لہو لہو پاڑہ چنار: وزیر اعلیٰ کی اسلام آباد پہ یلغار

ریاستوں کی اپنی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ آج 26 نومبر کو بھارت میں یوم آئین منایا جا رہا ہے کہ آج ان کے آئین کا پچھترواں جنم دن ہے۔ اور وطنِ عزیز کے دارالخلافہ میں  شاہراہِ دستور پہ قائم پارلیمان، سپریم کورٹ اور فیڈرل سیکریٹیریٹ کو تالے لگا دیئے گئے ہیں اور ملازمین سے کہا ہے کہ جب تک معاملات دوبارہ ریاست کے ہاتھ نہیں آتے دفتروں کا رخ نہ کیجیو۔

تاجروں کی درخواست پہ چند منٹوں میں وزیر داخلہ، سیکرٹری داخلہ، چیف کمشنر و آئی جی اسلام آباد کو حاظر ہونے کا حکم دینے والے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ بھی معمول کے مقدمات پٹیشنرز اور وکلا کی عدم موجودگی کے باعث مقدمات اگلی تاریخوں پہ منتقل کرتے ہوئے گھر روانہ ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ اپنے ساتھی ججز جسٹس منیب اور منصور علی شاہ کی اس تجویز کو کہ 26ویں آئینی ترمیم کو زیرِ بحث لایا جائے قدموں تلے روندتے ہوئے ٹیکس اور زمین کے مقدموں کو زیرِ بحث لانے پہ مصر ہیں۔

وزیراعظم شہباز شریف بیلاروس کے صدر کونجانے کس کونے میں لئے بیٹھے ہیں اور دوطرفہ تجارتی معاہدے دستخط کرنے میں مصروف ہیں۔ وزیر داخلہ ہاتھ میں سرخ مارکر تھامے ہوئے ہر دو منٹ کے بعد اپنی ریڈ لائن تبدیل کر رہے ہیں۔ آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور جنہیں حال ہی میں ریاست نے اسلام آباد کے پوش سیکٹر ای ایلیون میں کروڑوں روپے مالیت کا پلاٹ پندرہ لاکھ میں دیا ہے، احتجاج کے دوران بے گناہ مارے جانے والے پنجاب پولیس کے جوانوں کے جذبے کو سلام پیش کر رہے ہیں۔ اور یہ عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ دارالخلافہ کی حفاظت کے لئے مزید نوجوان بھی جانیں دینے کو تیار ہیں کیونکہ پنجاب پولیس کی نفری دو لاکھ دس ہزار ہے۔ پاکستان رینجرز صبح دم اپنے چارجوانون کے جنازوں سمیٹنے کے بعد ڈی چوک میں آنے والے احتجاجیوں کو گلے لگا لگا کر سیلفیاں لے رہے ہیں۔

لاہور سمیت پنجاب کے بڑے شہروں اور موٹرویز اور جی ٹی روڈ کو بند کروانے کے بعد وزیراعلی پنجاب مریم نواز منظر سے ہی شاید اس لئے غائب ہیں کہ سوئزلینڈ میں علاج کے بعد ڈاکٹروں آرام کرنے کا مشورہ دیا ہو گا۔ اور ان کے والد جو تین بار وزیراعظم رہے ہیں، ووٹ کو عزت دلانے کی خاطر بزریعہ ہیلی کاپٹر مری پہنچ کریخ بستہ موسم اور حسین قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔

پردے کے پیچھے پاڑہ چنار میں بے گناہ مارے جانے والے دو سو کے قریب لہو لہان لاشیں ہیں جن کو پرسہ دینے پر وفاقی اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت میں اس بات پر جھگڑا ہے کہ یہ بے وقت اور بے موت مارے جانے والے کو پرسہ دینا کس کی ذمہ داری ہے۔ بے حسی کی جس معراج پہ ہم کھڑے ہیں یہاں لاشوں سے اغماز برتنا تو چنداں مشکل نہیں لیکن ان کے بیچوں بیچ چھ ماہ کے ایک شیر خوار کا خوں آلود دودھ کا فیڈر پڑا ہے اس سے کیسے نظریں چرائیں؟  اس شیر خوار کو ہم کیسے سمجھائیں کی تم کیوں مارے گئے ہو اور تمہاری موت کا ذمہ دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب  اس بچے  کے دادا کو ملا نہ باپ کو تو اسے کیسے مل سکتا ہے۔ یوں سرِ راہ اگر نہ مارا جاتا تو شاید موت اس کے اسکول میں اس کا تعاقب کرتے پہنچ آتی، وہاں سے بھی اگر بچ نکلتا تو امام بارگاہ اس کا مدفن بنتی وگرنہ اس ملک کے کھیت کھلیان، بازار،  ویسے ہی  لکی پاکستانی سرکس کا موت کا کنواں ہے۔  یہ سوال بھابھڑا بازار کے مقتولین سے لے کر پاڑہ چنار کے اس شیر خوار بچے کے قتل تک آج بھی تشنہ کام ہے اور اس کا جواب اس ملک کے کسی دانشور، کسی دانشگاہ، کسی مسجد، کسی امام بارگاہ، کسی اسمبلی، کسی عدالت کسی کے پاس نہیں ہے۔ ہاں شاید ایک دفعہ جنرل ٹکا کے منہ سے ریاستی پالیسی کا اعلان ہوا تھا۔ .I don’t need people, I need land

آج تک ریاست  نےاس ملک میں ہونے والے خاک و خوں کے کھیل میں ہزارہا افراد کے قتل کے سوال کا جواب جنرل ٹکا خان کے اسی جملے کے ذریعے دیا ہے کہ ریاست کو صرف زمین کی ضرورت ہے زمین زادوں کی نہیں۔ ریاست کے مالکان سے کسی قسم کا سوال پوچھنا خود اپنی موت کو  دعوت دینے کے مترادف ہے۔ خیبر پختونخواہ مین پاکستان تحریک انصاف کی منتخب حکومت کی بے حسی  دیکھ کر تو نیتن یاہو کو بھول گئے۔ ایک سو سترہ لاشوں پہ صوبہ کا ایک مختصر مگر جامع پیغام آیا کہ مرنے والوں کی مالی امداد کی جائے گی۔ نہ کوئی کابینہ کا ہنگامی اجلاس، نہ مقتولوں سے پرسہ، نہ قاتلوں کی نشاندہی اور ان کے کلاف ایکشن۔ پھر اس کے بعد صوبائی حکومت کے ترجمان اور پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت نے پاڑہ چنار کے مسئلے کو تاریخی، مذہبی اور جغرافیائی طور پر اتنا گنجلک بنایا کہ اب تو یقین آنے لگا ہے  کہ مرنے والوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں تھا۔ تاریخ میں پہلی دفعہ دیکھا کہ پشتون اور پشتون ولی کی تمام روایات کو پاوں تلے روندتے ہوئے نہ صرف لاشوں کا مثلہ کیا گیا بلکہ زندہ بچ جانے والی  بد نصیب عورتوں اور بچوں کو اغوا بھی کر لیا گیا۔ اگلے دن جب صوبائی حکومت اسلام آباد مارچ کی تیاری میں مصروف تھی تو مقتولین کے لواحقین نے قاتلین کے چار گاوں پر ہلہ بول کر مبینہ طور پہ آگ لگا دی۔اور یوں پاڑہ چنار پہ چھائی بے حسی، لاتعلقی، انسانیت سوزی اور یخ بستگی کے ماحول میں کچھ گرمیائش کی آمیزش ہوئی جس میں سب سے زیادہ تپش خونِ انسان نے نے بہم فراہم کی۔ وہ پاڑہ چنار جس کی حسین اور دلفریب وادیاں، بہتے چشمے، گنگناتی ندیاں، برف پوش چوٹیاں انسانی روح کو گرماتی تھیں خود انسانوں کی درندگی، سفاکیت اور بے حسی دیکھ کر دہل گئیں۔ 

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد