لاہور مغوی ریٹائرڈ کرنل گھر پہنچ گیا ہائی کورٹ نے درخواست داخل دفتر کر دی

کرنل (ر) نثار علی شہزاد

لاہور ہائی کورٹ ریٹائرڈ کرنل کے اغوا کی درخواست داخل دفتر کر دی گئی۔ سوموار کے روز لاہور ہائیکورٹ نے مغوی سابق کرنل نثار علی شہزاد کی گھر واپسی پر پر ان کی بازیابی کی درخواست نمٹا دی۔ریٹائرڈ کرنل نثار علی شہزاد کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی، جسے عدالت نے مغوی کے پیش ہونے پر نمٹا دیا۔

عدالت نے پولیس کو مغوی کی بازیابی کے لیے آج تک کی مہلت دے رکھی تھی، تاہم سماعت کے موقع پر مغوی نثار علی شہزاد عدالت میں پیش ہو گئے۔درخواست گزار نے عدالت کو کہا کہ والد صاحب واپس آ گئے ہیں، مغوی گھر واپس آئے گئے ہیں، اب ہم کسی کے خلاف کارروائی نہیں کرنا چاہتے۔

مدعی مقدمہ کے وکیل اے ڈی ڈاھر نے حقائق سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ریٹائرڈ کرنل نثار شہزاد کو 13 دسمبر کو اغوا کیا۔ان کا ایک بیٹا فوج میں حاضر سروس لیفٹیننٹ ہے۔ اغوا کے وقت ان کا بیٹا فوجی لیفٹیننٹ گھر میں موجود تھا۔جو کہ اغوا کاروں کے اسلحہ کی نوک پر ہونے کے باعث اپنے والد کو اغوا ہونے سے نہ بچا سکا۔


یکم جنوری کو اغوا کار مغوی کو گھر کے قریب چھوڑ کر چلے گۓ۔

ڈاھر نے کہا کہ مغوی کی واپسی کے بعد مغوی اور ان کا خاندان واقعہ سے متعلق بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ مغوی کی واپسی کے بعد عدالت میں پیشی کے موقع پر مغوی اور مقدمہ کے مدعی اور ان کے وکیل نے عدالت کو اغوا کاروں کی نشاندہی نہیں کی۔اور اغوا کاروں کے خلاف کسی قانونی کاروائی کے لیے بھی استدعا نہیں کی۔

مغوی کے وکیل نے مزید بتایا کہ 31 دسمبر کی سماعت کے موقع پر فوج کے سیکٹر کمانڈر کو مقدمے میں فریق بنانے کی درخواست کے بعد ہی واپسی ممکن ہو پائی ہے۔ اگر ہم فوج کے سیکٹر کمانڈر کو فریق بنانے کی درخواست نہ کرتے تو مغوی کے واپس آنے کا امکان نہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ واپسی کے بعد مغوی جسمانی اور نفسیاتی کمزوری کا شکار ہے۔وکیل نے مزید بتایا کہ مغوی کا خاندان کے افراد ذرائع ابلاغ سے بات کرنے سے گریزاں ہیں۔یہ اس لیے ہے کہ ان کا صرف ایک نکاتی ہدف تھا کہ مغوی کی بازیابی یا واپسی۔اب مغوی کی واپسی کے بعد معاملے پر مزید کاروائی یا اس کے پھیلاو کی ضرورت نہیں ہے۔جبکہ مدعی مقدمہ واقعہ کے سیاسی رنگ دینے کے لیے آمادہ نہیں ہیں۔مغوی کو حراست کے دوران قدرتی روشنی اور تازہ ہوا سے محروم رکھا گیا۔

ایڈوکیٹ ڈاھر نے بتایا کہ اغوا کار سادہ لباس میں تھے۔تاہم مغوی 29 سال تک فوج میں خدمات انجام دینے کے باعث اغوا کاروں کو پہچاننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ دوران حراست مغوی سے سیاسی وابستگی کے حوالے سے سوالات اور تفتیش کی جاتی رہی۔اور مغوی کی کسی ایک مخصوص سیاسی جماعت سے وابستگی پر اس جماعت کی غیر قانونی سرگرمیوں سے متعلق تفتیش کرتے رہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے 31 دسمبر کو کیس کی سماعت کے موقع پر جسٹس طارق سلیم نے فوج کے سیکٹر کمانڈرکو فریق بنانے کا تذکرہ کیا تھا۔31 دسمبر کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے سابق کرنل نثارعلی شہزاد کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت کے دوران وکیل سے مکالمہ کیا کہ آپ آرمی سیکٹر کمانڈر کو فریق بنانے کے لیے درخواست دیں اور عدالت کی معاونت کریں کہ عدالت کیسے آرمی کے سیکٹر کمانڈر کو طلب سکتی ہے؟

سابق کرنل نثار علی شہزاد کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کی لاہور ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سمیت دیگر پولیس افسران عدالت میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت سرکاری وکیل نے بتایا کہ کہ مغوی کے بارے میں تمام صوبوں کے آئی جیز کو مراسلہ لکھا گیا، سابق کرنل نثار علی شہزاد کے اغوا کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے، تفتیش جاری ہے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ مجھے آج صبح ہی اس بارے میں معلوم ہے، ہم اس حوالے سے آرمی سے بھی رابطہ کر رہے ہیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ آپ نے ابھی تک آرمی سے رابطہ کیوں نہیں کیا؟ آئی جی پنجاب نے کہا کہ ہم نے ان سے رابطہ کیا ہے، ہمارے ڈی آئی جی ان سے رابطے میں ہے۔

وکیل درخواست گزار اے ڈی ڈاہر نے کہا کہ میرا پہلے دن سے موقف ہے کہ مغوی سیکورٹی ایجنسیوں کے پاس ہے، جن لوگوں نے سابق کرنل کو اغوا کیا ان کی شکلیں فوٹیج میں واضح نظر رہی ہیں، ہماری درخواست ہے کہ آپ سیکٹر کمانڈرز کو عدالت میں طلب کریں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ ان لوگوں کو اس کیس میں پارٹی بنائیں، آپ سیکٹر کمانڈر کو فریق بنانے کے لیے درخواست دیں، آپ عدالت کی معاونت بھی کریں کہ عدالت کیسے سیکٹر کمانڈر کو بلا سکتی ہے؟

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میں نے جتنا قانون پڑھا ہے، عدالت کسی کی بازیابی کے لیے کسی کو بھی طلب کر سکتی ہے۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے پولیس کو مغوی کی بازیابی کے لیے 6 جنوری تک کی مہلت دی تھی