اسلام آباد پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) کے چیئرمین نے پیر کے روز سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ غیر رجسٹرڈ ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (VPNs) کی رجسٹریشن 30 نومبر تک ہے۔اس کے بعد یہ کام کرنا چھوڑ دیں گے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اور ٹیلی کام کو بریفنگ دیتے ہوئے ریٹائرڈ میجر جنرل حفیظ الرحمن نے کاروباری اور غیر تجارتی وی پی اینز کے درمیان فرق واضح کیا۔ جس کے ذریعے بلاک شدہ مواد تک رسائی حاصل کی جاتی ہے۔
حفیظ رحمان نے کہا کہ ٹیلی کام ریگولیٹر صرف کمرشل وی پی این کو رجسٹر کر تا ہے۔ سینیٹ کمیٹی کے ارکان نے سوال کیا کہ کیا پی ٹی اے کے پاس غیر تجارتی وی پی این کو بلاک کرنے کا قانونی اختیار ہے؟ 30 نومبر کے بعد غیر تجارتی VPNs کی حیثیت کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے، PTA چیف نے کہا کہ انفرادی طور پر "VPNs کے ذریعے غیر مجاز سوشل میڈیا ایپس یا ویب سائٹس تک رسائی حاصل نہیں کرنی چاہیے”۔اس موقع پر سینٹ کمیٹی کے اراکین نے غیر تجارتی صارفین کے VPNs کو بلاک کرنے کے PTA کے اختیار پر وزارت قانون سے رائے طلب کر لی۔
سینیٹر افنان اللہ خان نے وزارت داخلہ کے PTA کو وی پی اینز بلاک کرنے کے خط کی قانونی حیثیت پر بھی سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ کیا وی پی این سوشل میڈیا ایپس کی کیٹیگری میں نہیں آتے ہیں ؟۔ کمیٹی نے اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ وہ وی پی این کی حیثیت واضح کریں۔ سینیٹر افنان اللہ نے کہا کہ الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام کا ایکٹ 2016 کسی بھی حالت میں وی پی این کو بلاک کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔
سینیٹر پلوشہ خان کی زیر صدارت سٹینڈنگ کمیٹی کے اس اجلاس میں ملک بھر میں انٹرنیٹ کی خرابی کی وجوہات پر غور کیا گیا۔ پی ٹی اے کے چیئرمین نے کہا کہ وہ وی پی این کے معاملے پر ان کیمرہ بریفنگ دیں گے اور تجویز دی کہ اس اجلاس کے لیے سیکرٹری داخلہ کو بھی بلایا جائے۔
سینیٹرافنان اللہ خان نے کہا کہ انٹرنیٹ کی باقاعدہ رکاوٹوں نے پاکستان میں تقریباً 2.5 ملین فری لانسرز کا پیشہ ورانہ مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ سینیٹر افنان اللہ نے انٹرنیٹ کی بندش پر پی ٹی اے اور وزارت آئی ٹی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جس کی وجہ سے کاروباری نقصان ہوا اور صارفین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
کمیٹی کے کچھ ارکان نے پی ٹی اے حکام سے یہ بھی پوچھا کہ کیا ان پابندیوں کے کوئی سیاسی مقاصد ہیں؟ تاہم، انہوں نے اس خیال کی نفی کی۔اجلاس کے دوران کمیٹی کے ارکان نے اسلامی نظریاتی کونسل (CII) کے وی پی این کے استعمال کو غیر اسلامی قرار دینے کے بیان پر بھی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ٹی وی اور موبائل فون پر بھی پابندی لگا دینی چاہیے کیونکہ ان پر بھہ نقصان دہ مواد موجود ہوتا ہے۔ قانون سازوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فیصلے کی بنیادی وجوہات کا بھی پوچھا لیکن حکام نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
اجلاس میں وزیر آئی ٹی شزہ فاطمہ خواجہ کی عدم شرکت پر کمیٹی ممبران بھی برہم ہوئے۔ واضح رہے کہ وفاقی وزیر سینیٹ کمیٹی کا لگاتار تیسرا اجلاس نظراندار کر رہی ہیں۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وزیر اعظم کو خط کے ذریعے وزیر کی اپنی وزارت کے فیصلوں کا دفاع کرنے کی "نااہلیت” کو اجاگر کیا جائے گا۔
ملک میں VPNs رواں سال اگست سے موضوع بحث ہیں:
پاکستان میں رواں سال جولائی کے مہینے سے ملک بھر کے صارفین کو انٹرنیٹ کی سست روی کا سامنا تھا۔ انٹرنیٹ کی سست روی کے حوالے سے متعلقہ حکام کی جانب سے کوئی واضح جواب نہیں دیا جا رہا تھا۔
اگست میں صحافی حامد میر نے انٹرنیٹ کی سست روی کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
اس درخواست میں کہا گیا تھا کہ ذریعۂ معاش کے لیے انٹرنیٹ تک رسائی کو آئین کے تحت بنیادی انسانی حقوق قرار دیا جائے اور ’شہریوں کے بنیادی حقوق متاثر کرنے والی فائر وال کی تنصیب کو روکا جائے.
اسی دوران وزیرِ مملکت برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ انٹرنیٹ کی سست روی کی وجہ پاکستان میں وی پی این کا بہت زیادہ استعمال ہے۔
اس سے قبل شزہ فاطمہ نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پوری دنیا میں حکومتیں سائبر سکیورٹی کے لیے فائر وال انسٹال کرتی ہیں۔ فائر وال سے پہلے ویب منیجمنٹ سسٹم تھا جسے حکومت اب اپڈیٹ کر رہی ہے۔‘
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں VPNs پر سوالات:
رواں برس 21 اگست کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کے اجلاس میں چئیرمین پی ٹی اے نے اعتراف کیا تھا کہ حکومت، عدلیہ کی ہدایات پر انٹرنیٹ فائر وال سسٹم لگایا ہے۔انٹر نیٹ کی سست روی کا مسئلہ 27؍ اگست تک حل ہوجائے گا۔ قائمہ کمیٹی نے اس معاملے میں خفیہ اداروں کے اختیارات کی تفصیلات بھی مانگ لی تھیں۔کمیٹی نےملک بھر میں انٹرنیٹ بندش سے آئی ٹی سیکٹر کو نقصانات کی تفصیلات بھی طلب کیں۔ رکن کمیٹی بیرسٹر گوہر نے استفسار کیا تھا کہ کیا وی پی این کا استعمال غیر قانونی ہے۔ جس حوالے سے
چیئرمین پی ٹی اے لاعلم تھے اور جواب کے لیے متعلقہ افسر کو بلالیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ردِ عمل:
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایکس پر کہا ہے کہ قانونی” یا "غیر رجسٹرڈ” ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس (VPNs) پر پابندی لگانا بین الاقوامی قانون کے تحت پرائیویسی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان کی وزارتِ داخلہ وی پی این پر پابندی لگا کر معلومات تک لوگوں کی رسائی کو محدود کر رہا ہے، اور آزادانہ اظہار کو دبا رہا ہے۔
وزارت داخلہ کی جانب سے "دہشت گردی” کی مبہم بنیادوں کا حوالہ دیا گیا ہے جو انٹرنیٹ پر مواد تک رسائی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کے اختیارات کے غیر متناسب استعمال کی طرف اشارہ کرتا ہے