وفاقی حکومت نے سوشل میڈیا پر تنقید کو سنجیدہ لے لیا۔پوری طاقت کے ساتھ سوشل میڈیا کو قابو کرنے کے لیئے اقدامات لینے کا فیصلہ کر لیا۔اس مقصد کےلیے ایک طرف قانونی کاراوئیاں جاری ہیں تو دوسری طرف خصوصی ٹاسک فورس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔جبکہ سائبر قوانین میں ترمیم کر کے گرفت سخت کرنے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔
بلوچستان میں سینکڑوں سوشل میڈیا اکاونٹس کے خلاف کاروائی :
ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے بلوچستان میں ریاست مخالف پروپیگنڈے کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے۔ سوموار کے روز وفاقی تحقیاتی ادارے نے بتایا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ بلوچستان زون نے سوشل میڈیا پر ریاست مخالف پروپیگنڈے میں ملوث عناصر کے خلاف بھرپور کارروائیاں کی ہیں۔
ان کاروائیوں کے لیے وفاقی تحقیقاتی ادارے کی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی مانیٹرنگ اور تجزیے کے لیئے خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی۔ٹیم نے جدید ٹیکنالوجی کی بنیاد پر فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر، ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز پر مشکوک سرگرمیوں کی نگرانی کی۔
گزشتہ 3 ماہ کے دوران، ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ بلوچستان نے ریاست مخالف مواد شئیر کرنے میں ملوث 924 سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی نشاندہی کی۔مذکورہ اکاونٹس کے حوالے سے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو تفصیلات فراہم کردی گئیں۔رپورٹ کردہ اکاؤنٹس میں 487 فیس بک ، 190 ٹک ٹاک ، 147 ٹوئٹر ، 88 انسٹا گرام اور 12 دیگر ایپلیکیشن کے اکاؤنٹس شامل ہیں۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق اب تک 312 اکاؤنٹس کو پی ٹی اے کی جانب سے بلاک کیا گیا ہے۔ریاست مخالف عناصر کے خلاف 14 انکوائریاں درج کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔علاوہ ازیں ایف آئی اے سائبر کرائم بلوچستان نے 28 مختلف سوشل میڈیا ایپلیکیشنز کی نشاندہی کی ہے جنہیں ریاست مخالف عناصر کے ذریعے گمنام رابطوں اور پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ترجمان ایف آئی اے عبدالغفور کی طرف سے جاری اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔ملزمان کی نشاندہی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جا رہا ہے.
وزیر اعظم نے سوشل میڈیاپروپیگنڈا کی روک تھام کے لیے ٹاسک فورس قائم کر دی:
وزیرِاعظم شہبازشریف نے سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے اور اسلام آباد میں انتشار پھیلانے والوں کی نشاندہی کے لیے ٹاسک فورس قائم کردی جس کے سربراہ وزیرِداخلہ محسن نقوی ہوں گے۔
سوموار کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں امن وامان کی صورتحال پر اہم اجلاس ہوا، اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے بھی خصوصی شرکت کی۔اعلیٰ سطح کے اجلاس میں وفاقی وزرا اور سکیورٹی اداروں کے سربراہان نے بھی شرکت کی جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور سینئر صوبائی وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے بھی شرکت کی۔
قائم کردہ ٹاسک فورس میں وفاقی وزرا اعظم نذیر تارڑ، احد چیمہ، عطا تارڑ اور سیکیورٹی فورسز کے نمائندے بھی شامل ہوں گے۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ٹاسک فورس پرتشدد واقعات میں ملوث افراد کی نشاندہی کرے، قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دلوائی جا سکے۔
وزیراعظم نے کسی بھی قسم کے انتشار کو روکنے کے لیے وفاقی انسداد فسادات فورس بنانے کا بھی فیصلہ کیا جبکہ اجلاس میں وفاقی فورینزک لیب کے قیام کی منظوری بھی دی گئی۔اجلاس میں اسلام آباد سیف سٹی منصوبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا بھی فیصلہ کرلیا گیا، اس کے علاوہ اجلاس میں وفاقی پراسیکیوشن سروس کو مضبوط کرنے بارے بھی فیصلہ کیا گیا۔
وزیر اعظم کے دفتر سے دستیاب معلومات کے مطابق، ٹاسک فورس "24 سے 27 نومبر 2024 تک اسلام آباد میں سیاسی شرپسندوں کے گرد جعلی اور گمراہ کن خبریں بنانے اور پھیلانے میں ملوث افراد، گروپوں اور تنظیموں کی نشاندہی کرے گی۔اور اس معاملے سے متعلق پوری سوشل میڈیا مہم پر تحقیات کرے گی۔
یہ ٹاسک فورس "ان افراد اور گروہوں کا سراغ لگائے گی جو کہ پاکستان کے اندر ہیں یا بیرون ملک سے اس کا حصہ ہیں۔انہیں ملکی قانون کے مطابق انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا”۔یہ ٹاسک فورس پالیسی کے خلا کو پر کرنے کے لیے اقدامات تجاویز دے گی۔اور 10 دنوں کے اندر اپنے نتائج پیش کرے گی۔
پی ٹی اے کے چیئرمین میجر جنرل ریٹائرڈ حفیظ الرحمان کی سربراہی میں ٹاسک فورس آٹھ ارکان پر مشتمل ہے۔تاہم ضرورت پڑنے پر کسی دوسرے رکن کو بھی شامل کر سکتی ہے۔ اس باڈی میں وزارت داخلہ اور اطلاعات کے جوائنٹ سیکرٹریز، ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے ڈائریکٹر، وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے آئی ٹی ڈائریکٹر، انٹیلی جنس بیورو کے جوائنٹ ڈائریکٹر، اسلام آباد پولیس کے سربراہ کے علاوہ انٹرسروسز انٹیلی جنس اور ملٹری انٹیلی جنس کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔اس مشترکہ ٹاسک فورس کی تشکیل پی ٹی آئی کے 24 تا 27 نومبر کو ہونے والے احتجاج کے دوران مبینہ طور پر تشدد میں ملوث افراد کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی کے لیے ایک علیحدہ ٹاسک فورس کے حالیہ آئین کے بعد عمل میں آئی ہے۔
سائبر قوانین میں ترمیم کر کے گرفت سخت کرنے کی منصوبہ بندی :
حکومت الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے ایکٹ (پیکا) 2016 میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، جس کے تحت ایک نئی اتھارٹی کی تشکیل کی جائے گی، جس میں آن لائن مواد کو بلاک کرنے اور سوشل میڈیا تک رسائی کے ساتھ ساتھ پروپیگنڈہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔سائبر قوانین میں ترمیم کر کے گرفت سخت کرنے کے لیے مجوزہ ترمیم کے مسودے میں ڈیجیٹل رائٹس پروٹیکشن اتھارٹی کو سوشل میڈیا فرموں کا احتساب کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔اس میں سوشل میڈیا کی تعریف اس تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز کو بھی تابع کرنے کے لیے تجویز دی گئی ہے۔ ممکنہ طور پر VPNs کو دائرے میں لانا بھی شامل ہے۔ تجویز کے مطابق ‘جعلی خبریں’ شیئر کرنا ناقابل ضمانت جرم قرار دے کر 5 سال قید کی سزا رکھنا بھی مسودے میں شامل ہے۔
روزنامہ ڈان کے مطابق ان ترامیم کی تصدیق وزیر اعظم کے مشیر بیرسٹر عقیل ملک نے کی ہے۔ جنہوں نے کہا کہ نئی دفعات کا مقصد "غلط معلومات اور منفی پروپیگنڈے کو ختم کرنا” ہے۔ترمیم کے مسودے میں تجویز کردہ تبدیلیوں میں سب سے زیادہ قابل ذکر "سوشل میڈیا پلیٹ فارم” کی نئی تعریف ہے، جس میں اب سوشل میڈیا تک رسائی کے لیے استعمال ہونے والے ٹولز اور سافٹ ویئر کو شامل کرنے کے لیے توسیع کی گئی ہے۔مسودہ کے مطابق پیکا کے سیکشن 2 میں ایک نئی شق تجویز کی گئی ہے –
ترمیم شدہ قانون کے تحت، حکومت پیکا کے تحت پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے اختیارات لینے کے لیے ایک نئی باڈی DRPA قائم کرے گی۔یہ اتھارٹی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو "ڈیجیٹل اخلاقیات اور متعلقہ شعبوں” کے بارے میں مشورہ دے گی، تعلیم اور تحقیق کو فروغ دے گی، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی ترغیب اور سہولت فراہم کرے گی اور صارفین کی آن لائن نقصان سے حفاظت کو یقینی بنائے گی۔
نیا قائم کردہ ادارہ ۔DRPA سوشل میڈیا کے مواد کو بھی "ریگولیٹ” کرے گا، اس ایکٹ کی خلاف ورزی کی شکایات کی تحقیقات کرے گا اور حکام کو مواد تک رسائی کو "بلاک” کرنے یا محدود کرنے کا حکم دے گا۔ڈی آر پی اے سوشل میڈیا کمپنیوں کے لیے اپنے احکامات پر عمل درآمد کے لیے ٹائم فریم کا خاکہ بھی بنائے گا اور ان پلیٹ فارمز کے لیے پاکستان میں دفاتر یا نمائندے رکھنے کے لیے انتظامات کرے گا ۔DRPA کے قیام کا عمل 8 فروری کے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت میں حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد شروع ہوا۔
موجودہ قوانین کے مطابق اس وقت پیکا کے تحت "غیر قانونی آن لائن مواد” کی تعریف کی جاتی ہے جس کے سیکشن 37 میں اس طرح کے مواد کے خلاف اسلام ، پاکستان کی سالمیت، سلامتی یا دفاع یا امن عامہ، غیر شائستگی یا اخلاقیات کے خلاف، یا توہین عدالت یا کمیشن یا اس ایکٹ کے تحت کسی جرم پر اکسانے پر کاروائی کی جاتی ہے۔جبکہ مجوزہ ترمیم شدہ مسودے میں کم از کم 16 قسم کے مواد کی فہرست دی گئی ہے، جنہیں غیر قانونی تصور کیا جائے گا۔