ کی ملکیت کو اٹھائیس دسمبر دوہزار پندرہ کو پشاور میں ہونیوالی ایک تقریب میں دورانِ تقریر بھی تسلیم کیا اور مزید کہا کہ وہ یہ پلاٹ چند سال قبل عطیہ کر چکے ہیں۔

عمران خان اٹھائیس دسمبر دوہزارپندرہ کو شوکت خانم کینسر ہاسپٹل کے افتاح کے موقع پر خطاب کر رہے ہیں۔

لاہور میں پلاٹ کے حصول کیلئیے حکومت کے ساتھ غلط بیانی

انیس سو ستاسی میں جب قومی تاریخ میں پہلی مرتبہ پاکستانی کرکٹ ٹیم نےبھارتی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دی پنجاب کی صوبائی حکومت نے فاتح ٹیم کے سب کھلاڑیوں کو رہا ئشی پلاٹس دینے کا اعلان کیا۔ تاہم اس قسم کا کوئی پلاٹ وصول کرنے کی ایک بنیادی شرط بیانِ حلفی جمع کرانا تھا کہ وصول کنندہ کی ملکیت میں پہلے سے کوئی گھر یا رہائشی پلاٹ نہیں ہے۔ دو اپریل انیس سو ستاسی کو عمران خان نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ایک رہائشی پلاٹ اُن کے نام الاٹ کیے جانے کیلئیے درخواست دی ساتھ میں بیان حلفی بھی جمع کرایا جِسکے مطابق عمران خان کا پورے پنجاب میں کوئی گھر یا رہائشی پلاٹ نہیں تھا۔ چار اپریل انیس سو ستاسی کو تب کے وزیر اعلیٰ نے عمران خان کے نام فیصل ٹائون لاہور میں رہائشی پلاٹ کی الاٹمنٹ کی منظوری دیدی۔ جبکہ بیانِ حلفی جمع کراتے وقت نا صرف عمران خان اپنے خاندانی گھر میں مقیم تھے بلکہ ویسٹ وُڈ ہائوسنگ سوسائیٹی، لاہور میں ایک سے زیادہ پلاٹس کے مالک تھے۔
ویسٹ وُڈ ہائوسنگ سوسائیٹی عمران خان کے والد، اکرام ﷲ خان نیازی نے اَسی کی دہائی کے وسط میں آباد کی اور عمران خان نے اِس سوسائیٹی میں پلاٹس لیے۔
انیس سو ستاسی میں انڈیا میں ہونیوالی پانچ میچوں کی سیریز میں چار میچز ڈرا ہوئے۔ پاکستان نے ایک میچ جیت کر سیریز اپنے نام کی۔ بہت کم سکورز والا یہ ٹیسٹ میچ بنگلور میں تیرہ سے سترہ مارچ کے دوران کھیلا گیا۔ بائولرز اقبال قاسم اور توصیف احمد نے پہلی اننگز میں پانچ پانچ جبکہ دوسری اننگز میں چار چار وکٹیں لیں جبکہ بقایا دو وکٹیں وسیم اکرم نے حاصل کیں۔

آف شور کمپنی اور لندن اپارٹمنٹ

سرکاری دستاویزات کے مطابق عمران خان نے یہ پہلی دفعہ نہیں کیا۔ دستاویزات کہتی ہیں کہ عمران خان نے 10 مئی 1983 کو جرزی آئلینڈ میں ”نیازی سروسز لیمٹڈ“ نامی ایک آف شور کمپنی بنائی۔ بدتدریج اس آف شور کمپنی کے الگ الگ اکاؤنٹ بارکلیز بینک میں کھولے گئے۔ یہ امریکی ڈالر، برطانوی پاؤنڈ، اور یورو اکاؤنٹ تھے۔ 3 مئی 1984 میں اس آف شور کمپنی کے ذریعے لندن میں ایک اپارٹمنٹ خریدہ گیا جس کی مالیت 117,000 پاؤنڈ تھی۔ اس کا پتہ فلیٹ نمبر 2، 165 ڈریکوٹ ایونیو، لندن (کینسنگٹن) تھا۔

اس کمپنی کی بنیاد 1983 میں رکھی گئی اور اس کو 2015 میں ختم کردیا گیا۔ اس طویل عرصے میں عمران خان نے نہ ہی یہ کمپنی اپنے ٹیکس رٹرن میں ڈیکلیئر کی اور نہ ہی الیکشن کمشن پاکستان کو اس کے وجود سے آگاہ کیا۔

خان نے 1984 سے لے کے 2000 تک اپنا لندن اپارٹمنٹ تمام ٹیکس لینے والے محکموں سے چھپائے رکھا۔ 2000 میں خان نے اس اپارٹمنٹ کو جنرل پرویز مشرف کی آمریت میں جاری کردہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے ڈیکلیئر کیا۔ یہ سکیم بلیک منی کو سفید کرنے کے لئے وجود میں لائی گئی تھی۔ کئی میڈیا ذرائع کے مطابق مشرف سمیت کئی دیگر شخصیات عمران خان کو وزیرِ اعظم بنانے پر غور کر رہی تھیں۔ 2002 کے انتخابات میں دھاندھلی کے منصوبوں کی بھی خبریں میڈیا پر کاقی دیر سے چل رہی تھیں۔ حالانکہ عمران خان اُس وقت وزیرِاعظم نہیں بنے، یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے اثاثے نہ ڈیکلیئر کرنے پر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے جس کے نتیجے میں وہ انتخابات نہیں لڑ سکتا۔

حنیف عباسی کیس سے ہٹ کے کچھ نکات جن پر سپریم کورٹ نے ابھی بھی غور کرنا ہے:

حنیف عباسی کیس میں 15 دسمبر 2017 کو سپریم کورٹ کے جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان کو اثاثے ڈیکلیئر نہ کرنے کے باوجود بری کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ حالانکہ عمران خان نے 16 سال تک یہ اثاثے چھپائے، انہوں نے ایک سرکاری ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے ذریعے بالآخران کو ڈیکلیئر کردیا۔

سمریم کورٹ کا ماننا تھا کہ چونکہ یہ ایمنسٹی سکیم قانون کے دائرہِ کار میں رہتے ہوئے وجود میں آئی، اس میں جتنے بھی اثاثے ڈیکلیئر ہوئے ہیں ان پہ قانونی کارروائی نہیں کی جا سکتی۔

سمریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ آف شور کمپنی ”نیازی سروسز لیمٹٹد“ کا واحد مقصد صرف لندن اپارٹمنٹ سنبھالنا تھا جس وجہ سے 2000 میں ایمنسٹی سکیم میں اپارٹمنٹ ڈیکلیئر کرنے کے بعد عمران خان پہ یہ لازم نہیں تھا کہ وہ آف شور کمپنی بھی ڈیکلیئر کرتے۔

البتہ، سپریم کورٹ ”نیازی سروسز لیمڈڈ“ کی تمام بینک سٹیٹمنٹس نہیں دیکھ سکا چونکہ پچھلے 15 سالوں میں سے صرف پچھلے کچھ سالوں کی بینک سٹیٹمنٹس ہی فراہم کی گئی تھیں۔

لیکن ابھی بھی جو بینک سٹیٹمنٹس سمریم کورٹ کے پاس موجود ہیں اور جو عمران خان نے اپنے مصدقہ ٹؤیٹر اکاؤنٹ پر شائع کی تھیں انہیں دیکھ کر کوئی شک نہیں رہتا کہ یہ آف شور کمپنی صرف لندن اپارٹمنٹ کے لئے ہی نہیں بلکہ دیگر چیزوں کے لئے بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ یہاں عمران خان پر پھر اپنے حقیقی اثاثے ڈیکلیئر کرنے کی ذمہ داری پڑ جاتی ہے۔

”نیازی سروسز لمیڈڈ“ کے وہ بینک اکاؤنٹس جو لندن اپارٹمنٹ کے سوا دیگر چیزوں کے لئے استعمال ہوتے رہے ہیں:

ان مختلف بینک اکاؤنٹس کی مختلف ٹرانزیکشنز سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان سے صرف لندن اپارٹمنٹ نہیں سنمبھالا جا رہا تھا بلکہ یہ اور بھی چیزوں کے لئے کی جاتی رہی ہیں۔

جب سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف جولائی 2017 میں جے آئی ٹی کی تحقیقاتی رپورٹ کے نتیجے میں سپریم کورٹ کی سماعتوں کا سلسسہ جاری تھا تو ٹی وی اور سوشل میڈیا پہ یہ بیانیہ تشکیل دیا گیا کہ نواز شریف اپنے لندن فلیٹس کی منی ٹریل پیش کرنے میں ناکام رہے ۔ عمران خان نےسوشل میڈیا پر اس بیانے کو طول دیتے ہوئے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کے اپنے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ 80 کی دہائی میں اپنا لندن اپارٹمنٹ خرید سکیں۔ اس کوشش میں انہوں نے اپنے مصدقہ ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بینک چیکس اور ڈیپوزٹ سلپس کی تصاویر لگائیں تھیں۔

بیانیے کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا قانونی نکتے کا سہارا لینا ہے: عمران خان کس کشمکش میں تھے؟

عمران خان نے یہ بیانیہ بنانے کی کوشش کی کہ ان کے مخالفین کے پاس پرانے دستاویزات نہیں ہیں جبکہ انکے اپنے پاس تمام ریکارڈ موجود ہیں۔ اس سب میں وہ یہ بھول گئے کہ عدالت میں جو قانونی مسئلہ زیرِ بحث تھا وہ اس سے بالکل ہی الگ تھا۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ خواں ان کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ یہ اپارٹمنٹ خرید سکیں بلکہ مسئلہ یہ تھا کہ انہوں نے غیر قانونی طور پر یہ آف شور کمپنی اور اس کے بینک اکاؤنٹس چھپائے۔

جسٹس ثاقب نثار نے عمران خان کی آف شور کمپنی اور اس کے اکاؤنٹس کی کسی پیچیدگی یا تفصیل کا جائزہ لئے بغیر کہہ دیا کہ یہ کمپنی صرف اُس لندن اپارٹمنٹ کے لئے ہی بنائی گئی اور استعمال ہوتی رہی۔ لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر سخت پابندیوں کی وجہ سے کئی حقائق سرِ عام نہیں لائے جا سکے۔

فیکٹ فوکس نے اس کیس کا اور ان بینک اکاؤنٹس کا تفصیلی جائزہ لیا۔ سپریم کورٹ کے ریکاڑڈ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کمپنی کے بینک اکاؤنٹس سے 100,000 پاؤنڈز کی ٹرانزیکشنز کی گئیں جن میں سے کئی لندن اپارٹمنٹ سے منسلک نہیں تھیں۔ یہ رقم اُس رقم سے زیادہ تھی جو لندن اپارٹمنٹ کی مورگیج اور ڈاؤن پیمنٹ کے لئے درکار تھی۔

یہاں یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ یہ 100,000 پاؤنڈ سے زائد کی رقم صرف پچھلے پانچ سالوں کی ہے جن کا ریکارڈ عدالت میں پیش کیا گیا۔ 15 سالوں کی (1985، 1986، 1990-2002) بینک سٹیٹمنٹس فراہم نہیں کی گئیں۔ صرف اس رقم سے ہی جو عمران خان نے ٹوئٹر پر شائع کی تھیں یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ آف شور کمپنی لندن اپانرٹمنٹ کے سوا اور بھی چیزوں کے لئے استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس سے یہ آف شور کمپنی ایک علیحدہ ہستی کے طور پر سامنے آتی ہے جو اپارٹمنٹ سے اس طرح منسلک نہیں جس طرح اسے دکھانے کی کوشش کی گئی۔

لندن اپارٹمنٹ کی خریداری اور اس کی بینک ٹرانزیکشن:

عمران خان کی جانب سے سپریم کورٹ کو زیرِ حلف پیش کردہ دستاویزات کے مطابق ”نیازی سروسز لیمڈڈ“ کے سات اکاؤنٹس کھولے گئے جو یورو، امریکی ڈالر اور پاؤنڈز میں تھے۔ یہ اکاؤنٹ نیشنل ویسٹمنسٹر بینک، بارکلیز بینک، لائڈز بینک اور رایل ٹرسٹ بینک میں کھولے گئے۔ لیکن اس بات کی تصدیق نہیں کی جا سکتی کہ 2003 میں اپارٹمنٹ بیچنے سے پہلے اس کمپنی کے کتنے اکاؤنٹ تھے چونکہ عمران خان نے عدالت میں 20 سالوں میں سے صرف 5 سالوں کے دستاویزات جمع کروائے۔ ان دستاویزات میں سے بھی صرف ان چار بینکس کی بینک سٹیٹمنٹس مہیا کی گئیں۔

لندن اپارٹمنٹ کے تمام اخراجات:

عمران خان کی سپریم کورٹ کی سٹیٹمنٹ کے مطابق لندن اپارٹمنٹ کی قیمت 117,500 پاؤنڈز تھی جبکہ اس پہ 1,175 پاؤنڈ کی سٹیمپ ڈیوٹی لگی اور دیگر قانونی اخراجات پر 2075 پاؤنڈ لگے۔ عمران خان کی بینک سٹیٹمنٹس کے مطابق 1984 میں انہوں نے 60,750 پاؤنڈ اپنی آمدن میں سے ادا کئے جبکہ باقی کے 60,000 پاؤنڈ انہوں نے رایل ٹرسٹ سے مورگیج لے کے ادا کئے۔

عمران خان نے یہ مورگیج مختلف اقساط میں واپس ادا کی۔ انہوں نے سود میں 44,024 پاؤنڈ ادا کئے۔ اس سب کو شامل کر کے عمران خان نے اپارٹمنٹ کے لئے کل 161,524 پاؤنڈ ادا کئے۔

نیازی سروسز لیمٹڈ کے بینک اکاؤنٹز کی مزید تفصیلات

ان دستاویزات میں 1983 میں کی گئی دو ڈیبٹ اور ایک کریڈت ٹرانزیکشن کا تذکرہ ہے جو اس کمپنی کے لائڈز بینک اکاؤنٹ میں کی گئیں۔ اس اکاؤنٹ میں 17,282 پاؤنڈ کی رقم آئی۔

اسی طرح 1984 میں بھی لائڈز بینک اکاؤنٹ میں ایک ڈیبٹ اور ایک کریڈت ٹرانزیکشن ہوئی۔ اس اکاؤنٹ میں 75,000 پاؤنڈ آئے۔

1985: تفصیلات موجود نہیں ہیں۔


1986: تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

اسی طرح 1987 میں اسی آف شور کمپنی کے دو رایل ٹرسٹ بینک کے دو اکاؤنٹس میں دو درجن سے زائد ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ اسی طرح 57,704 پاؤنڈ کی ایک رقم کو ”براٹ فارورڈ“ ظاہر کیا گیا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ اکاؤنٹ اس سے پچھلے سال یعنی 1986 میں بھی فعال تھا۔

اسی طرح 1988 میں اسی کمپنی کے دو اکاؤنٹ فعال رہے جن میں سے ایک میں 50,000 پاؤنڈ سے زائد کی رقم موجود تھی۔ اسی سال ”نیازی لیمڈڈ سروسز“ کا ایک اور اکاؤنٹ بارکلیز بینک میں بھی تھا جس میں ایک ڈیبٹ اور پانچ کریڈٹ ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ ان پانچ کریڈٹ ٹرانزیکشنز کی کل رقم 12,792.89 پاؤنڈ تھی۔ اپنے ایک بینک سٹیٹمنٹ میں عمران خان نے بتایا کہ انہوں نے جنوری 1988 میں 190,000 پاؤنڈ کمائے۔

اسی طرح 1989 میں رایل ٹرسٹ کے دونوں بینک اکاؤنٹ فعال رہے۔ گو کہ بارکلیز بینک کی بینک سٹیٹمنٹس موجود نہیں، لیکن عمران خان کی جمع کردہ دستاویزات کے مطابق اس اکاؤنٹ میں 49,081 پاؤنڈ جمع کرائے گئے۔ اس آف شور کمپنی کے نیشنل ویسٹمنسٹر اکاؤنٹ میں دو ٹرانزیکشنز ہوئیں جن کے نتیجے میں اُس میں کل 100,800 پاؤنڈ جمع کرائے گئے۔

اس سب سے معلوم ہوتا ہے کہ 1984 سے لے کر 1989 تک عمران خان نے لندن اپارٹمنٹ کی ڈاؤن پیمنٹ پر، سود کے ساتھ مورگیج واپس کرنے پر، اور اس پر دیگر اخراجات کو ملا کر 161,524 پاؤنڈ ادا کئے جبکہ جو رقم انہوں نے کمائی اور ان کے بینک اکاؤنٹ میں جمع ہوئی وہ 290,000 پاؤنڈ تھی۔ اس کے باوجود کہ عمران خان نے 1983، 1984، 1987، 1988 اور 1989 کے کوئی بینک ریکارڈ جمع نہیں کروائے اور 1985، 1986، 1990-2002 (15 سال میں) کسی بھی قسم کا ریکارڈ جمع نہیں کرائے، صرف ان دستاویزات سے جو انہوں نے جمع کرائیں یہ بات واضح ہے کہ لندن اپارٹمنٹ کے سوا بھی یہ آف شور کمپنی استعمال میں آتی رہی ہے۔ نیازی سروسز لیمڈڈ ایک علیحدہ ہستی ہے اور عمران خان پہ یہ ذمہ داری لاگو ہوتی تھی کہ وہ اس کو ڈیکلیئر کرتے۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ عمران خان کو اپنے بارکلیز بینک اکاؤنٹ میں 2003 میں اپارٹمنٹ بیچنے کے باوجود پیسے آتے رہے۔ لندن اپارٹمنٹ بیچنے پر انہیں 690,307 پاؤنڈ ملے لیکن مختلف ٹرانزیکشنز کے ذریعے ان کو 2006 سے 2010 کے درمیان بارکلیز بینک اکاؤنٹ میں 84,047 یورو بھی موصول ہوئے۔ ایک عدالتی کارروائی کے نتیجے میں، عمران خان کو یہ رقم ڈچ شہری ایچ وین ڈار لُو سے موصول ہوئے جو لندن اپارٹمنٹ میں کرائے دار تھا۔ عمران خان کے وکیل نے بتایا کہ اس کرائے دار سے آنے والی رقم عمران خان کے سالانہ ٹیکس رٹرن میں پاکستانی روپے میں تبدیل کرکے ڈیکلیئر کی گئی ہے۔ لیکن فیکٹ فوکس نے جب اس ٹیکس ریکارڈ کا جائزہ لیا تو ایک دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی۔ عمران خان نے 15 ملین سے 30 ملین روپے کی رقم 2007 سے پہلے ”کیش ان ہینڈ“ کے طور پر ڈیکلیئر کی۔ یہ بھی دلچسپ ہے کہ عمران خان ہمیشہ سے بیرونی کرنسی (پاؤنڈ، ڈالر اور یورو) ہی ڈیکلیئر کرتے آئے ہیں۔

توشہ خانہ کی قیمتی اشیا کو چھپانا

نومبر 2020 میں یہ بات سرِعام ہوئی کہ توشہ خانہ اشیا کا حصول ہوا جو پھر پاکستان کے دوست ممالک کو یہ اشیا تحائف کے طور پر دے دی گئیں۔ نتیجتاً ایک پاکستانی شہری رانا ابرار خالد نے کیبنٹ ڈیوژن میں ایک حقِ معلومات درخواست درج کرائی جس میں وزیرِ اعظم کے حاصل کردہ توشہ خانہ تحائف کی تفصیلات اور ان کی قیمت کے بارے میں معلومات مانگی گئیں۔ کیبنٹ ڈیوژن نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ اس کے نتیجے میں رانا خالد پاکستان انفارمیشن کمشن پہنچ گئے۔

جنوری 2021 کو پی آئی سی نے کیبنٹ سے ان توشہ خانہ اشیا کی جو وزیرِ اعظم نے خریدے تھے، قیمت کے بارے میں تفصیلات طلب کیں۔ ان کو یہ بھی کہا گیا کہ ان تفصیلات کو کیبنٹ ڈیوژن کی ویب سائٹ پر شائع کیا جائے۔

یہ جاننا ضروری ہے کہ جب پی آئی سی نے کیبنٹ ڈیوژن سے وضاحت مانگی تو انہوں نے بنا کسی وجہ کے یہ معلومات دینے سے انکار کردیا۔ قانون کے مطابق اگر کوئی بھی ادارہ حقِ معلومات کی درخواست مسترد کر دیتا ہے تو پی آئی سی کے حکم پر انہیں اس کی وجوہات بتانا لازمی ہے۔

فیکٹ فوکس کی تحقیقات کیمطابق جب توشہ خانہ سکینڈل زبان زدِعام ہوا تو عمران خان نے اپنے مالی سال دو ہزار بیس اِکیس کے سالانہ انکم ٹیکس گوشوارے تیس ستمبر دو ہزار اِکیس کو مطلب اپنے پچھلے سالوں کے معمول کیمطابق گوشوارے جمع کرانے کی تاریخوں سے بہت پہلے جمع کرائے اور اِن میں توشہ خانہ والی قیمتی چیز کو بھی ایک کروڑ سولہ لاکھ اسی ہزار روپے کی قیمت کیساتھ شامل کیا گیا تھا۔

تیس ستمبر دوہزاراکیس کو عمران خان کے وکلاء کی جانب سے جلد بازی میں جمع کروائے گئے دوہزار اکیس کے ٹیکس ریٹرنز کے متعلقہ حصے کی تصویرجس میں توشہ خانہ کے قیمتی تحفہ کی قیمت ایک کروڑ سولہ لاکھ اسّی ہزار دکھائی گئی ہے۔

پچھلے چند سالوں میں عمران خان کی طرف سے سالانہ ٹیکس ریٹرنز جمع کروانے کی تاریخیں


تاہم عمران خان نے اس قیمتی چیز سے متعلق معلومات فراہم کرنے سے گریز کیا، جو کے ٹیکس کے قوانین کیمطابق لازمی ہے۔
توشہ خانہ کے تحائف کو حکام کیبنٹ ڈویژن کی جاری کردہ پالیسی کے تحت رکھ سکتے ہیں۔ صِرف صدر یا وزیرِاعظم ایسے تحائف غیر ملکی مہمانوں سے یا اپنے غیر ملکی دوروں کے دوران وصول کر سکتے ہیں۔
عمران خان نے اپنے دورِحکومت کے دوران توشہ خانہ کے تحائف رکھنے سے متعلق نئی اٹھارہ دسمبر دو ہزار اٹھارہ کو نئی پالیسی متعارف کرائی۔ جو در حقیقت پرانی تمام پالیسیز سے بہتر تھی۔ نئی پالیسی کیمطابق وہ تحائف جنکی قیمت تیس ہزار روپے سے کم ہے بنا کسی رقم کی ادائیگی کے وصول کنندہ اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔مگر وہ تحائف جو قیمت میں تیس ہزار سے زائد ہیں کو رکھنے کیلیے وصول کنندہ کو استثنیٰ والے تیس ہزار کے علاوہ بچ جانیوالی رقم کے نصف کی ادائیگی کرنا ہو گی۔ پالیسی میں تحفے کی قیمت معلوم کرنے کا جو نظام وضع کیا گیا ہے اسکے مطابق، کیبنٹ ڈویژن قیمت کا تعین فیڈرل بورڈ آف ریوینیو یعنی ایف بی آر اور قیمت کا تعین کرنیوالے نجی کارندوں جو اسکے منظور شدہ پینل پر ہونگے کی مدد سے کریگا۔
یہ وضاحت ظاہر کرتی ہے کہ قیمتی تحفہ جو عمران خان نے اپنے پاس رکھا اور بعد میں میڈیا پر عقدہ کھلنے پر اپنے دس ستمبر دوہزار اکیس کو عجلت میں جمع کرائے گئے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کیا کی کیبنٹ ڈویژن کیمطابق تعین کردہ قیمت دو کروڑ تیتیس لاکھ نوے ہزار ہے۔

عجلت میں ٹیکس گوشواروے جمع کرانے سے صرف دس دن پہلےدس ستمبر دو ہزار اکیس کو عمران خان کی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پی آئی سی کے وزیرِ اعظم کی طرف سے رکھے جانیوالے تحائف کی معلومات جاری کرنے سے متعلق حکم نامے کو چیلنج کر دیا تھا۔ عمران خان کی جانب سے دو ہزار سترہ میں ٹیکس گوشوارے پندرہ نومبر کو، دو ہزار اٹھارہ میں سترہ دسمبر کو اور دو ہزار بیس میں آٹھ دسمبر کو جمع کرائے گئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی حکومت کو غیر ملکی سربراہان، حکومتوں اور دوسرے حکام کی جانب سے دیے جانیوالے تحائف سے متعلق معلومات خفیہ رکھنے کے فیصلے پر نظرِ ثانی کا مشورہ دیا۔

” حکومت کو یہ معلومات عام کرنے پر کوئی شرمندگی نہیں ہونی چاہیئے۔” اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس مینگل حسن اورنگزیب نے خان صاحب کی حکومت کے متعلق تیرہ اکتوبر دو ہزار اکیس عدالتی کاروائی کے دوران کہا۔

گو کہ کیس ابھی بھی اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیرِ التوا ہے تاہم چونکہ عدالت نے ابھی سٹے نہیں دیا جسکا مطلب ہے پی آئی سی کا حکم ابھی بھی لاگو ہے اور خان صاحب کی حکومت تحائف سے متعلق معلومات جاری نہ کر کے پی آئی سی کے حکم نامے کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔

سالکل آمدنٹیکسکُل دولتمِس ڈیکلیریشنز کی کل تعداد
198141,0004,4770
198252,6564,8360
1983146,00048,6000
198448,7502,4002
198535,0005333
1986139,9974,1003
1987241,0005,6003
1988119,0003,5703
1989650,88798,1503
1990532,800228,7002,259,0793
1991322,28528,4632,423,4903
1992613,820278,3942,683,9163
1993275,0003,8574,172,9163
1994154,1666,8933,487,0823
1995342,88945,5293
1996NILNILNILNIL
1997450,00008,284,4743
1998500,00002,794,4743
1999600,00004,934,4743
2000600,00004,222,4723
2001600,00007,032,9322
200212,193,28432,39011,236,3122
2003784,99417,4861
20042,165,56272,384,4501
2005600,10621,33781,567,6322
20065,214,10659,60934,545,7693
20071,442,91630,06836,125,7323
20081,826,412105,4153
20099,421,78090,42126,122,7523
201010,634,7781,856,59928,941,8483
201123,530,044562,55421,564,7583
201216,138,683267,44030,171,0883
201312,329,503194,93629,675,2913
20149,981,717218,23732,721,3023
201535,650,56576,22443,485,0683
201612,983,878159,60940,997,2463
20174,776,611103,76338,694,4932
201823,882,990282,44957,949,4881
201945,657,7609,854,95980,691,6611
202080,590,663860,526142,119,1670
20217,064,604361,177141,084,9480
اثاثے چھپانے کی مکمل تاریخ: اس ٹیبل میں انیس سو اکاسی سے لے کر دوہزار اکیس تک ہر سال میں عمران خان کے پاس آنے والی رقوم، ادا کردہ ٹیکس، انکی کل دولت اور ہر سال انہوں نے کتنی مِس ڈیکلیریشنز کیں کی مکمل تفصیل درج ہے۔

عمران خان کی سن اکیاسی سے دو ہزار اکیس کے دوران ٹیکس حکام کے ساتھ غلط بیانی اور اثاثے چھپانے کی تفصیل

  • 1981

    عمران خان ٹیکس کے لئے رجسٹر ہوئے

  • 1983

    عمران خان نے نیازی سروسز لیمیٹڈ کے نام سے آفشور کمپنی بنائی۔ 

  • 1984

    نیازی سروسز لیمیٹڈ کے نام پر لندن میں اپارٹمنٹ خریدا گیا۔ عمران خان نے آف شور کمپنی اور اسکے اکاؤنٹ ڈکلئیر نہیں کئے۔ 

  • 1985-86

    آف شور کمپنی، کمپنی کے بینک اکاؤنٹ اور لندن اپارٹمنٹ چھپایا ۔ 

  • 1987

    عمران خان نے حکومت پنجاب کو حلف نامہ جمع کروایا کہ انکے پاس رہنے کو گھر نہیں ہے اور حکومت سے پلاٹ لیا۔ جبکہ اسکے نام پر پہلے سے پلاٹ موجود تھے۔ 

    آف شور کمپنی، کمپنی کے بینک اکاؤنٹ اور لندن اپارٹمنٹ چھپایا ۔ 

  • 1988-1999

    آف شور کمپنی، کمپنی کے بینک اکاؤنٹ اور لندن اپارٹمنٹ چھپایا ۔ 

  • 2000

    سن دو ہزار میں پرویز مشرف کی ایمنیسٹی سکیم سے فائدہ اٹھایا، اور لندن اپارٹمنٹ ڈکلئیر کیا ، مگر آف شور کمپنی چھپائی۔

     

  • 2001, 2002

    آف  ور  کمپنی کو چھپائے رکھا

  • 2003

    عمران خان نے لندن اپارٹمنٹ بیچ دیا اور آف شور کمپنی چھپائے رکھی۔ 

  • 2004

    عمران خان اور چاروں بہنوں نے فیرزوالہ میں اپنے والد سے پانچ سو کینال زمین خریدی۔ اور آف شور کمپنی چھپائے رکھی۔ 

  • 2005

    عمران خان کو پشاور میں پلاٹ مل، عمران خان نے، آفشور کمپنی اور فیروزوالہ والی خریدی ہوئی زمین کو ٹیکس حکام سے بچایا۔ 

  • 2006

    عمران خان نے اثاثے چھپائے رکھے، آف شور کمپنی، پشاور پلاٹ اور فیرز والہ والی زمین چھپائے رکھی۔ 

  • 2007-2014

    آف شور کمپنی، فیروزوالہ والی خریدی ہوئی زمین کو دو ہزار دس میں بطور وراثت ڈکلئیر کیا اور پشاور پلاٹ چھپائے رکھا۔ 

  • 2015

    عمران خان نے پشاور پلاٹ شوکت خانم کو عطیہ کر دیا ۔ ٹیکس حکام سے آف شور کمپنی، فیروزوالہ والی خریدی ہوئی زمین  وراثت لکھی اور پشاور پلاٹ چھپائے رکھا۔ 

  • 2016

    عمران خان نے اثاثے چھپانا جاری رکھا اور اور ٹیکس حکام کو نہیں بتایا کہ اس نے پلاٹ شوکت خانم کو دے دیا ہے۔

    فیروزوالہ والی خریدی ہوئی زمین  وراثت لکھی اور پلاٹ کا نہیں بتایا۔ 

  • 2017, 2018

     

    فیروزوالہ والی خریدی ہوئی زمین  وراثت لکھی

  • 2019

    عمران خان می فیروزوالہ والی زمین بیچ دی ۔ 

  • 2020

    عمران خان نے سات کروڑ پانچ لاکھ چوالیس ہزار نو سو ننانوے روپے زمین کی فروخت سے حاصل ہونے پر ڈکلئیر کئے ۔ 

  • 2021

    جب توشہ خانہ کا شور مچا اور عدالتی مداخلت کے باوجود حکومت کچھ نا ڈکلئر کر سکی تو عمران خان نے ٹیکس کے کاغذات میں ایک قمیتی چیز مالیتی 23.39 ملین ظاہر کی 

Scroll to Top