مار دو!

پاکستان میں بد عنوانی اور قتل دستورِ حیات ہے۔ قتل ریاستی اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں  ہو تو ماورائے عدالت اور اگر  عدالت کے ہاتھوں ہو تو قانون کی تجارت اور سیاست ۔

یہاں انصاف اور عدل، عدالتی کٹہرے میں ججوں اور وکیلوں سے لرزتے دکھائی دیتے ہیں اور عدالت سے باہر ملک کے مقتدر ریاستی اداروں بشمول پولیس، کے ہاتھوں یوں یرغمال ہیں جیسے طوائف تماشبینوں میں۔ پاکستان میں ماورائے عدال قتل کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ پاکستان خود۔ مار دو، پاکستان کا دستور اور منشور نظر آتا ہے۔ ساہیوال میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کا بہیمانہ قتل ہو، کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں دن دہاڑے بے دردی سے کسی جوان کو مارا گیا ہو، اسلام آباد میں نسٹ یونیورسٹی کے سامنے اسامہ ستی پولیس کی اندھا دھند گولیوں کا شکار ہو، ریاستی عقوبت خانوں سے مہاجروں کی  تشدد زدہ لاشیں سینکڑوں  سوال پوچھتی برآمد ہوں، یا پھر سردار عطااللہ مینگل کے بیٹے اسد مینگل کا گمنام قتل ہو یا اکبر بگٹی کی بلوچستان کے پہاڑوں میں پیرانہ سالی میں شہادت۔ سب وہ قتل ہیں کہ جن کے داغوں سے نہ صرف ریاست کا دامن داغدار ہے بلکہ ان بے موت مارے جانے والوں کے خون کے چھینٹے ریاست کے ماتھے پہ رگِ سنگ کی طرح ثبت ہیں۔ 

یہ تمام اندوہناک واقعات ذہن پر برق بن کر اس لئیے گرے ہیں کہ اسلام آباد میں پولیس کے ہاتھوں ایف نائن پارک میں ہونے والے ریپ کے واقعے میں ملوث مجرمان کا ماورائے عدالت قتل ہوا۔ 

انسان کی ہزار سالہ تاریخ اور جدوجہد انسانی سماج کو جنگل کے قانون سے نجات دلا کر کسی دستور، قانون اور جمہور کے تابع  کرنے کے لئے ہے۔ جس کا نقطہِ اول و آخر یہ ہے کہ ہر جرم کا ملزم قانون کے کٹہرے میں پیش ہو اور قانون عدل اور انصاف کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئےاسے انجام تک پہنچائے۔ ماورائے عدالت قتل تو انسانی سماج کا تہذیب و شعور کا زیور پہننے سے پہلے بھی تھا۔

پاکستان میں  پولیس کے ہاتھوں جعلی مقابلوں میں مارے جانے کی کہانیاں پہلے سندھ اور پنجاب تک محدود تھیں کہ جہاں پولیس اہلکار اپنے ذاتی مخالفین یا پھر اپنے آقاوں کے کہنے ہر کسی کو کہیں بھی مار کر پولیس مقابلے کا شاخسانہ گھڑ لیتے تھے۔ 

جیسے کہ سندھ میں میجر ارشد جمیل  کے ہاتھوں اپنے ذاتی مخالفین کے درجنوں افراد کا قتل ہوا اور   اشرف مارتھ اور عابد باکسر کے ہاتھوں پنجاب میں مارے جانے والے بیسیوں نام نہاد مجرمان یا ملزمان کے واقعات ۔

اب ریاست ِ پاکستان سینہ تان کر شہرِ اقتدار میں یہی طور طریقہ اپنائے ہوئے ہے۔ ریپ کے ملزمان کے بہیمانہ قتل پر واویلا کرنے ولوں اور ماتم کناں ہونے والوں کو ایک دفعہ ڈاکٹر شازیہ مری کا سوئی میں کیپٹن حماد کا واقعہ سامنے لائیں تو ان کو تمام سوالات کے جوابات واضح ہو جائیں گے اور یہ بنیادی نقظہ بھی سمجھ آ جائے گا کہ اس ریاست کے نذدیک جرم یا جرم کی سنگینی چنداں اہمیت نہیں رکھتی بلکہ مجرم کا ریاست سے تعلق ہی اس کی بریت اور سزا کا فیصلہ کرتا ہے۔ ریپسٹ اگر ریاست کے کسی مقتدر گھر کا ہو تو وکٹم کو پاکستان سے بمشکل زندہ بھاگنا پڑتا ہے۔  بصورتِ دیگر وہی ہوتا ہے جو سردار عطااللہ مینگل کے بیٹے، اکبر بگٹی، میر مرتضی بھٹو اور شہید ذوالفقار علی بھٹوکے ساتھ ہوا کہ کہیں سرِ راہ، کہیں غاروں میں ماورائے عدالت مارے جائیں گے یا عدالتی کٹہرے میں موت کی بھینٹ چڑھا دیئے جائیں گے۔ 

انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اسلام آباد میں ریپ کے مجرمان کے اسلام آباد پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کی عدالتی انکوائری کروانے کا مطالبہ کرنے والوں کو حموالرحمن کمیشن کی رپورٹ، کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں قتل ہونے والے نوجوان کے حوالے سے عدالتِ عظمی کے سو موٹو نوٹس اور ارشد شریف کی جے آئی ٹی کی رپورٹ کے نتائج کو جسٹس مظاہر نقوی اور پرویز الہی کے مابین ہونے والی مبینہ گفتگو کے پسِ منظر میں دیکھنا، پڑھنا، پرکھنا اور سمجھنا چاہئے۔  

Scroll to Top