آئین شکن کا جنازہ

دو ہزار چھ میں جب جنرل مشرف اور نواب اکبر بگٹی شہید کا تنازعہ چل رہا تھا تو جنرل صاحب نے مشہورِ زمانہ بیان دیا تھا۔ ” یہ سن ستر نہیں ہے۔ میں تمہیں وہاں سے ہِٹ کروں گا کہ کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا”۔ اکبر بگٹی کو غار میں کیسے ہٹ کیا گیا، اس کا تو سب کو پتا چل گیا لیکن جنرل مشرف کے بعد از مرگ سٹیٹ فیونرل کے اعلان نے پاکستان کے آزاد منش طبیعتوں، جمہوریت، قانون اور آئین کی بالا دستی پر یقین رکھنے والوں کو وہاں سے ہِٹ کیا ہے کہ شاید آئندہ کئی برسوں تک اس کی سمجھ آئے گی اور نہ پتا چلے گا۔
زرا تخیل کو جولانی دیجئے اور چار اپریل انیس سو اناسی کو گڑھی خدا بخش میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کی لاوارث تدفین کے منظر کو ذہن میں رکھئے اور پھر اسلام آباد انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے جنرل مشرف کے جسدِ خاکی کو پاکستان لائے جانےکے لئے مختص طیارے کے ٹائروں کی چنگاریوں اور اس کے اڑنے سے پہلے شور و غوغاں میں سن سنتالیس سے لے کر دو ہزار اٹھارہ تک کی آئین، جمہور اور انسانی آزادیوں پہ شبِ خون کی پوری تاریخ یوں منظرِ عام پر آتی ہے جیسے کہ ایوب خان کے مارشل لا کے بعد الطاف گوہر کی تحریر شدہ فرینڈز ناٹ ماسٹرز اور جنرل مشرف کے تاریک دور کے اختتام پر ہمایوں گوہر کی تحریر شدہ ان دا لائن آف فائر۔
بنیادی طور پر جنرل مشرف اپنے اقتدار کے دوران آئین، جمہور، جمہوریت اور اس مملکت کے باشندوں کو ریاست کی طرف سے دیئے جانے والی تمام سیکیوریٹیز اور تحفظات کا جنازہ، لاپتہ افراد، بلوچستان اور فاٹا میں ملٹری آپریشنز، آئے روز امریکی ڈرون حملے اور ملک کے طول و عرض کو خودکش بمباروں کے ہاتھوں خاک و خون میں نہلانے کی صورت اٹھا گئے تھے۔ اس لیئے انھیں سٹیٹ فیونرل کی ہرگز ضرورت نہیں تھی لیکن شاید ملک کے مقتدروں اور جمہوری جمہوروں نے باجوڑ کے مدرسے میں ڈرون حملے کے نتیجے میں ریزہ ریزہ ہونے والے بچوں، پشاور کے قصہ خوانی بازار میں چاند رات کو چوڑیوں اور مہندی کی خواہش میں نکلنے والی بے موت مارے جانے والی قوم کی بیٹیوں، اے پی ایس میں دن بھر کی مسافت میں لمحہ بہ لمحہ کٹ مرنے والے نونہالوں اور حال ہی میں پشاور پولیس لائنز میں سینکڑوں پولیس کے جوانوں کے مقتل میں ناحق زبح ہوتے ہوئے کاٹلنگ کے شہید کا لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے گیٹ پر کہے اس جملے "مجھے مرنے کا غم نہیں لیکن میرے بعد میری ماں کا کیا ہو گا” سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہو کہ چونکہ ریاست بھی ماں کی طرح ہوتی ہے اور جنرل مشرف اور دیگر ڈکٹیٹروں سے زیادہ اس ماں کا لاڈلا کون ہو گا؟ جن لاڈلوں نے نہ صرف اس ماں کے جسم کو دو لخت کیا بلکہ اس ریاست اور اس سرزمین کے اصل مالک یعنی کہ جمہور اور آئین و دستور کے ساتھ وہی بازی کھیلی جو غالبا روم میں بادشاہ اور ملکہ کے درمیان کھیلے جانے والے پانسے کی بازی میں غلام کے ساتھ کھیلی جاتی تھی۔ اگر بادشاہ یا ملکہ میں سے کسی کی بھی ہار کی صورت میں ایک غلام زبح کیا جاتا اور وہ بھی اس کے والدین کے سامنے اور پھر والدین پر یہ بھی فرض تھا کہ وہ غلام زبح ہو جانے کے بعد پر بادشاہ یا ملکہ کی جیت پر منائے جانے والے جشن میں بھی شریک ہوں۔
میرے ہم وطن دیدہ ورو اور حساس روحو! جمہوریت
قانون، دستور، حرف و قلم کہ حرمت پہ یقین کرنے والو! آپ کو بھی ریاست کی طرف سے صلائے عام ہے کہ بادشاہ گری کی اس بازی میں اپنی ہار پہ نہ صرف اپنی امیدوں کو اپنے ہاتھوں سے زبح کرو بلکہ بادشاہ کی جیت کے جشن میں ہانپتے کانپتے شریک ہو جاو۔

Scroll to Top