صحافی مطیع اللہ جان کو عدالت میں پیش کر دیا گیا، دو روز کا جسمانی ریمانڈ منظور

صحافی مطیع اللہ جان

صحافی مطیع اللہ جان کو آج جمعرات کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت مین پیش کیا گیا۔ ان کے کلاف دو روزہ ریمانڈ منظور کر لیا گیا۔

صحافی مطیع اللہ جان کو اغوا کے بعد پولیس اہلکاروں پر حملہ کرنے, منشیات برآمدگی، دہشت گردی اور دیگر جرائم میں گرفتارکیا گیا

اسلام آباد کے تھانہ مارگلہ میں مطیع اللہ جان کے خلاف اسلام آباد پولیس نے مقدمہ درج کیا اور یہ دعوی کیا ہے کہ رات کے پچھلے پہر صحافی مطیع اللہ جان کار میں سوار ہو کر آئے اور ناکے پر موجود پولیس اہلکاروں پر گاڑی چڑھا کر ان کو جان سے مارنے کی کوشش کی۔ان کی تیز رفتار کار پلاسٹک کے بیراکڈ سے ٹکرا کر رک گئی۔اس کے بعد مطیع اللہ جان کار سے بر آمد ہوئے اور انہوں نے ناکے پر موجود متعدد مسلح پولیس اہلکاروں سے اسلحہ چھین کر ان کو اسلحہ کی زد پر لے لیا۔

ایف آئی آر کے مطابق مطیع اللہ جان نے پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے ان پر تشدد کیا کہ پولیس اہلکار زخمی ہو گئے۔بعد ازاں پولیس نے حکمت عملی سے ان کو گرفتار کر لیا۔

پولیس کی مدعیت میں مطیع اللہ جان کے خلاف درج مقدمہ میں تعزیرت پاکستان کی دفعات
186/353/427/506/382/411/ اور 279 دہشت گردی، منشیات برآمدگی، کار سرکار میں مداخلت، پولس اہلکاروں پر حملہ اور دیگر شامل کی گئی ہیں۔تاہم اسلام آباد پولیس سے بار بار رابطہ کرنے کے باوجود پولیس نے اس حوالے سے موقف نہیں دیا۔

اس سے قبل جمعرات کی صبح مطیع اللہ جان کے بیٹے نے ’سادہ کپڑوں میں ملبوس نامعلوم افراد کی جانب سے اپنے والد کے اغوا‘ کیے جانے کے خلاف کراچی کمپنی میں درخواست دائر کی تھی۔ تاہم بعد ازاں معلوم ہوا کہ وہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں اور ان کے خلاف باقاعدہ مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پولیس کی طرف سے مطیع اللہ جان کی گرفتاری ظاہر کرنے سے قبل مطیع اللہ جان کے بیٹے نے تھانہ کراچی کمپنی میں ان کے اغوا کی درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں اُن کے بیٹے کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ اُن کے والد کے اغوا کا واقعہ گذشتہ رات گیارہ بجے کے قریب اسلام آباد کے پمز ہسپتال کی پارکنگ میں پیش آیا۔ جس وقت مطیع اللہ جان کو ’اغوا‘ کیا گیا اس وقت ان کے ہمراہ۔ صحافی ثاقب بشیر بھی موجود تھے جنھیں بعدازاں اغواکاروں کی جانب سے چھوڑ دیا گیا۔ بیٹے نے بتایا کہ انھیں اپنے والد کے اغوا کی بابت صحافی ثاقب بشیر نے صبح چار بجے بتایا