پاک ایران بارڈر کی بندش کے خلاف بلوچستان کے تاجرون کا احتجاج
رخشان مکران ڈویژن کے متعدد سرحدی علاقوں میں سوموار کے روز آل رخشان مکران بارڈر الائنس بلوچستان کی کال پر بارڈر کے کاروبار میں ہفتہ وار تین روزہ چھٹی، اندرون بلوچستان تیل کی ترسیل پر پابندی اور دیگر بارڈر سے متعلقہ معاملات پر بدھ کے روز مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔کاروباری مراکز، ہوٹل، بنک، اور مارکیٹیں بند رہیں۔ ہڑتال کے باعث سڑکوں پر ٹریفک کی روانی انتہائی کم رہی۔ بارڈر سے وابستہ کمیٹیوں، انجمن تاجران کے عہدے داروں اور دیگر کاروباری حضرات نے بازار میں گشت کرتے ہوئے شٹر ڈوان ہڑتال کی نگرانی کی۔اور تاجر برادری سے روزگار بچانے کے لیے ہڑتال کامیاب کرنے کی اپیل کی۔
پنجگور میں ہڑتال بلوچستان کے ضلع پنجگور میں ہڑتال کے دوران بارڈر سے وابستہ بارڈر بچاؤ تحریک کے رہنماء سعود داد بلوچ، نجیب سلیم بلوچ اور آل بلوچستان بارڈر کمیٹی کے رہنماء سہیل بلوچ نے اپنی اپنی ٹیم کے ہمراہ بازار کا دورہ کیا پڑتال کی نگرانی کی اور تاجر برادری سے پاک ایران بارڈر سے صدیوں پرانی روزگار بچانے کی اپیل کی۔بارڈر روزگار سے وابستہ افراد نے کہا کہ پاک ایران بارڈر ہماری روزگار اور معاش کا واحد زریعہ ہماری تعلیم، زراعت، بازار، دوکانیں بارڈر سے چلتی ہیں اور یہی بارڈر پار آمد و رفت دووقت کی روٹی میسر کرتا ہے۔بارڈر کی بندش اور پابندی ہمارے روزگار پر پابندی ہے۔اور بارڈر سے وابستہ لوگوں کو جینے کا حق چھننے کے مترادف ہے۔ہم کسی صورت بارڈر پر پابندی اور بندش کو کسی صورت قبول نہیں کرینگے۔
سوراب میں ہڑتال:
آل بلوچستان بارڈر ٹریڈ الائنس ڈسٹرکٹ سوراب کے رہنماوں عبد الرسول مینگل، خدابخش زہری، عبد المالک میروانی، حبیب اللہ مینگل، محمد یحییٰ میروانی، علی احمد ریکی، محمد حسن مڑداشئی، لعل محمد میروانی، محمد اشرف نسیم، عبد الرحمن،غلام سرور،محمد وارث سناڑی،علی اکبر زہری، بشیر احمد قمبرانی، منظور احمد میروانی اور دیگر نے سوراب پریس کلب کو بیان میں سوراب میں بارڈر بندش کے خلاف شٹر ڈاؤن ہڑتال کو کامیاب بنانے پر سوراب کے تاجر برادری، سول سوسائٹی، یونینز، وکلا، صحافی برادری اور آل پارٹیز سمیت تمام اہل سوراب کا بے شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا تمام طبقات نے اس موقع پر ہمارا ساتھ دے کر ہماری آواز بنے۔
سوراب پریس کلب کا کہنا ہے کہ بلوچستان بارڈر ٹریڈ الائنس کی کال پر سوراب میں بھی مکمل شٹر ڈاون ہڑتال رہی ۔شٹرڈاون ہڑتال ایرانی بارڈر کی بندش اور کاروبار کی اجازت نہ دینے کے خلاف کی تھی۔۔شٹرڈاون کے باعث تمام بازار،مارکیٹیں اور کاروباری مراکز بند ہیں۔بازاروں کی بندش سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا بھی رہا۔
آل بارڈر الائنس کا موقف ترجمان رہنماءآل بلوچستان بارڈر ٹریڈ الائنس کے مطابق بارڈر کی بندش سے 35 لاکھ لوگ متاثر ہوچکے ہیں۔بلوچستان میں ایرانی بارڈر کے علاوہ روزگار کا کوئی دوسرا زریعہ نہیں ہے۔صوبہ ایک ساتھ لاکھوں لوگوں کو بےروزگار کرنے کا معتمل نہیں ہوسکتا۔بارڈر بندش سے لاکھوں لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوکر رہ گئے ہیں۔
نوشکی میں ہڑتال:
تیل کمیٹی نوشکی کی جانب سے رخشان و مکران بارڈر ٹریڈ الائنس کے شٹر ڈاون ہڑتال کے کال کی مکمل حمایت کا اعلان کیا گیا تھا۔
تیل کمیٹی نوشکی کے صدر جہانزیب بادینی نائب صدر عزیز مینگل نے بیان جاری کرتے ہوے کہا کہ رخشان, مکران بارڈر ٹریڈ الائنس کی جانب سے بروز سوموار شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال پر ہم تیل کمیٹی نوشکی کے جانب سے شٹرڈاون ہڑتال کی مکمل حمایت کا اعلان کرتے ہیں.
آواران میں ہڑتال:
ہڑتال سے چند روز قبل 14 نومبر کو زامیاد ٹریڈ یونین آواران نے رخشان مکران ٹریڈ الائنس کی حمایت میں ایک اہم پریس کانفرنس کا انعقاد کیا تھا، جس میں انہوں نے سرحدی راہداریوں کی بندش اور آواران زامیاد لسٹوں کی تاخیر کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اس موقع پر انہوں نے نہ صرف حکومت کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی بلکہ اپنے مطالبات کو نہایت واضح اور دو ٹوک انداز میں پیش کیا۔
زامیاد ٹریڈ یونین نے زور دیا کہ سرحدی پابندیوں نے نہ صرف مقامی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا ہے بلکہ پورے خطے کی معاشی سرگرمیوں کو مفلوج کر دیا ہے۔ سرحدوں کی بندش کی وجہ سے نہ صرف تجارتی سرگرمیوں میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے بلکہ روزگار کے مواقع بھی محدود ہو گئے ہیں، جس کی وجہ سے عوام میں بے چینی اور مایوسی کا عالم پایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ صورتحال نہ صرف کاروباری برادری کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ عام آدمی کی زندگی پر بھی براہِ راست اثر ڈال رہی ہے۔
کانفرنس کے دوران مقررین نے حکومت کو خبردار کیا کہ اگر ان کے جائز مطالبات کو فوری طور پر تسلیم نہ کیا گیا تو سخت احتجاجی لائحہ عمل اختیار کیا جائے گا۔ زامیاد لسٹوں کی بروقت تکمیل اور بحالی پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ لسٹیں کاروباری برادری کی بقاء کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ان لسٹوں میں تاخیر نے تجارتی معاملات میں پیچیدگیاں پیدا کر دی ہیں، جس کی وجہ سے تاجر طبقہ ذہنی دباؤ کا شکار ہو چکا ہے۔
آواران کی تجارتی برادری کا کہنا تھا کہ سرحدی بندش نے ان کی مالی حالت کو برباد کر دیا ہے۔ اس سے نہ صرف تجارتی معاملات میں مشکلات پیش آ رہی ہیں بلکہ روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے میں بھی عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مقررین نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر ان مسائل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے، بصورت دیگر حالات قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔
کانفرنس کے دوران زامیاد ٹریڈ یونین نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ رخشان مکران ٹریڈ الائنس کی حمایت میں وہ ہر ممکن قدم اٹھانے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے سنجیدگی نہ دکھائی اور مسائل کے حل کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے تو آنے والے دنوں میں احتجاجی مہم کو مزید شدت دی جائے گی۔