پی ٹی آئی کی بشری بی بی کو سیاست سے بے دخل کرنے کی مہم

بشری بی بی ڈی چوک پر مظاہرین کی قیادت کرتے ہوئے خطاب کر رہی ہیں

پاکستان تحریک انصاف 2022 میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد مسلسل مختلف محاذوں پر مصروف ہے۔پارٹی کو مسلسل ایک مہم کے بعد دوسری مہم درپیش ہوتی آرہی ہے۔


گزشتہ چار روز پی ٹی آئی بمقابلہ بشری بی بی محاذ پر متحرک ہے۔پارٹی راہنما اور کارکن عمران خان کی تیسری اہلیہ کو سیاست سے بے دخل کرنے کی مہم میں مصروف ہیں۔ بشری بی بی کی خیبر پختون خواہ کے حکومتی اور پارٹی کے سیاسی معاملات میں مطلق العنان حکمرانی سے پارٹی کارکن اور راہنما یکساں نالاں ہیں۔

مبینہ 300 لاشیں چھوڑ کر بھاگنا:

منگل کے روز ڈی چوک میں پی ٹی آئی مظاہرین پر شیلنگ اور حکومتی آپریشن شروع ہونے سے قبل ہی سابق خاتون اول اور خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی مظاہرہ چھوڑ کر مانسہرہ چلے گئے تھے۔اس پر پارٹی کی طرف سے اس آپریشن میں 300 کے قریب مظاہرین کی ہلاکت کے دعوے کا بھرپور بیانیہ بھی ترتیب دیا گیا۔اس بیانیہ کے نتیجے میں ایک طرف تو حکومت کو دباو کا شکار بنایا گیا مگر دوسری طرف یہ بیانیہ خود مظاہرین کی قیادت کرنے والی پارٹی سربراہ کی اہلیہ بشری پر بیک فائر کر گیا۔آپریشن سے چند ہی منٹ قبل مظاہرے کے مقام پر کارکنوں سے بشری بی بی نے خطاب کرتے ہوئےآخری دم تک مظاہرہ جاری رکھنے کا عزم کیا تھا۔اور چند لمحون بعد وہ (پی ٹی آئی کی اعلان کردہ 300 کے قریب مظاہرین کی لاشیں) چھوڑ کر مانسہرہ فرار ہو گئیں۔

اگر چہ اس فرار کی وجہ علی امین گنڈاپور نے ان کی گاڑی پر سیدھی فائرنگ اور انہیں قتل کرنے کی کوشش کو قرار دیا۔جبکہ کچھ لوگ یہ تاثر بھی دے رہے ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے وہاں سے نہیں گئیں بلکہ زبردستی ہٹایاگیا۔ تاہم اس فرار کے نتیجے میں پارٹی کارکنوں میں عمران خان کی اہلیہ کے خلاف غم و غصے نے جنم لے لیا۔

بشری بی بی پر تنقید:

کارکنوں کے ردعمل پر پی ٹی آئی کے بعض مرکزی رہنماؤں نےذرائع ابلاغ پر بشریٰ بی بی پر تنقید کی۔جبکہ خیبر پختونخوا کے کچھ پارٹی رہنما بھی احتجاج کے دوران ان کے کردار کے حوالے سے اعتراضات اٹھا رہے ہیں۔

دوسری جانب مخالف سیاست دانوں نے بھی ان کو تنقید کا ہدف بنا لیا ہے۔جن کا کہنا ہے ڈی چوک پر احتجاج کا فیصلہ صرف بشری بی بی کی ہی منصوبہ بندی تھی۔ جبکہ پی ٹی آئی کے ناکام احتجاج کے بعد سے سوشل میڈیا کے پلیٹ فامز پر بھی سب سے زیادہ تنقید بشریٰ بی بی پر ہی کی جا رہی ہے۔

عمران خان کی اہلیہ اور وزیراعلی کے مابین اختلافات

:یہ پہلی مرتبہ تھی کہ بشریٰ بی بی پی ٹی آئی کے کسی احتجاج میں شریک ہوئیں، جب کہ پارٹی کی طرف سے اعلان کے مطابق احتجاجی قافلے کی قیادت خیبر پختونخوا کے وزیر اعلٰی گنڈا پور کر رہے تھے۔مگر پشاور سے قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد آنے تک کے سفر میں کارکنوں نے وزیراعلی کی اس طرح نگرانی کی کہ کہیں وزیراعلی مظاہریں کو چکما دے کر بھاگ نہ جائیں۔پی ٹی آئی راہنما کارکنوں کے اس رویئے کا ذمہ دار بھی بشری بی بی کو ہی قرار دے رہے ہیں۔

ڈی چوک سے فرار کے بعد مانسہرہ پہنچ کر سپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی کی رہائش گاہ پر ذائع ابلاغ کو دن 11 بجے پریس کانفرنس کے لیے دعوت دی گئی۔جس میں وزیراعلی نے پارٹی راہنماوں کے ہمراہ احتجاج کی ناکامی اور آئندہ کے لائحہ عمل سے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کرنا تھا۔یہ پریس کانفرنس ممکن ہی نہ ہو سکی۔ہمارے ذرائع کے مطابق بشری بی بی کی طرف سے پریس کانفرنس میں شریک ہونے پر اصرار کے باعث پریس کانفرنس منسوخ کر دی گئی۔اور بعد ازاں وزیراعلی کارکنوں سے خطاب کرتے خود کو منظر عام پر لایا۔

اگر چہ جمعہ کے روزبشریٰ بی بی سے اختلافات کی خبروں پر علی امین گنڈا پور نے خاموشی توڑتے ہوئےکہا ہے کہ میرے اور بشریٰ بی بی کے درمیان کوئی اختلافات نہیں ہیں یہ محض افواہیں ہیں۔

پشاور میں ذرائع ابلاغ سے بات چیت میں علی امین گنڈاپور نے کہا کہ میرے اور بشریٰ بی بی کے درمیان اختلافات کی باتیں پروپیگنڈا ہیں، ہمارا مقصد بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی ہے۔تاہم ان کا یہ بیان گنڈہ پور اور بشری بی بی کے مابین اختلافات زبان زد عام ہونے کے بعد ہی آیا ہے۔

پارٹی عہدوں سے مستعفی ہونے اور ہٹائےجانے کے اعلانات:

:احتجاج میں ناکامی پر پی ٹی آئی میں اختلافات شدت اختیار کرگیے ہیں، پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ کی جانب سے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے مستعفی کے اعلان کے بعد صاحبزادہ حامدرضا نے پی ٹی آئی کورکمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔

کور کمیٹی کے اجلاس میں بشری بی نے سلمان اکرم راجہ سے بازپرس کی تھی۔ اکرم راجہ لاہور کو قافلہ لے کر اسلام آباد جانے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، مگر ان کی کارکردگی پربشری بی بی کی طرف سے مسلسل تنقید کی گئی۔زوم اجلاس کے روران بشری بی بی کی طرف سے انتہائی توہین آمیز رویہ اور الفاظ استعمال کرنے کے بعد سلمان اکرم راجہ نےمستعفی ہونے کا فیصلہ کیا۔

دوسری جانب صاحبزادہ حامد رضا نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی کور کمیٹی اور سیاسی کمیٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ذرائع کے مطابق حامد رضا قومی اسمبلی سے بھی استعفیٰ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہوں نے پی ٹی آئی کی قیادت سے ملاقات کے بعد یہ اقدام لینے کا عندیہ دیا ہے۔

اس کے بعد بیرسٹر گوہر کو چئیرمین پی ٹی آئی کے عہدے سے ہٹا کر اسد قیصر کو چییرمین بنایے جانے کی خبریں ذرائع ابلاغ پر نشر کی جانے لگیں. جس پر سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے چیئرمین پی ٹی آئی بنائے جانے کی خبروں کی تردید کردی۔

سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ عمران خان سے آج کسی رہنما کی ملاقات نہیں ہوئی، مجھے پارٹی چیئرمین نامزد کرنے کی اطلاعات درست نہیں ہیں۔تاہم انہوں نے پارٹی چئیرمین اور سیکریٹری جنرل کو عہدوں سے ہٹائے جانے کے عمل اور امکان کی تصدق کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی چیئرمین اور سیکرٹری جنرل کے حوالے سے فیصلہ عمران خان سے مشاورت کے بعد ہو گا۔

واضح رہے کہ اتوار کے روز پشاور سے اسلام آباد کے لیے قافلے روانہ ہونے سے قبل صوبائی وزیر اطلاعات نے کہا تھاکہ عمران خان کی اہلیہ احتجاج میں شرکت نہیں کریں گی۔ان کا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔تاہم بعد ازاں بشری بی بی احتجاجی جلوس میں شامل ہو کر باقاعدہ مظاہرین کی قیادت کرتی دکھائی دی تھیں۔انہوں نے متعدد مقامات پر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کی رہائی سے قبل واپس نہ آنے کے عزم کا اظہار کیا۔احتجاجی مظاہرے کی ناکامی کے بعد پارٹی راہنماوں، مخالف جماعتوں اور حکومت کی طرف سے اس احتجاجی مظاہرے کی منصوبہ بندی اور ناکامی کا ذمہ دار بھی عمران خان کی