گوادر میں کیا ہو رہا ہے؟

گوادر ، انٹرنیٹ بند، گرفتاریاں، میڈیا بلیک آؤٹ۔

قانون نافذ کرنے والے ادارے گوادر اور ملحقہ علاقوں کے لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں اور مقامی صحافی حاجی عبید اللہ کو بھی حق دو تحریک کے رہنما کے ساتھ خون کا رشتہ ہونے پر گرفتار کر لیا ہے۔

گوادر برادری کے حقوق کے لیے دو ماہ سے احتجاج کرنے والے حق دو تحریک کے سربراہ کی گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن کے نام پر سیکیورٹی فورسز تمام قانونی طریقہ کار کی خلاف ورزی کر رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر دستیاب کئی ویڈیو کلپس میں دکھایا گیا ہے کہ سیکورٹی فورسز بغیر سرچ وارنٹ کے لوگوں کے گھروں میں داخل ہوتے ہیں اور ان کی رازداری کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ سیکورٹی فورسز کو گوادر، تربت اور ملحقہ علاقوں کے مکینوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔

بعض مقامات پر لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقابلہ کرتے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ پولیس کے تشدد سے انیس سالہ نوجوان کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔ جھڑپوں کے دوران ایک پولیس اہلکار کے بھی مارے جانے کی اطلاع ہے۔ حکام نے حق دو تحریک کی کور کمیٹی کے چار ارکان سمیت 150 مظاہرین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

یہ تحریک ایک سال سے زیادہ عرصہ قبل شروع ہوئی تھی۔ بلوچستان حکومت نے گزشتہ سال حق دو تحریک کے ساتھ ان کے گیارہ مطالبات تسلیم کرتے ہوئے ایک معاہدہ کیا تھا۔ مطالبات میں علاقے سے غیر ضروری سیکیورٹی چیک پوسٹیں ہٹانے، ماہی گیروں کے لیے امدادی پیکج اور تحریک کے رہنماؤں کے خلاف مقدمات ختم کرنے کے مطالبات بھی شامل تھے۔ بعد ازاں صوبائی حکومت نے منظور شدہ مطالبات پر عمل درآمد نہیں کیا۔ تقریباً دو ماہ قبل ایک بار پھر احتجاج شروع ہوا۔ہدایت الرحمان سال سے زیادہ عرصہ سے متحرک ہیں۔ موجودہ احتجاج اکتوبر میں شروع ہوئے جب سال پورا ہونے کے باوجود حکومت نے اپنا معاہدہ پورا نہیں ہے۔۔ یہ احتجاج اپنی نوعیت میں نایاب تھا اور گوادر شہر میں ہزاروں لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے مارچ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔  س پر امن احتجاج پر پولیس کریک ڈاؤن سے حالات خراب ہوئے۔ گوادر میں انٹرنیٹ اور میڈیا کی رسائی مکمل طور پر توک دی گئی۔ خبروں سے زیادہ افواہیں آرہی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے پر امن مظاہرین کے خلاف مرشدد کریک ڈاؤن میڈیا بلیک آؤٹ کی مذمت کی جا رہی ہے۔

مظاہرین نے گوادر بندرگاہ جانے والی مرکزی شاہراہ کو بند کر دیا تاکہ حکام کو ان کے مطالبات سننے پر مجبور کیا جائے جنہیں وہ طویل عرصے سے نظرانداز کر رہے تھے۔ وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے مشیر لالہ رشید نے ایچ ڈی ٹی کی قیادت سے ملاقات کی لیکن دونوں فریقین کے درمیان بہت کم خیر سگالی کے باعث بات چیت میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔

مذاکرات میں ناکامی کے باعث بلوچستان حکومت نے مظاہرین کے خلاف آپریشن شروع کر دیا- وفاقی حکومت کی طرف سے کسی نے بھی بلوچستان حکومت اور مظاہرین کے درمیان تنازعہ حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کئی دنوں سے علاقے میں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ خدمات معطل ہیں۔

مظاہرین کا مطالبات میں مچھلی پکڑنے والے بڑے ٹرالروں پر پابندی کا مطالبہ ہے، جو مقامی باشندوں کے ماہی گیری کے کاروبار کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ مظاہرین لاپتہ افراد کی رہائی اور معاملے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
ہر گلی محلے میں چیک پوسٹوں کی موجودگی۔ سرحدی تجارت، نقتل و حمل کی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی مانگی گئی جو کہ سال قبل ہونے والے معادہ میں بھی لکھا گیا۔

Scroll to Top