ڈائریکٹر ایف آئی اے ہمایوں سندھو ایس ایچ او ویمن پولیس مصباح شہباز
اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی اسسٹنٹ ڈائریکٹر، ثانیہ شاہد، نے وفاقی محتسب برائے ہراسگی کے دفتر (FOSPAH) میں ایف آئی اے کے کاؤنٹر ٹیررازم ونگ کے ڈائریکٹر، ہمایوں مسعود سندھو، کے خلاف سنگین الزامات پر مبنی درخواست دائر کی ہے۔ثانیہ شاہد کی شکایت میں ہراسگی، گھریلو تشدد، پیشہ ورانہ نقصان، اور طاقت کے غلط استعمال کے انکشافات شامل ہیں۔ اسی دوران ہمایوں سندھو اختیارات کے ناجائز استعمال اور خاتون کو ہراساں کرنے پر عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
ثانیہ شاہد (اسسٹنٹ ڈائرکیٹر ایف آئی اے) کے مطابق، ہمایوں سندھو نے اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے انہیں ہراساں کیا، انھیں میسجز میں ناجائز ویڈیوز بھیجی گئیں اور انھیں دیکھنے پر مجبور کیا جاتا رہا اور اس اور خفیہ نکاح کرنے پر مجبور کیا، جس میں یہ شرائط شامل تھیں کہ وہ نہ تو اپنے حقوق کا دعویٰ کر سکیں گی، نہ ہی بچے کی خواہش کریں گی اور نہ ہی نکاح ظاہر کریں گی۔ درخواست کے مطابق، نکاح کے بعد، ہمایوں سندھو نے انہیں سخت گھریلو تشدد، مالی غفلت، اور جذباتی دباؤ کا نشانہ بنایا۔ ۔جسمانی تشدد میں بیلٹ، جوتوں اور لاتوں سے مارنا شامل تھا، جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ کی ہڈی بھی ٹوٹ گئی۔ایف آئی اے کے سرکاری وسائل، بشمول رہائش اور گاڑیاں، ان کے ذاتی کاموں کے لیے استعمال کی گئیں اور وہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے رہے۔
سب سے افسوسناک اور اندوہناک الزام یہ ہے کہ ہمایوں سندھو نے اپنے اسپین کے دورے سے واپسی پر زبردستی ثانیہ کے بچے کا اسقاط حمل کرایا۔ درخواست کے مطابق 20 دسمبر 2024 کو سندھو نے اسلام آباد پولیس کی ایس ایچ او مصباح شہباز کے ساتھ ملی بھگت کرتے ہوئے انہیں ان کے گھر سے زبردستی اغوا کروایا۔ پولیس نے نہ صرف ان پر جسمانی تشدد کیا بلکہ انہیں رات بھر جی سیون ویمن پولیس اسٹیشن میں زیر حراست رکھا۔ ثانیہ شاہد کا کہنا ہے کہ انھون نے متعلقہ ایس ایچ او سے متعدد بار پوچھا کہ انھیں کیوں گھر سے گھسیٹ کر لایا گیا تو ان سے جھوٹ بولا گیا کہ ان کے خلاف خودکشی کی رپورٹ درج کی گئی تھی اس لئےانھیں گھر سے اٹھایا گیا۔ انھیں پوری رات پولیس اسٹیشن میں رکھا، ان کا موبائل ان سے چھین لیا گیا اور کسی کو بھی فون کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہمایوں سندھو نے پولیس اسٹیشن میں ان کے والد کا نمبر دیا جسے پولیس نے کال کر کے بلایا۔ صبح جب ان کے والد پولیس اسٹیشن تشریف لائے تو انھیں ایس ایچ او مصباح شہباز نے ایک سادہ روزنامچہ پر دستخط کرنے کو کہا گیا۔ جب ان کے والد نے دستخظ کئے تو انھیں ایک لفافہ پکڑایا گیا۔
اس لفافہ میں ہمایوں سندھو کی جانب سے دیا گیا طلاق نامہ، نکاح ناہ کی ایک کاپی اور ایپیٹریشن لیٹر موجود تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہا ہے کہ ان کا طلاق نامہ اور ریپیٹریشن لیٹر انھیں پولیس اسٹیشن میں کیو دئے گئے؟ جبکہ یہ قانونی طور پر ایف آئی اے کے وزارتِ داخلہ سے اپروو ہونے کے بعد ان کے دفتر سے جاری ہونے چاہئیں تھے۔ مزید حیران کن بات یہ ہے کہ ثانیہ شاہد کے مطابق ان کا ریپیٹریشن لیٹر 17 دسمبر 2024 کے دستخظ شدہ ہیں لیکن وہ اس کے بعد بھی یعنی کہ 18 اور 19 دسمبر کو دفتر گئیں لیکن انھیں دفتر سے ایسا کوئی لیٹر جاری نہیں کیا گیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ہمایوں سندھو نے ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر میں ان کے داخلے پر پابندی لگا دی، ان کے سرکاری لیپ ٹاپ کو ضبط کیا، اور انہیں فوری طور پر ہاسٹل خالی کرنے پر مجبور کیا۔ درخواست میں مزید کہا گیا کہ پولیس اسٹیشن سے جانے سے پہلے انھوں نے میں نے ہمایوں سندھو اور اسلام آباد پولیس کے خلاف ایک رپورٹ جمع کروائی اور ایس ایچ او سے کہا کہ اس کی وصولی کی رسید مجھے دی جائے تو انھوں نے ہنس کر کہا کہ تمھیں واقعی لگتا ہے کہ تمہاری درخواست پر کسی قسم کا کوئی عملدارآمد کیا جائے گا؟
حقائق سے گفتگو:
ویمن پولیس اسٹیشن میں موجود ایک افسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پرحقائق سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ 20 دسمر 2024 کو ثانیہ شاہد کے شوہر نے تھانے میں کال کی تھی کہ ان کی بیوی خودکشی کی کوشش کر رہی ہے جس کے بعد ایس ایچ او مصباح شہباز خود ان کے گھر گئیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہاں کوئی ہتھیاریا کوئی اور ایسا ثبوت ملا جس سے یہ ثابت ہو رہا ہو کہ وہ واقعی خودکشی کر رہی تھیں تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ بھی وہاں سے برآمد نہیں ہوا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ثانیہ شاہد کو پوری رات ویمن پولیس اسٹیشن کی سیف کسٹڈی میں رکھا گیا۔ انھیں کسی ہسپتال لے نہیں لے جایا گیا۔ اور 21 دسمبر کی صبح ان کے والد صاحب کو بلا کر ان کے حوالے کر دیا گیا۔
حقائق کی ٹیم نے ایس ایچ او ویمن پولیس اسٹیشن مصباح شہباز میں دو مرتبہ ویمن پولیس اسٹیشن میں ملاقات کی کوشش کی، لیکن ہر مرتبہ ان کے عملے نے بتایا کہ وہ دستیاب نہیں ہیں۔ بعد ازاں، ان سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور ملاقات کا مقصد بتایا۔ انہوں نے ایک سے زائد دفعہ وعدہ کیا کہ وہ واپس اسٹیشن آنے پر مجھے اطلاع دیں گی۔ تاہم، انہوں نے کبھی رابطہ نہیں کیا اور میرا نمبر بلاک کر دیا۔ اس کے بعد انھیں مندرجہ ذیل سوالات بھیجے گئے جن کا جواب ان کی طرف سے ابھی تک موصول نہیں ہوا۔
سوالات:
۱) طلاق کے کاغذات اور دیگر ذاتی دستاویزات پولیس کی تحویل میں ثانیہ کو دینے کا حکم کس نے دیا؟ کونسے اصول و ضوابط کے تحت پولیس طلاق نامے اور نکاح نامے شوہر کی طرف سے کسی بیوی کو دے سکتی ہے؟ ۲) کیا پولیس کو خودکشی کی کوشش کی کوئی ایمرجنسی کال موصول ہوئی جیسا کہ ثانیہ شاہد کی درخواست میں تحریر ہے کہ انھٰن آپ کی جانب سے بتایا گیا؟ وہ کال کس نے کی؟ کیا ان کے خلاف خودکشی کی رپورٹ کس نے درج کرائی، اور اس کا ثبوت کیا تھا؟ ۳)کیا ان کے گھر کی تلاشی میں کوئی خودکشی کا ثبوت ملا؟اگر نہیں، تو جھوٹی رپورٹ درج کرانے والے کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ ۴) پولیس نے ثانیہ کے گھر کا مرکزی دروازہ اور داخلی دروازہ کیسے کھولا؟ کیا پولیس کے پاس سرچ یا گرفتاری کے وارنٹ موجود تھے؟ ۵) ۴) کیا اس کارروائی کو پولیس کے روزنامچہ (روزانہ ڈائری) میں درج کیا گیا؟ ایس ایچ او ذاتی طور پر اس کارروائی میں کیوں شامل ہوئیں، اور کیا وہ عموماً اس طرح کے معاملات میں براہ راست مداخلت کرتی ہیں؟ ۵) انہیں رات بھر بغیر کسی ایف آئی آر یا قانونی کارروائی کے کیوں حراست میں رکھا گیا؟ ان کے موبائل فون کو کیوں ضبط کیا گیا، اور انہیں کسی سے رابطہ کرنے سے کیوں روکا گیا؟ ۶) ضابطہ فوجداری (CrPC) کے تحت، کسی خاتون کو غروب آفتاب کے بعد بغیر مجسٹریٹ کی واضح اجازت کے گرفتار کرنا ممنوع ہے۔ کیا آپ وضاحت کر سکتی ہیں کہ محترمہ ثانیہ شاہد کو شام دیر گئے کس قانونی بنیاد پر حراست میں لیا گیا؟ ۷) CrPC کے ضوابط اور قائم شدہ قانونی طریقہ کار کے مطابق، کسی خاتون کو رات بھر پولیس اسٹیشن میں رکھنا اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہ کرنا غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔ کیا آپ وضاحت کر سکتے ہیں کہ محترمہ ثانیہ شاہد کو رات بھر حراست میں کیوں رکھا گیا، اور کیا اس حراست کے لیے پیشگی اجازت حاصل کی گئی تھی؟
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے):
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے)، پاکستان کی اہم ترین قانون نافذ کرنے والی ایجنسی، 1975 میں ایف آئی اے ایکٹ، 1974 کے تحت وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں قائم کی گئی تھی۔ امریکی ایف بی آئی کے طرز پر بنائی گئی یہ ایجنسی ایک ایسی قوت کے طور پر دیکھی گئی جو انسانی اسمگلنگ، سائبر کرائمز، دہشت گردی، کرپشن اور مالی دھوکہ دہی جیسے سنگین وفاقی جرائم سے نمٹ سکے۔ یہ ادارہ انصاف کی فراہمی، شہریوں کے تحفظ، اور ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے بنایا گیا تھا۔
لیکن یہ انتہائی افسوسناک اور المناک ہے کہ آج ایف آئی اے—ایک ایسا ادارہ جسے انصاف اور عزت کے تحفظ کے لیے قائم کیا گیا تھا—اپنے ہی اندرونی معاملات میں سنگین الزامات کی زد میں آ چکا ہے۔ جرائم نہ صرف اس ادارے کے اندر ہو رہے ہیں بلکہ خواتین ملازمین کو، جو سب سے زیادہ تحفظ کی مستحق ہیں، ہراسانی اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایف آئی اے کی افسر ثانیہ شاہد کے ساتھ ہراسگی، طاقت کے ناجائز استعمال، اور تشدد کے الزامات نے اس ادارے کے کردار پر گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ یہ نہ صرف افسوسناک بلکہ انتہائی تشویشناک ہے کہ ایف آئی اے، جو انصاف اور احتساب کی علامت سمجھی جاتی ہے، اپنے ہی اصولوں کو اندرونی سطح پر نافذ کرنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔