خدا کرے ڈی این اے میچ نہ کرے، راولپنڈی کی ایک ماں کی دعا قبول نہ ہوئی

جیسے ہی میڈیکل لیب اسسٹنٹ نے ٹیسٹ کرنے کے لئے ماں کے ڈی این اے کا نمونہ حاصل کیا،  تب بھی اس ماں کا ناامید دل ایک موہوم سی امید لئے دھڑک رہا تھا کہ یہ ٹیسٹ ثابت کرے گا کہ بنی گالا کے  جنگل سے ملنے والی سر کٹی لاش جو گل سڑ چکی تھی، اور تقریباً ہڈیوں کے ڈھانچے میں بدل چکی تھی، اس کے بیٹے سید عبداللہ کی نہیں۔ بیٹا کچھ ہفتے قبل غائب ہوگیا تھا۔ ماں نے اپنی روح اور دل و جان سے کسی معجزے کی دعا کی تھی کہ ڈی این اے ٹیسٹ اس بار ناکام ہو جائے اور  کہیں سے اس کا بیٹا اسے واپس مل جائے۔ مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔

اس ٹیسٹ نے اس ماں کی زندگی کے سب سے تکلیف دہ ڈر  کو کنفرم کردیا تھا ۔ ڈی این اے میچ ہوگیا تھا۔

بلاسفیمی  بزنس گروپ کے سربراہ راؤ عبدالرحیم، جنہیں اسلام آباد پولیس کی تحقیقات اور تکنیکی شواہد کے مطابق اکیس سالہ راولپنڈی کے رہائشی عبداللہ شاہ کے قتل میں مرکزی کردار قرار دیا گیا تھا، کو اعلیٰ عدلیہ اور وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائمز ونگ دونوں کی حمایت حاصل تھی۔ فیکٹ فوکس کی تحقیقات سے واضح ہوا کہ بلاسفیمی بزنس گروپ اور سائیبر کرائمز ونگ کا مقصد عبداللہ کے والد کو توہین رسالت کے کیس میں ملوث کر کے اسے دباؤ میں لا کر اپنے بیٹے کے قاتل کے حق میں بیان دینے پر مجبور کرنا تھا۔ آخر کار، بلاسفیمی بزنس گروپ اور ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ اپنی سازش میں کامیاب ہو گئے۔

تحقیقاتی صحافت کو سپورٹ کریں ۔ ۔ ۔ فیکٹ فوکس کو گوفنڈ می پر سپورٹ کریں

https://GoFundMe.com/FactFocus

بلاسفیمی بزنس گروپ بے خوفی سے کام کرتا ہے، جسے پارلیمنٹ—خصوصاً پاکستان تحریکِ انصاف کے قانون سازوں—عدلیہ، میڈیا، اور انتظامیہ، خصوصاً ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کی مسلسل حمایت حاصل ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کا ایک موجودہ جج مسلسل بلاسفیمی بزنس گروپ کی مدد کر رہا ہے۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کے حکومتی افسران بلاسفیمی بزنس گروپ کے ارکان کے ساتھ قریبی رابطے میں کام کرتے ہیں۔ یہ گٹھ جوڑ مل کر نوجوانوں پر جھوٹے توہین مذہب کے الزامات لگانے اور قتل کے واقعات میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ قتل کے مقدمات کو چھپانے میں بھی کردار ادا کرتا ہے۔

دوہزار بائیس میں اسلام آباد پولیس کی تحقیقات میں، ایک اکیس سالہ نوجوان کے قتل کا الزام بلاسفیمی بزنس گروپ کے سربراہ راؤعبدلرحیم پر تقریباً ثابت ہو گیا۔ اس موقع پر ایف آئی اے کے افسران نے اچانک مداخلت کی، حالانکہ ان کا اس کیس پر کوئی دائرہ اختیار نہ تھا، اور اسلام آباد پولیس کو گمراہ کن معلومات فراہم کیں۔ جب یہ کوشش ناکام ہوئی، تو ایف آئی اے نے مقتول لڑکے کے والد کے خلاف توہین رسالت کا کیس درج کرایا، جو اپنے بیٹے کے قتل کے کیس میں شکایت کنندہ تھے۔ بلاسفیمی بزنس گروپ کے ارکان نے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کے افسران کے ساتھ قریبی تعاون کرتے ہوئے مقتول کے والد کو ہراساں کیا، اور بدترین دباؤ ڈالا، جس کے نتیجے میں اسے اسلام آباد پولیس کے سامنے ایسا بیان دینے پر مجبور کیا گیا جس سے بلاسفیمی بزنس گروپ کے سربراہ راؤ عبدالرحیم کو قتل کے کیس میں بری کر دیا گیا۔

اسلام آباد میں گٹز فارماسیوٹیکلز کے مارکیٹنگ آفس میں میڈیکل ریپ کے طور پر کام کرنے والے اکیس سالہ سید عبداللہ شاہ آٹھ جون دوہزار بائیس کو کام کے لیے گھر سے روانہ ہوا مگر واپس نہ آیا۔ اُس کے والد، سید عامر شاہ نے اس کی گمشدگی کی اطلاع اسلام آباد پولیس کو دی، جس سے واقعات کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو بعد میں سازش اور طاقت کے غلط استعمال کے ایک جال کو بے نقاب کر گیا۔

سید عبداللہ شاہ

درج ذیل ٹائم لائن تفصیل سے بیان کرتی ہے کہ کس طرح بنی گالا کے جنگلات میں عبداللہ کی لاش دریافت ہوئی اور اسلام آباد پولیس نے کس طرح راؤ، بلاسفیمی  بزنس گروپ کے سربراہ کی شناخت کی۔ وہ اُس کے قتل کے پیچھے مرکزی شخصیت کے طور پر سامنے آیا۔ اور یہ انکشاف بھی سامنے آتا ہے کہ کس طرح توہین مذہب کی کیس فائل میں ایک پیچھے کی تاریخ ڈال کر ایک جھوٹی درخواست داخل کی گئی اور کس طرح بلاسفیمی بزنس گروپ کے ایک بااثر رکن، مدثر شاہ، جو اس وقت لاہور میں تعینات ایف آئی اے کے افسر بھی تھے، اچانک راؤ عبد الراحیم کو بچانے کے لیے کے لیے سامنے آتے ہیں۔ ٹائم لائن مزید وضاحت کرتی ہے کہ کس طرح اس افسر نے اسلام آباد پولیس کو گمراہ کن معلومات فراہم کیں، جو بعد میں عدالت میں جھوٹ ثابت ہوئیں۔ اس سے پہلے انہیں اسلام آباد منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کا پہلا کام عبداللہ کے گھر چھاپہ مار کر اس کے والد کو جعلی توہین مذہب کے الزام میں گرفتار کرنے کے لیے سرچ  اور سیزر وارنٹ حاصل کرنا تھا۔

یہ ٹائم لائن اس بات کی بھی تفصیل دیتی ہے کہ عامر شاہ کو کس قسم کی  ہراسانی اور زبردستی کا سامنا کرنا پڑا، اور کیسے انھیں قانونی لڑائی میں ضمانت حاصل کرنے کے لیے مجبور کیا گیا ، نیز کس طرح بلاسفیمی بزنس گروپ نے آخرکار ان پر دباؤ ڈال کر انھیں اسلام آباد پولیس کے سامنے راؤ عبد الراحیم کے حق میں بیان دینے پر مجبور کیا۔ آخرکار، یہ انکشاف بھی سامنے آتا ہے کہ ایف آئی اے کا عامر شاہ کے خلاف توہین مذہب کا کیس کس طرح سرکاری ریکارڈز سے پراسرار انداز میں غائب کیا گیا۔ اگرچہ فیکٹ فوکس اسے بازیاب کرنے میں کامیاب ہوا ،اور اور یہ بھی معلوم کرنے میں کامیاب ہوا کہ کس طرح راؤ عبد الراحیم نے لاہور کی عدلیہ میں اپنے تعلقات کا فائدہ اٹھا کراس پورے معاملے سے توجہ ہٹائی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر دباؤ ڈالا۔ درج ذیل ٹائم لائن ان اہم واقعات کی مکمل تفصیلات پیش کرتی ہے، جس میں درست تاریخیں اور دستاویزی تفصیلات شامل ہیں۔

عبداللہ شاہ کے قتل کیس میں پولیس کی تفتیشی رپورٹ اور دستاویزات https://factfocus.com/wp-content/uploads/2025/02/Police-Investigation -Abdullah-Shah-Case.pdf

عبداللہ شاہ کے قتل کیس میں پولیس کی ٹائپ شدہ تفتیشی رپورٹ اور دستاویزات https://factfocus.com/wp-content/uploads/2025/02/Better-Copy-Police-Investigation-Abdullah-Shah-Case.pdf

ٹائم لائن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

8جون2022:

8 جون 2022 کو، عبداللہ شاہ شام 6:30 بجے اپنے گھر سے روانہ ہوا تاکہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے تجارتی مرکز ایف-10 مرکز میں کچھ کام نمٹایا جا سکے۔ جب اس کے خاندان نے اسے 8:30 بجے فون کیا، تو اُس نے بتایا کہ وہ رات کے کھانے کے وقت گھر پہنچ جاۓ گا۔ لیکن وہ گھر واپس نہ آ سکا۔ بڑھتی ہوئی تشویش کے پیش نظر، اس کے والد، سید عامر شاہ، نے ایف-10 مرکز میں اپنے بیٹے کی تلاش شروع کی اور ایف-10 مرکز کی مسجد کے پارکنگ لاٹ میں اُس کی موٹر سائیکل (ہونڈا سی ڈی-70، نمبر: 2357 )  دیکھی۔ انہوں نے 9 جون 2022 کو F-10 کے شالیمار پولیس اسٹیشن میں ایک درخواست درج کرائی، جس کے ذریعے رسمی طور پر عبداللہ کی گمشدگی کی اطلاع دی گئی۔ ایف آئی آر (نمبر: 342/22) 10 جون 2022 کو شام 3:00 بجے درج کی گئی۔

10 جون 2022:

اسلام آباد پولیس کے اے ایس ائی، محمد نواز گوندل نے تفتیش کا آغاز کیا۔ عامر شاہ نے دو موبائل نمبر فراہم کیے (03215206308 اور03429028930) جو اُس کابیٹا استعمال کر رہا تھا۔ یہ دونوں نمبر سید عامر شاہ کے نام پر رجسٹرڈ تھے۔ پولیس نے موبائل کال ڈیٹا کی درخواست کی، جس سے معلوم ہوا کہ عبداللہ کا نمبر (03429028930) تقریباً اسی وقت( 03421398846) سے کالیں وصول کر رہا تھا۔ چونکہ عبداللہ کے والد نے اس نمبر کو پہچانا نہیں، اسے مشکوک سمجھا گیا۔ پولیس نے مشکوک نمبر (03421398846) کی تفصیلات اور کال ریکارڈز طلب کیے۔

11 جون 2022:

اس دوران، پولیس تفتیش کار ایف-10 مرکز کا دورہ کرنے گئے اور عدنان سے ملاقات کی۔ عدنان، (المعروف ہسپتال کا سکیورٹی انچارج) جو ایف-10 مرکز مسجد کے قریب واقع ہے، تاکہ سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لے سکیں۔ پولیس رپورٹ کے مطابق، سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا گیا کہ عبداللہ 8:12 شام کو ایف-10 مرکز سے ایک سفید سوزوکی کلٹس میں روانہ ہو رہا تھا۔ تاہم، فوٹیج میں گاڑی کا نمبر پلیٹ نظر نہیں آ رہا تھا۔ مزید یہ کہ، عبداللہ کے دو دوست، شفیق اور عبدالمقدر، جو موقع پر موجود تھے، نے بتایا کہ گاڑی ایک عورت چلا رہی تھی۔

ایف ٹین مرکز اسلام آباد میں موجود المعروف ہسپتال کا گوگل نقشہ

11 جون 2022:

پولیس نے مشکوک نمبر (03421398846 )کے مالک کے تفصیلات حاصل کیں اور معلوم ہوا کہ یہ نمبر خیبر پختونخواہ کے ضلع بونیر، تحصیل ڈاگر کی رہائشی نسرین بی بی کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔  مزید برآں، اسی نام کے تحت پانچ مزید سم کارڈز رجسٹرڈ تھے۔

12 جون 2022:

اسلام آباد پولیس کے اے ایس ائی نے کیس کی تفتیش کے دوران مشکوک نمبر( 03421398846 ) کے کال ریکارڈ حاصل کیے اور معلوم ہوا کہ اس نمبر کا رابطہ دو دیگر نمبروں    (03364163305) اور (03159921522) سے رہا ہے۔ دونوں نمبرز بند کر دیے گئے تھے۔ پہلا نمبر لاہور کے محسن سلطان کے نام پر رجسٹرڈ تھا، جبکہ دوسرا نمبر صوابی کے زاہد علی کا تھا۔

ان کے قومی شناختی کارڈ نمبرز کا استعمال کرتے ہوئے، پولیس نے ان کے خاندانی تفصیلات حاصل کیں اور ان کے خاندانوں سے رابطہ کیا۔ دونوں خاندانوں نے پولیس کو بتایا کہ یہ دونوں نوجوان کچھ عرصے سے گمشدہ ہیں۔ تاہم، محسن کے بھائی نے بھی اسلام آباد پولیس کو مطلع کیا کہ انھیں پتا چلا ہے کہ ہے کہ محسن پر ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کی جانب سے کسی غیر متعلقہ کیس میں الزامات عائد کیے گئے ہیں اور وہ اس وقت اڈیالہ جیل، راولپنڈی میں زیرحراست ہے۔

یہ انکشاف تفتیش میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا، اور یہ اسلام آباد پولیس کے لئے  ایف آئی اے اسلام آباد کی سائبر کرائمز ونگ (CCW) سے رابطہ کرنے کی وجہ بنا۔

عبداللہ شاہ اپنے دفتر میں

جب پولیس کو عبداللہ کے کیس میں راؤ عبدلرحیم کے مرکزی کردار کا پتہ چلا:

12 جون 2022:

اسلام آباد پولیس کے اے ایس ائی نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اسلام آباد کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایاز خان سے رابطہ کیا ۔ جس پر ایازخان نے بتایا کہ محسن سلطان اور زاہد علی دونوں پر توہین مذہب کے الزامات عائد کیے گئے ہیں اور وہ اس وقت اڈیالہ جیل میں حراست میں ہیں۔انہوں نے توہین مذہب کے کیس میں شکایت کنندہ کا نام (راؤ عبدالرحیم) اور فون نمبر بھی فراہم کیا۔

پولیس افسر نے تمام تفصیلات نوٹ کر لیں اور پھر ایک اہم سوال پوچھا: ”ایک مشکوک نمبر (03421398846) ہے جو ان دونوں اشخاص کے ساتھ ساتھ مغوی لڑکے، عبداللہ سے بھی رابطے میں تھا ۔ کیا آپ اس کے بارے میں کچھ جانتے ہیں؟ ” ایاز خان کا جواب تفتیش میں ایک اہم سنگ میل ثابت ہوا۔ انہوں نے پولیس تفتیش رپورٹ کے مطابق بتایا، "یہ نمبر بھی توہین مذہب کے کیس میں شکایت کنندہ، راؤ عبدالرحیم کے استعمال میں ہے۔”

اس جواب نے پولیس تفتیش کار کے لیے پہلے سے بے جواب بہت سے سوالات کو واضح کر دیا۔

عبداللہ شاہ کی کئی سال پہلے کی تصویر

16 جون 2022:

ایف آئی اے کا سرکاری ریکارڈ موصول ہونے پر، پولیس نے دریافت کیا کہ ایک ایف آئی آر (نمبر 73/2022) اسلام آباد میں ایف آئی اے کی سائبر کرائمز ونگ میں 23 مئی 2022 کو درج کی گئی تھی، جو اسی دن دوپہر 1:30 بجے راؤ عبدالرحیم کی جانب سے درج شدہ توہین مذہب کی شکایت پر درج ہوئی تھی تھی۔ اس ایف آئی آر میں مختلف فون نمبروں کی تفصیلات شامل تھیں جن کے بارے میں الزامات لگائے گئے کہ انہیں توہین مذہب کے ارتکاب کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ ان نمبروں میں ایک موبائل نمبر بھی شامل تھا جو عبداللہ شاہ کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔ یہ بات نوٹ کرنا ضروری ہے کہ گمشدہ عبداللہ کے استعمال کردہ وہ نمبر، جو کہ اس کے والد عامر شاہ نے پولیس کو فراہم کیے تھے، راؤ کی درخواست میں شامل نہیں کیے گئے تھے۔

راؤ عبدالرحیم کی جانب سے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ اسلام آباد میں جمع کی گئی درخواست

دو مزید افراد، محسن سلطان لاہور سے جبکہ  زاہد علی صوابی سے اسی تاریخ کو گرفتار کیے گئے۔

پولیس نے عبداللہ کی گمشدگی کے کیس میں راؤ عبدالرحیم کو پیش ہونے کے لیے طلب کیا۔

18 جون 2022:

پولیس کی طلبی پر، راؤ عبدالرحیم نے پہلے اسلام آباد ویسٹ کے ڈسٹرکٹ  اینڈ سیشن جج، کامران بشارت مفتی کی عدالت سے قبل گرفتاری ضمانت حاصل کی، اس کے بعد شالیمار  پولیس اسٹیشن  میں  تفتیش  افسر کے سامنے پیش ہوئے۔

19 جون 2022:

ضابطہ کار کے مطابق، شالیمار پولیس اسٹیشن نے گمشدہ شخص، عبداللہ، کے بارے میں تمام صوبائی حکام اور ایدھی سینٹرز کو مطلع کیا۔

اس کے بعد، اسلام آباد کے بنی گالہ پولیس اسٹیشن کے اے ایس ائی، سر گل نے شالیمار پولیس اسٹیشن کو مطلع کیا کہ بنی گالہ کے جنگلات میں، چک شہزاد کے قریب، عبداللہ کی دی گئی تفصیلات سے ملتی جلتی ایک لاش دریافت کی گئی ہے۔سرکاری ریکارڈز کے مطابق، 16 جون 2022 کو نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کا ایک سکیورٹی گارڈ،  مشتاق احمدنے اپنے معمول کی گشت کے دوران چک شہزاد میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی عمارت کے پیچھے جنگل میں ایک گلی سڑی لاش دریافت کی۔

مشتاق احمد نے فوری طور پر اس دریافت کی اطلاع بنی گالہ پولیس اسٹیشن کو دی اور بیان دیا کہ لاش شدید گلی سڑچکی تھی اور پہچاننے کے قابل نہیں تھی، کیونکہ سر جسم سے الگ تھا۔ ضابطہ کار کے تحت، ڈی این اے نمونے جمع کیے گئے اور لاش کو بنی گالا پولیس اسٹیشن کی نگرانی میں سی ڈی اے قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ اس اطلاع کے موصول ہونے پر، شالیمار پولیس اسٹیشن کا اے ایس ائی، جو کیس کی تفتیش کر رہا تھا، عبداللہ کے والد، عامر شاہ، کے ساتھ بنی گالا پولیس اسٹیشن گیا تاکہ مقتول کے ملبوسات کی شناخت کی جا سکے۔ تاہم، اس سے کوئی حتمی نتائج اخذ نہیں ہو سکے۔آخرکار، یہ فیصلہ کیا گیا کہ عبداللہ کی شناخت کی تصدیق کے لیے اس کی والدہ اور دفن شدہ لاش کے درمیان ڈی این اے کا موازنہ کیا جائے گا۔

20 جون 2022:

پولیس نے راؤ عبدالرحیم کے موبائل فون اور شناختی کارڈ کی تفصیلات حاصل کیں اور اس کی تفصیلی موبائل ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے درخواست جمع کرائی۔

22 جون 2022:

عبداللہ کی والدہ کے خون کے نمونے ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے جمع کیے گئے۔ اگلے دن، تفتیش افسر کو میڈیکل افسر کی جانب سے نمونوں کا پارسل موصول ہوا اور اُس نے 24 جون 2022 کو اسے لاہور میں پنجاب فورنزک سائنس ایجنسی کو بھیج دیا۔

25 جون 2022:

پولیس تفتیش کار نے راؤ عبدلرحیم سے پوچھ گچھ کی، جسے 15 جولائی 2022 تک  ضمانت  قبل ازگرفتاری حاصل تھی۔ ایک اہم پیش رفت میں، راؤ عبدلرحیم نے تسلیم کیا کہ وہ مشکوک نمبر (03421398846) استعمال کر رہا تھا۔ تاہم، وہ یہ بتانے سے قاصر رہا کہ وہ کسی اور کے نام پر رجسٹرڈ نمبر کیوں استعمال کر رہا تھا اور اسے موبائل نمبر کے اصلی مالک کا علم بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد پولیس نے راؤ سے منسلک دو اضافی نمبروں (03009800433) اور (03345375607)  کے موبائل ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے ایک اور درخواست جمع کرائی۔

2 جولائی 2022:

پولیس تفتیش کے ریکارڈ کے مطابق، راؤ عبدلرحیم کے دونوں مذکورہ نمبروں کے موبائل ریکارڈ اور ڈیٹا موصول ہوا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پولیس کی طلبی کے بعد اُس نے اپنے نمبر (03345375607) کا آپریٹر یو فون سے زونگ میں تبدیل کر دیا تھا۔ موبائل آپریٹر تبدیل ہونے کی صورت میں پرانے کال ریکارڈ حاصل کرنا کافی مشکل ہو جاتا ہے۔

5 جولائی 2022:

پولیس تفتیش کار محمد نواز گوندل کو اچانک منتقل کر دیا گیا اور کیس شالیمار پولیس اسٹیشن میں انسپکٹر منیر خان کو سونپ دیا گیا۔

14 جولائی 2022:

انسپکٹر منیر خان نے راؤ عبدلرحیم کے موبائل نمبر (03345375607) اور مشکوک نمبر (03421398846) کے ریکارڈ حاصل کیے، جن کا راؤ نے استعمال کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوا کہ دونوں نمبر واقعے کے وقت اسلام آباد کے ایف-10 سیکٹر میں موجود تھے۔ مزید برآں، پولیس کی تفتیش سے تصدیق ہوئی کہ دونوں نمبر ایک ہی سمت میں حرکت کر رہے تھے۔ وقوع کی رات، دونوں نمبر اسلام آباد کی مری روڈ کی طرف روانہ ہوئے، پھر راول ڈیم چوک سے پارک روڈ کی طرف بائیں مڑ گئے۔ راؤ نے اپنے نمبروں میں سے ایک، (03421398846)، پارک روڈ کے دائیں جانب واقع راول ٹاون کے قریب بند کر دیا۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ ،(این آئی ایچ) پارک روڈ کے بائیں جانب رول ٹاؤن سے تین کلو میٹر آگے کا وہ علاقہ ہے جہاں ایک لاش دریافت کی گئی تھی (بعد میں یہ معلوم ہوا کہ یہ عبداللہ کی لاش تھی)،

این آئی ایچ کے بعد، پارک روڈ تھوڑے فاصلے تک جاری رہتا ہے اور پھر لیہتراڑ روڈ پر ختم ہوتا ہے، جہاں سے بائیں یا دائیں مڑنے کا امکان ہے۔ بائیں مڑنے سے چھوٹے قصے نیِلور کی جانب راہ ملتی ہے۔ اسی رات، راؤ کا دوسرا نمبر، (03345375607)، نیِلور تک ٹریس کیا گیا، جو تفتیش میں ایک اہم پیش رفت ثابت ہوا۔

15 جولائی 2022:

انسپکٹر منیر خان نے عدالت کے سامنے یہ ریکارڈ پیش کیا، اور معزز جج نے اگلی سماعت 27 جولائی 2022 کو مقرر کی۔ اس تفتیش کے مرحلے پر، راؤ عبدالرحیم کیس کا مرکزی کردار بن کر سامنے آیا تھا اور پولیس کو یقین ہو گیا تھا کہ سب کچھ اسی کے گرد گھومتا ہے۔

25 جولائی 2022:

انسپکٹر منیر خان نے معزز جج سے اجازت حاصل کی کہ وہ اڈیالہ جیل میں حراست میں موجود محسن سلطان اور زاہد علی سے پوچھ گچھ کر سکیں، جنہیں ایف آئی اے سائبرکرائم کیس 73/2022 کے سلسلے میں حراست میں رکھا گیا تھا۔ دونوں افراد سے الگ الگ پوچھ گچھ کی گئی۔

پوچھ گچھ کے دوران، محسن سلطان اور زاہد علی نے بتایا کہ انہوں نے نمبر (03421398846) سے کالیں وصول کی تھیں۔ یہی مشکوک نمبر جو عبداللہ کے کیس کی تفتیش کے دوران سامنے آیا تھا اور راؤ سے منسلک تھا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ کالیں ایک لڑکی کی طرف سے آئیں، جس نے انہیں جال میں پھنسا کر ایف آئی اے سائبرکرائم ونگ کے افسران تک گاڑی میں بٹھا کر پہنچایا تھا۔

27 جولائی 2022:

اس تاریخ  تک کی پولیس تفتیش کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا، جس کے بعد  13  اگست 2022  اگلی سماعت  کی تا ریخ مقرر کی گئی۔

ایف آئی اے لاہور کے سائبر کرائمز ونگ کے افسر نے اسلام آباد پولیس کو کس طرح گمراہ کرنے کی کوشش کی:

27 جولائی 2022:

ایف آئی اے لاہور کے سائبر کرائمز ونگ کا ایک افسر، جو راؤ عبد الراحیم کے ساتھ قریبی تعلق رکھتا تھا، نے اسے ایسی معلومات فراہم کیں جو کہ عبداللہ کے کیس کی تفتیش کرنے والی پولیس کے ساتھ شیئر کی جا سکیں۔ اس مرحلے پر، اسلام آباد پولیس اب بھی اس بات پر  غیر  یقینی کی حالت میں تھی کہ عبداللہ گم ہے یا قتل کر دیا گیا ہے، تاہم بعد کے واقعات سے پتہ چلا کہ کچھ افراد پہلے ہی اُس کی موت سے آگاہ تھے۔ پوچھ گچھ کے دوران، راؤ عبد الراحیم نے یہ معلومات انسپکٹر منیر خان کے ساتھ شیئر کیں، جنہوں نے انہیں کیس فائل میں دستاویز کر لیا اور پھر ایف آئی اے لاہور کے سائبر کرائمز ونگ افسران سے ملاقات کے لیے لاہور کا سفر کیا۔

28 جولائی 2022:

انسپکٹر منیر خان نے ایف آئی اے لاہور کے ایڈیشنل ڈائریکٹر سائبر کرائم کو ایک درخواست جمع کرائی جس میں بتایا گیا کہ وہ عبداللہ شاہ کی گمشدگی کی تفتیش کر رہے ہیں۔ اس درخواست میں انہوں نے عبداللہ کے استعمال کردہ تین موبائل نمبرز درج  کیے: (03215206308)، (03429028930)، اور (03145816803)۔

انسپیکٹر منیر خان کی جانب سے سائبر کرائم ایف آئی اے لاہور میں دی گئی درخواست

راؤ عبد الراحیم کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں، انہوں نے ایف آئی اے لاہور کے سائبر کرائمز ونگ میں ایک توہین مذہب کیس میں ملزمان کے سیل نمبرز کے تکنیکی رپورٹس حاصل کرنے کی درخواست  کی۔ یاد رکھنے کے لیے ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ پہلے دو نمبرز، (03215206308) اور (03429028930)، کو راؤ عبد الراحیم کی جانب سے 23 مئی 2022 کو درج کی گئی توہین مذہب کی شکایت میں ذکر نہیں کیا گیا تھا۔ یہ نمبر عبداللہ کے والد، عامر شاہ کے نام پر رجسٹرڈ تھے، لیکن عبداللہ انہیں باقاعدگی سے استعمال کرتا تھا۔ یہ ایک عام رواج ہے کہ پاکستانی گھروں میں نوجوان افراد اپنے والدین کے نام پر رجسٹرڈ سم کارڈز استعمال کرتے ہیں۔

راؤعبدالرحیم کو یہ نمبرز اور ان کی عامر شاہ کے نام پر رجسٹریشن تب معلوم ہوئی جب اسے عبداللہ کی گمشدگی کے کیس میں مشتبہ قرار دیا گیا۔ تیسرا نمبر، (03145816803)، عبداللہ کے اپنے نام پر رجسٹرڈ تھا اور یہ خاندان کا واحد نمبر تھا جو راؤ کی اصل شکایت میں ظاہر ہوا۔

ایف آئی اے لاہور کے سائبر کرائمز ونگ کے مدثر شاہ کی جانب سے اسلام آباد پولیس کو 11 اگست 2022 کو ایک 50 صفحوں کی تکنیکی رپورٹ کے ذریعے فراہم کردہ معلومات کا مفہوم یہ تھا کہ ایک غیر متعلقہ توہین مذہب کیس کی تفتیش کے دوران، انہوں نے دریافت کیا کہ گمشدہ شخص، عبداللہ شاہ، ایک واٹس ایپ گروپ کا حصہ تھا۔ عبداللہ نے اپنے موبائل نمبرز اور ایک فرضی نام کا استعمال کرتے ہوئے اس گروپ میں شمولیت اختیار کی تھی، دیگر افراد کے ساتھ، جن میں سندھ سے ایک نذکت علی بھی شامل تھا، جو جعلی شناخت استعمال کر رہا تھا۔ مدثر شاہ نے دعویٰ کیا کہ عبداللہ کی گمشدگی کے وقت، نزاکت علی عبداللہ اور اس کے مقام کی تفصیلات ایک نامعلوم فرد کے ساتھ شیئر کر رہا تھا۔ انہوں نے پولیس تفتیش کار کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ نزاکت علی کا عبداللہ کی گمشدگی میں کچھ ہاتھ ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے دیگر توہین مذہب کیسز میں ملزمان سے کی جانے والی مواصلات اور پیغامات کا حوالہ دیا۔

تاہم انسپکٹر منیر خان نے ، مدثر شاہ کی رپورٹ میں فراہم کردہ اسکرین شاٹس اور عبداللہ کے کیس کے درمیان کوئی براہ راست تعلق نہیں دیکھا۔ وضاحت کے لیے انہوں نے مدثر شاہ سے مزید وضاحت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا۔ چونکہ یہ معلومات باقاعدہ فراہم کی جا رہی تھیں، منیر خان نے نزاکت علی کو اپنی تفتیش میں مشتبہ قرار دیا۔ انہوں نے رپورٹ میں نامزد دیگر افراد سے پوچھ گچھ کے لیے لاہور جیل کا بھی دورہ کیا۔ مدثر شاہ کی کوششوں کے باوجود، انسپکٹر منیر نزاکت علی یا دیگر حراست میں لیئے جانے والے افراد سے کوئی ٹھوس ثبوت حاصل نہ کر سکے جس سے انہیں عبداللہ شاہ کے قتل سے جوڑا جا سکے۔

حالات کا یہ رخ بلاسفیمی بزنس گروپ کے لیے تشویشناک ثابت ہوا، جو تفتیش پر قریبی نظر رکھے ہوئے تھے ۔ قانونی برادری کے شدید دباؤ، نزاکت علی کے خلاف بے بنیاد الزامات، اور اس کے ایک مالی مشکلات سے دوچار نوجوان سندھ کے رہائشی ہونے کے باوجود جس کا اسلام آباد سے کوئی تعلق نہیں تھا، جج نے بالآخر اسے ناکافی ثبوت کی بنا پر بری کر دیا۔ نزاکت علی کو عدالت کی طرف سے بری کئے جانے کا عدالتی فیصلہ: https://factfocus.com/wp-content/uploads/2025/02/ADDITIONAL_SESSIONS_JUDGE_ISLAMABAD_WEST-4.pdf

باوجود اس کے کہ راؤ  عبدلرحیم اور مدثر شاہ نے کسی بھی طرح سے کیس کو ادھر ادھر موڑنے کی کوشش کی، نزاکت علی نے اپنے دیے گئے بیان میں کیس کے واقعات سے اپنے اصل لنک کی وضاحت کردی تھی۔

 اس نے کہا کہ وہ ایک ایمان نامی لڑکی کے ساتھ رابطے میں تھا، جس کے ساتھ اس نے پاکستان چھوڑ کر اسپین میں منتقل ہونے کا پلان بنایا تھا۔ نزاکت علی نے بتایا "ایمان نے مجھے اسپین کا ایک فون نمبر بھیجا اور کہا کہ اسے اپنی کانٹیکٹ لسٹ میں لکھ لو یہ اس شخص کا نمبر ہے  جو ہمارے وہاں (سپین) پہنچنے کے بعد سیٹل ہونے میں ہماری مدد کرے گا۔”

اس نے مزید وضاحت دی کہ اس نمبر سے اسے ایک "ہیلو” کا پیغام آیا، پھر اسے واٹس ایپ گروپ میں شامل کیا گیا اور ایڈمن بنا دیا گیا۔ اس کے فوراً بعد اس اسپین نمبر کے صارف نے خود گروپ لیفٹ کردیا۔ اس گروپ میں گستاخانہ مواد موجود تھا۔

یہ بلاسفیمی بزنس گروپ کا طریقہ واردات ہے۔

کئی لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ ایک عدالت کی سماعت کے دوران راؤ عبدلرحیم نے خود تسلیم کیا تھا کہ یہ اسپین کا نمبر اس کا تھا۔

4اگست 2022:

کیس کی حساسیت کے پیش نظر، انسپکٹر منیر خان ضلع بونیر، خیبر پختونخواہ میں نسرین بی بی سے تفتیش کرنے کے لیے گئے، جن کے نام پر مشتبہ نمبر  (03421398846) رجسٹرڈ تھا۔ تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ نسرین بی بی نے نہ تو اس نمبر کو کبھی رجسٹرڈ کیا تھا اور نہ ہی اس کا استعمال کیا تھا۔ اس کی تصدیق اس کے رشتہ داروں نے بھی کی۔ نتیجتاً، یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ راؤعبدلرحیم نے نسرین بی بی کے نام پر رجسٹرڈ نمبر کو بدنیتی کے ساتھ استعمال کیا تھا، ایک غیر مجاز سم اور اس سے جڑا ہوا واٹس ایپ اکاؤنٹ۔ دوران تفتیش راؤ عبدلرحیم نے اس کا اعتراف کرلیا۔

19 اگست 2022:

اگرچہ پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی (PFSA) نے 8 اگست 2022 کو اسلام آباد پولیس کو اطلاع دی تھی کہ ریکور کی گئی لاش کا ڈی این اے عبداللہ سے میل کھاتا ہے، اس دن شالیمار پولیس اسٹیشن کو ایک ضابطے کی تحریری رپورٹ موصول ہوئی۔ نتیجتاً، ایف آئی آر نمبر 342/22، جو ابتدائی طور پر گمشدگی کے کیس کے طور پر درج کی گئی تھی، اس میں دفعہ 302 کے تحت قتل کے کیس میں منتقل کردی گئی۔

اگست 2022:

 قتل کے مقدمے میں مرکزی شخصیت راؤ عبدالرحیم پولیس کے سامنے  ضمانت قبل از گرفتاری کرواکے پیش ہوئے، ان کے ساتھ کئی وکلاء اور ایک شخص رضوان احمد سیفی بھی موجود تھا۔ راؤ عبدلرحیم نے دعویٰ کیا کہ وقوعے کے وقت وہ رضوان سیفی کے دفتر (علاقہ نیلور) میں موجود تھے اور وہاں اپنی موجودگی کے ثبوت کے طور پر ایک یو ایس بی اور ہارڈ ڈرائیو پیش کی۔ تاہم، یہ عذر پیش کرنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ اگرچہ فوٹیج نے نیلور میں ان کی موجودگی کی تصدیق کی، یہ ثبوت صرف ان کی موجودگی کو اس علاقے میں ثابت کر رہا تھا، اور اس سے عبداللہ شاہ کے ساتھ ان کا لنک، ایف-10 مرکز میں عبداللہ کو بلانے میں ان کا کردار، وقوعے کے وقت وہاں موجودگی، یا پھر عبداللہ کی لاش جس مقام پر ملی، وہاں جانے کی تفصیلات کو رد نہیں کیا گیا۔جیسے ہی نزاکت کو ملوث کرنے والی چال ناکام ہوئی، مدثر شاہ کو پراسرار طور پر سائبر کرائم ونگ اسلام آباد ٹرانسفر کر دیا گیا۔

جب نزاکت کو پھنسانے کی چال ناکام ہوگئی تو مدثر شاہ کو پراسرار طور پر سائبر کرائم ونگ اسلام آباد منتقل کر دیا گیا:

بلاسفیمی بزنس گروپ کے لیے اس بحران کے درمیان، اچانک مدثر شاہ کو سائبر کرائم ونگ اسلام آباد ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔ یہ اچانک ایسا قدم اٹھایا گیا تھا، جس کی کوئی قابل قبول وضاحت آج تک نہیں مل سکی۔ تاہم، سرکاری ریکارڈ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ایف آئی اے کا ایک ایسا  افسر، جس کا اسلام آباد کے قتل کیس سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا، لاہور میں تعینات ہونے کے دوران پولیس تفتیش کو سبوتاژ کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا۔

اسلام آباد پہنچنے کے بعد اس نے سب سے پہلے عامر شاہ (عبداللہ شاہ کے والد) کے خلاف سرچ اور سیزر (ضبطگی) کے وارنٹس حاصل کرنے کے لئے درخواست اپلائی کی، اور انہیں اسی گستاخی کے مقدمے میں ملوث کر لیا، جس میں ان پر حضور اکرم ﷺ کی گستاخی کا الزام لگایا گیا۔ اس نے کامیابی کے ساتھ دو مواقع (15 ستمبر 2022 اور 19 ستمبر 2022) پر محمد شبیر، جوڈیشل مجسٹریٹ – ویسٹ، اسلام آباد سے تلاشی وارنٹ کی منظوری حاصل کی، جس میں عامر شاہ کی رہائش گاہ کی تلاشی لینے اور الیکٹرانک و ڈیجیٹل آلات قبضے میں لینے کی ضرورت بیان کی گئی۔ مزید برآں، اس نے ذکر کیا کہ یہ اس لیے ضروری ہے کیونکہ سائبر کرائم اسلام آباد سرکل ایک توہینِ مذہب کے مقدمے کی تحقیقات کر رہا ہے، جو ایف آئی آر نمبر 73/2022 کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر، اسلام آباد میں درج ہے، اور وہ عامر شاہ سے تفتیش آگے بڑھانے کے لیے سیکشن 11 پی ای سی اے 2016 کے تحت، سیکشنز 295-A، 295-B، 295-C، 298، 298A اور 109 پی پی سی کے ساتھ پڑھ کر کارروائی کرنا چاہتے ہیں۔ فیکٹ فوکس کی جانب سے متعدد دفعہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ سے اس کیس کے حوالے سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کسی بھی متعلقہ افسر نے بات نہ کی۔





مدثر شاہ (سائبر کرائم ونگ، ایف آئی اے کا افسر): عبداللہ شاہ قتل کیس کا ایک مرکزی کردار اور بلاسفیمی بزنس گروپ کا مرکزی رکن

مدثر شاہ نے تفتیش سے بچنے (رخ موڑنے)  کے لیے ایک حکمت عملی تیار کی، جو کہ ایک سم کارڈ کی ملکیت پر مبنی تھی۔ ایک موبائل نمبر، جو پہلے ہی انتقال کر جانے والے عبداللہ شاہ نے استعمال کیا تھا اور جو گستاخانہ بات چیت میں مبینہ طور پر ملوث تھا، عامر شاہ کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔ مدثر شاہ نے اس کا فائدہ اٹھانے کا منصوبہ بنایا اور صرف سم کارڈ کی ملکیت کی بنیاد پر عامر شاہ پر گستاخی کا الزام عائد کرنے کی کوشش کی۔ اس کا مقصد واضح تھا کہ عامر شاہ پر دباؤ ڈالنا، تاکہ وہ پولیس کی تفتیش کے دوران بلاسفیمی بزنس گروپ کے سربراہ کے حق میں بیان دے۔ یہ چال کامیاب ہو گئی۔

ایک وکیل کے طور پر، راؤ عبدالرحیم جانتا تھا کہ عامر شاہ کو اسلامی قوانین کے تحت معافی مانگنے پر مجبور کرنے اور اس سے مصالحت کرنے کے بجائے، زیادہ مؤثر حکمت عملی یہ ہوگی کہ اسے پولیس کے سامنے بیان دینے پر مجبور کیا جائے۔ اگر امیر شاہ کو اس بات پر مجبور کیا جا سکتا کہ وہ اپنی ابتدائی الزام تراشی کو غلط مانے اور یہ تسلیم کرے کہ وہ اب اس بات پر قائل ہیں کہ راؤ عبدلرحیم کا ان کے بیٹے کے قتل سے کوئی تعلق نہیں تھا، تو یہ راؤ عبدلرحیم کو مستقل طور پر اس الزام سے بری کر دیتا۔

اس دوران، ایک اور مشتبہ تبدیلی سامنے آئی۔ مئی 31، 2022 کی تاریخ والی ایک پیچھے کی تاریخ کی ضمنی درخواست ایف آئی اے کی FIR#73/22  کیس کی فائل میں شامل کر دی گئی اور اس بات کا راؤ عبدالرحیم کے قریبی ساتھیوں نے ذکر کیا ۔ اس دستاویز میں دو فون نمبرز شامل تھے جو عامر شاہ نے عبداللہ کی گمشدگی کے وقت پولیس کو فراہم کیے تھے۔ وہ نمبر عامر شاہ کے نام پر رجسٹرڈ تھے مگر عبداللہ نے استعمال کیے تھے۔ اس جعلی درخواست کے ذریعے ان نمبروں کو جرم سے منسلک کرکے عامر شاہ کو بلاسفیمی کے کیس  میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔ تاہم، ایف آئی اے ریکارڈ میں رد و بدل کرتے ہوئے، مدثر شاہ اس ضمنی درخواست کے ساتھ متعلقہ عدالتی ریکارڈز کو اپ ڈیٹ کرنے میں ناکام رہے۔ فیکٹ فوکس کی تحقیقات کے دوران، قانونی ماہرین نے مکمل عدالتی ریکارڈز کا بغور جائزہ لیا اور ایسی کوئی پیچھے کی تاریخ کی ضمنی درخواست نہیں ملی۔

اس دستاویز میں دو فون نمبرز شامل تھے جو عامر شاہ نے عبداللہ کی گمشدگی کے وقت پولیس کو فراہم کیے تھے۔ وہ نمبر عامر شاہ کے نام پر رجسٹرڈ تھے مگر عبداللہ نے استعمال کیے تھے۔ اس جعلی درخواست کے ذریعے ان نمبروں کو جرم سے منسلک کرکے عامر شاہ کو بلاسفیمی کے کیس  میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی۔

مدثر شاہ نے عامر شاہ کے گھر پر چھاپہ مارا اور موبائل فونز اور دیگر ڈیجیٹل آلات ضبط کر لیے جبکہ عامر شاہ گھر پر موجود نہیں تھے۔ اس کے بعد، اس نے عامر شاہ کو فون کیا اور اسے جلد از جلد ایف آئی اے دفتر میں پیش ہونے کا حکم دیا تاکہ مزید تحقیقات کی جا سکیں۔

عامر شاہ کے خاندان کے افراد کے مطابق، بلاسفیمی بزنس گروپ کے ارکان نے مدثر شاہ کے چھاپے کے فوراً بعد عامر شاہ سے رابطہ کیا اور انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں، جن میں ان کے دوسرے بیٹے کے خلاف بلاسفیمی کے الزامات لگانی کی دھمکی شامل تھی۔ راؤ عبد الراحیم کے ساتھیوں نے واضح طور پر عامر شاہ کو خبردار کیا کہ اگر وہ پولیس تفتیشی افسر کے سامنے پیش نہ ہوئے اور یہ نہ کہا کہ تحقیقات کے مطابق وہ راؤ عبد الراحیم کو اپنے بیٹے کے قتل میں ملوث نہیں سمجھتے، تو ان کے باقی بچے بھی انہی بلاسفیمی کے الزامات کے تحت قتل کر دیئے جائیں گے۔ دباؤ میں لا کر، عامر شاہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے دوسرے خاندان کے ارکان سے حلف نامے جمع کرائیں، جن میں یہ کہا گیا کہ وہ موبائل نمبر اس کے استعمال میں نہیں تھا بلکہ اس کے مرحوم بیٹے عبداللہ شاہ کے زیر استعمال تھا۔

ایک طرف، عامر شاہ پہلے ہی اپنے بیٹے کے قتل کے باعث ذہنی طور پر اذیت کا شکار تھا، جو ایک ماہ پہلے قتل ہوا تھا۔ دوسری طرف، اسے اپنے خلاف بلاسفیمی کے الزامات کا سامنا تھا، ساتھ ہی بلاسفیمی بزنس گروپ کے ارکان کی طرف سے اس کے باقی بچوں کو قتل کرنے کی دھمکیاں بھی مل رہی تھیں۔ اپنی زندگیوں کے خوف سے، عامر شاہ نے فوراً مدثر شاہ کے تمام مطالبات کو تسلیم کیا اور اپنے، اپنے خاندان اور اپنی بہن کے حلف نامے جمع کرائے۔

27 ستمبر 2022:

عامر شاہ کو کامیابی سے دھمکانے اور جبر کرنے کے بعد، بلاسفیمی بزنس گروپ نے پاکستان میں بلاسفیمی کیسز کی تاریخ میں سب سے غیر معمولی نتائج میں سے ایک حاصل کیا۔ حالانکہ عامر شاہ پر پیغمبر محمد ﷺ کے خلاف بلاسفیمی کا الزام عائد کیا گیا تھا جو عام طور پر فوری گرفتاری کا سبب بنتا ہے۔ مدثر شاہ نے انہیں گرفتار نہیں کیا۔ اس کے بجائے، اس نے عامر شاہ کو ایف آئی اے عدالت سے ضمانت حاصل کرنے کی ہدایت کی۔ نتیجتاً، عامر شاہ نے راجہ آصف محمود، خصوصی جج سنٹرل اسلام آباد کی عدالت سے ضمانت حاصل کی۔

ابتدا میں 11 اکتوبر 2022 تک دی گئی ضمانت بعد میں بڑھا دی گئی۔

عامر شاہ کے مطابق، چونکہ وہ اپنے بزرگ والدین کا بنیادی دیکھ بھال کرنے والا اور اپنے خاندان کا واحد کفیل تھا، اس کے پاس بلاسفیمی بزنس گروپ کے مطالبات تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا تاکہ وہ اپنے باقی بچوں کو محفوظ رکھ سکے۔

انتہائی دباؤ کے تحت، وہ 16 اکتوبر 2022 کو پولیس تفتیشی کے سامنے پیش ہوئے اور بلاسفیمی بزنس گروپ کی ڈیمانڈ کے مطابق بیان دیا۔ یہ بیان نیچے کی تصویر میں پڑھا جا سکتا ہے۔

عبداللہ شاہ کے والد عامر شاہ کا بیان، جو انہوں نے پولیس تفتیشی افسر کے سامنے دیا، جب مدثر شاہ نے انہیں جھوٹ کی بنیاد پر نبی اکرم حضرت محمد (ﷺ) کی توہین کے مقدمے میں ملوث کیا۔

انسپکٹر منیر خان کو اپنی تفتیش پر مکمل اعتماد تھا اور وہ اسے عدالت میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ تاہم، ان کے مطابق، انہیں اس کے بعد کوئی قانونی راستہ نہیں ملا جب عامر شاہ نے راؤ گروپ کے مطالبے پر سمجھوتہ کرتے ہوئے بیان فراہم کیا۔

اسلام آباد میں تمام عدالتیں، تمام ججز، اور تمام متعلقہ حکام اس صورتحال سے آگاہ تھے اور عامر شاہ پر ڈھائے گئے ظلم کو جانتے ہوئے بھی انہوں نے خاموش تماشائی بن کر رہنا پسند کیا۔

ملک میں کوئی بھی جج اس قدر واضح طور پر جھوٹے بلاسفیمی الزامات کے باوجود بھی انصاف دینے کی جرات نہیں کرتا۔

حال ہی میں سینئر صحافی اعزاز سید کے ساتھ پروگرام "ٹاک شاک” میں ایک انٹرویو کے دوران راؤ عبد الرحیم نے دعویٰ کیا کہ اگر کسی قتل کے مقدمے میں اس نے کوئی راضی نامہ کیا ہے تو متعلقہ دستاویزات کو سامنے لانا چاہیے۔

راؤ عبد الرحیم نے عامر شاہ کو پولیس تفتیشی کے سامنے اپنے الزامات واپس لینے پر مجبور کیا، اور اس بات کو یقینی بنایا کہ اس سمجھوتے کا کوئی ریکارڈ یا تصدیق عدالت کے سامنے نہ کی جائے۔

راؤ کی لاہور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس چوہدری عبد العزیز کی جانب سے سہولت فراہم کرنا:

ہائی کورٹ کے جج چوہدری عبد العزیز راؤ عبد الرحیم کے ایسوسی ایٹ اور سینئر ساتھی ہیں، جن کی ایک طویل عرصے تک کی مشترکہ تاریخ ہے۔

راؤ اور چوہدری عبد العزیز، دونوں بلاسفیمی کے انتہاپسند کارکن اور وکیل ہیں، اور اگست 2012 میں اسلام آباد کی مسیحی لڑکی رمشاء مسیح کے خلاف جھوٹا بلاسفیمی کیس بنانے میں ملوث تھے۔ حالانکہ عدالتی تحقیقات نے یہ ثابت کیا کہ رمشاء کے خلاف کیس مکمل طور پر جھوٹا تھا، چوہدری عبد العزیز کو چار سال کے اندر ہائی کورٹ کا جج مقرر کر دیا گیا جو عدلیہ کے نظام کی ناکامی کو اجاگر کرتا ہے۔

جسٹس چوہدری عبد العزیز، راؤ عبد الرحمیم اور قریبی ساتھی شمالی علاقاجات کی سیر و تفریح کے موقع پر۔

بین الاقوامی سطح پر نمایاں جھوٹے کیس میں رمشاء مسیح کے خلاف بلاسفیمی بزنس گروپ کے ایک کارکن کے طور پر اپنے کردار کے باوجود، بلاسفیمی سے متعلق زیادہ تر کیسز اب بھی چوہدری عبد العزیز کی عدالت میں فکس ہوتے ہیں۔ بلاسفیمی ایکٹویسٹ کے طور پر ان کی تاریخ اور اتنے زیادہ بلاسفیمی کیسز میں ملوث ہونے سے ان کی غیرجانبداری اور عدلیہ کے اخلاقیات پر سنگین سوالات اٹھتے ہیں۔ ان مقدمات کی صدارت کرنا عالمی سطح پر قابل قبول عدلیہ کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔

بلاسفیمی کے الزامات کا سامنا کرنے والوں کے خلاف ان کا تعصب اتنا واضح ہے کہ وہ اکثر مخالف وکیل کو نظرانداز کرتے ہیں اور تمام شواہد کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ احمد ستی کے حالیہ بلاسفیمی کیس (ایف آئی آر نمبر 119/2022)   ایف آئی اے راولپنڈی میں چوہدری عبد العزیز نے غیر ضروری طور پر چار مہینے تک ضمانت مسترد کرنے کا آرڈر روکے رکھا، اس کے بعد آخرکار احمد ستی کی ضمانت مسترد کر دی۔ بالآخر سپریم کورٹ نے اسی کیس میں فیصلہ دیا کہ درخواست گزار کو مبینہ جرائم سے جوڑنے کے لیے کوئی مواد پیش نہیں کیا گیا تھا اور جسٹس عائشہ ملک کی عدالت میں ضمانت منظور کر لی گئی۔

اپریل 2023 میں، ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ میں بد نیتی اور مشکوک سرگرمیوں کا مشاہدہ کرتے ہوئے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے ایف آئی اے کو پی پی سی کے مقدمات پر کام روکنے اور صرف پیکا سے متعلق امور پر توجہ مرکوز کرنے کی ہدایت کی۔ اس حکم کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے یا سپریم کورٹ لے جانے کے بجائے، بلاسفیمی بزنس گروپ ایک بار پھر اس معاملے کو لاہور ہائی کورٹ میں لے آیا، جہاں یہ توقع کی گئی تھی کہ یہ کیس جسٹس چوہدری عبد العزیز کے پاس جائے گا۔ جیسا کہ توقع تھی، جسٹس چوہدری عبد العزیز نے ایف آئی اے کو پی پی سی کے مقدمات پر کام دوبارہ شروع کرنے کا حکم دیا، جس سے دوسرے ہائی کورٹ کے فیصلے کو بائی پاس کیا گیا بغیر کسی واضح وجوہات کے۔

جب اسلام آباد پولیس راؤ عبد الراحیم کے خلاف عبداللہ شاہ کے قتل کے مقدمے کی تحقیقات کے اختتام کے قریب پہنچ رہی تھی، راؤ عبد الراحیم نے جسٹس چوہدری عبد العزیز کی عدالت میں درخواست دائر کی، کہ ایف آئی اے، جو پہلے اس کے ساتھ قریب سے کام کر رہی تھی، اب بلاسفیمی کے مقدمات کی مناسب تحقیقات نہیں کر رہی۔ اس نے درخواست کی کہ ایف آئی اے کی طرف سے مناسب اقدامات کیے جائیں۔ جواب میں، چوہدری عبد العزیز نے ملک بھر میں بلاسفیمی سیلز بنانے کا حکم دیا۔

جسٹس چودھری عبد العزیز کے پاس اس کیس کی پروسیڈنگز کا مقصد واضح تھا جن میں راؤ عبد الرحیم کو میڈیا کی توجہ دلانے اور اسلام آباد پولیس کے افسران پر دباؤ ڈالنے جیسے عوامل کارفرما تھے۔

جولائی 2024 میں، فیکٹ فوکس نے پاکستان میں بلاسفیمی بزنس گروپ کی کارروائیوں پر رپورٹ پیش کی، جس میں گروپ کے متاثرین کی تفصیل دی گئی، جن میں 400 نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل تھیں۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ بلاسفیمی گروپ کس طرح کام کرتا ہے، نوجوانوں کو کس طرح پھنسایا جاتا ہے، اور اس کے مالی معاملات کیا ہیں۔

مزید برآں، فیکٹ فوکس نے پنجاب پولیس اسپیشل برانچ کی ایک خصوصی رپورٹ جاری کی، جو رپورٹ میں شیئر کی گئی معلومات کی تصدیق کرتی ہے۔

تاہم، راؤ پر قتل کے الزام کے حوالے سے ایک اہم نقطہ جو اسپیشل برانچ کی جانب سے اٹھایا گیا تھا، ابتدائی فیکٹ فوکس رپورٹ میں شامل نہیں تھا۔

یہ رپورٹ اب فیصلہ کن ثبوت فراہم کرتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ راؤ عبدالرحیم،  عبداللہ شاہ کے قتل میں ملوث ہے جیسا کہ پنجاب پولیس اسپیشل برانچ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے۔

ایک بار پھر، جب راؤ نے فیکٹ فوکس اور اسپیشل برانچ سے بڑھتے ہوئے شواہد کے سامنے خود کو بے بس محسوس کیا، تو وہ اپنے رہنما چوہدری عبد العزیز کی عدالت میں مدد کے لیے دوڑتے ہوئے گیا، اسپیشل برانچ کی رپورٹ کی درستگی کو چیلنج کرنے کی کوشش کی، جو پہلے ہی فیکٹ فوکس کی فراہم کردہ شہادتوں کے ذریعے تصدیق ہو چکی تھی۔ جسٹس چوہدری عبد العزیز ابھی بھی اس درخودرخواست کی سماعت کر رہے ہیں۔