پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد
لیڈی ڈیانا کی المناک موت پہ بے نظیر بھٹو نے اپنے دکھ اور درد کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا :” وہ ایک خوبصورت خواب تھا جو ٹوٹ گیا”۔ تو ہم نے یہ گرہ میں باندھ لیا تھا کہ بے نظیر بھٹو قائد عوام کے دیئے گئے رہنما اصولوں کی روشنی میں عوام کے لئے خوبصورت خواب دیکھتی ہیں۔ اور ان خوابوں کی تعبیر ملک میں جمہوریت، شخصی آزادیوں ، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور تمام اداروں کی طرف سے آئین کی پاسداری کی صورت میں ہو گی۔ لیکن شاید ہماری یہ سوچ بھی ایک خوبصورت خواب تھا جو ٹوٹ گیا کیونکہ پاکستان کی سیاہ سیاسی تاریخ میں آئینِ پاکستان پہ سب سے بڑا شبِ خون چھبیسویں آئینی ترمیم کی صورت میں اور وہ بھی نام نہاد منتخب پارلیمان کی طرف سے مارا گیا تو اس "غیر آئینی فتح” پہ بلاول بھٹو نے جشن مناتے ہوئے یہ نوید سنائی کہ یہ میری ماں کا خواب تھا۔ تم اسے جو مرضی نام دو۔
جمہوری سفر، جس کا آغاز میگنا کارٹا سے ہوا، ان گنت قربانیوں کے بعد اس نتیجے پہ اختتام پذیر ہوا کہ کسی بھی ملک کے اندر حقِ حکمرانی وہاں کے جمہور اور عوام کا ہو گا۔ اور اسی نقطہ کے بطن سے مہذب دنیا میں آئین برآمد ہوا جس میں یہ طے پایا کہ ریاست کے اقتدار کے مالک عوام ہوں گے اور یہ اقتدار منتخب عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہو گا۔ ریاستی بندوبست میں اقتدار کی تقسیم تین اداروں یعنی پارلیمان، عدلیہ اور انتظامیہ میں ہو گی۔ پارلیمان قانون سازی کے ساتھ ساتھ انتظامیہ پہ عوامی محاسبہ کا ادارہ ہو گا جس کی اولین ترجیح یہ ہو گی کہ ایسی قانون سازی کی جائے کہ جس کے ذریعے انتطامیہ اپنے اختیار کو عوام کے لئے سہولت ور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کے لئے استعمال کرے لیکن عدلیہ کو پارلیمانی اور حکومتی مداخلت سے یکسر اس لئے الگ رکھا گیا ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ انتظامیہ اور پارلیمان آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کو پامال کرنے سے گریزاں رہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آئین، جمہور، جمہوریت اور عدلیہ پہ ہمیشہ شبِ خون عسکری اداروں کی طرف سے مارا گیا جس کا نقطہ آغاز جنرل گریسی کا No اور اختتام جنرل مشرف کا مارشل لا تھا اور اختیار و اقتدار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی اس سوچ کی عکاسی ملک پہ لگنے والے پہلے مارشل لا کے وقت پاکستان میں متعین امریکی سفیر کے اپنی حکومت کو بھیجے گئے اس ٹیلی گرام سے ہوتا ہے جس میں اس نے ایوب خان کے ساتھ اپنے ہونے والی گفتگو کے حوالے سے لکھا تھا کہ افواجِ پاکستان کبھی بھی اقتدار منتخب نمائندوں کو دے کر لوگوں کو تباہ و برباد نہیں ہونے دیں گے۔
مارشل لا جمہوریت، جمہوریت مارشل لا کی طویل آنکھ مچولی کے بعد اب مقتدر حلقے اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ جمہوریت پہ براہ راست شب خون مارنے کی بجائے جمہوریت کے سر چشمہ پارلیمان کو ہی اپنا بغل بچہ بنا دیا جائے اور ایک ایسا ہائبرڈ بندوبست کیا جائے کہ جس میں بظاہر جمہوریت کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہوئے دکھائی دیں۔ ملک میں انتخابات کا انعقاد کیا جائے، ایک نام نہاد پارلیمان وجود میں آئے اور پھر جمہور، جمہوریت، انسانی آزادیوں پہ قدغنیں لگانے کے لئے جمہوری انداز میں اسی پارلیمان سے قانون سازی کرائی جائے۔
2018 سے شروع ہونے والے ہائبرڈ بندوبست کا نقطہ انجام دو ہزار چوبیس میں پارلیمان سے منظور ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم کی صورت میں سامنے آیا۔ جب عدلیہ کے کچھ فیصلے طے شدہ ہائبرڈ بندوبست کے راستے میں رکاوٹ بننے لگے تو پارلیمان کے اندر ایک ایسا شور و غلغلہ بلند ہوا جیسے کہ پاکستان کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستانی عدلیہ ہے۔ بس پھر کیا تھا وزیراعظم سے لے کر بلاول تک اور بلاول سے لے کر مولانا فضل الرحمن تک یوں متحرک ہوئے کہ جیسے چڑیاں تنکا چن چن کر اپنے گھونسلے کی تکمیل میں مصروف ہوں ۔ اور پھر ترقی کے راستے میں اس رکاوٹ کو دور کرنے کے لئے دن کی روشنی تو کیا رات کے اندھیرے میں بھی ہر طرح کی واردات ڈالی گئی چاہے اس میں اختر مینگل کے سنینیٹرز کا مبینہ اغوا ہونا ہو یا پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی کا منظرِ عام سے غائب ہونا ہو۔ آئین پاکستان کے خالق کے نواسہ بلاول بھٹو نے اہنی شہید ماں کے خواب کی تعبیر کے لئے ہر ہتھکنڈے کو جائز اور ضروری سمجھا۔ اور پھر چھبیسوین آئینی ترمیم کی صورت مین یہ تقشہ سامنے آیا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری میں پارلیمان میں حکومتی اکثریت سے لے کر وزیراعظم او وزیراعظم سے لے کر صدر تک ہر حکومتی شخصیت کا کردار ہو گا سوائے سپریم کورٹ کے۔
چیف جسٹس کی تقرری کے لئے پارلیمان کی ایک بارہ رکنی کمیٹی کی یوں تشکیل دی گئی کہ جس میں حکومت کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو اور پھر کمیٹی کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ چیف جسٹس کی تقرری کے لئے منگوائے گئے تین ناموں میں سے اپنے من پسند جسٹس کو دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس لگانے کی سفارش کرے اور پھر حکومت پلک جھپکنے میں وزیراعظم اور صدر سے منظوری لے کر اسے چیف جسٹس مقرر کر دے۔ واردات کی باریکی دیکھئے کہ بظاہر دیکھا جائے تو مہذب دنیا کی مثالوں کو سامنے رکھتے ہوئے چیف جسٹس کی تقرری پارلیمان کر رہی ہے لیکن اصل میں یہ تقرری حکومت کر رہی ہے کیونکہ اگر پارلیمان کرتی تو پارلیمان کے دونوں ایوانون کی دو تہائی اکثریت لمبی چوڑی بحث مباحثہ کے بعد چیف جسٹس کا تقرر کرتی۔
مزید یہ کہ سپریم اور ہائی کورٹس کو انسانی حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری سےبے نظیر بھٹو کے خواب کے مطابق یوں سبکدوش کیا کہ اب سپریم کورٹ اور ہر ہائی کورٹ میں ایک مخصوص بینچ ہو گا جو آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کے مقدمات کو سن سکے گا اور اس میں بھی حکومت کی مرضی کے آئینی بینچ کے تقرر کا بندوبست ایسے کیا گیا کہ ان آئینی بینچوں کی تشکیل میں عدلیہ کا کوئی ہاتھ نہ ہو بلکہ جوڈیشیل کمیشن آف پاکستان میں پارلیمان کے حکومتی اراکین اور اسپیکر کے چنے ہوئے نمائندے کو بٹھا کر سپریم کورٹ کے ججوں کو اقلیت میں دھکیل کر اپنی مرضی کے آئینی بینچ اور اس کا سربراہ چن لیا۔ یوں عملی طور پر پاکستان میں اعلی عدلیہ کا وجود تقریبا ختم کر دیا۔ اب پاکستان کی عدلیہ کے سربراہ یعنی چیف جسٹس آف پاکستان کورٹ روم نمبر ایک میں پورا دن صرف پٹواریوں کے فراہم کردہ فردوں کو دیکھ کر لوگوں کی جائیدادوں کے فیصلے کرتے رہیں گے۔ عملی طور پر اب چیف جسٹس آف پاکستان کی وہی حیثیت ہے جو 1954 سے لے کر 1958 تک اقتدار پر براجمان فالج کے مریض غلام محمد کی تھی۔ جو فالج زدہ زبان سے کچھ بڑبڑاتے تھے، ان کی منہ سے رال ٹپکتی تھی تو ان کی جرمن انٹرپریٹر بتاتی تھی کہ صاحب یہ فرما رہے ہیں۔
اس ہائبرڈ بندوبست کے نتائج آنا شروع ہو گئے ہیں کہ آئین اور انسانی حقوق کی محافظ گردانی جانے والی وکلا.. کی بار ایسوسیشنز ، حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں یوں چپ سادھے ہوئے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ بلاول بھٹو کی سربراہی میں تمام حکومتی سیاسی جماعتیں اس آئینی شب خون کی تعریف میں مصروف ہیں۔ لے دے کر صرف سوشل میڈیا بچا تھا کہ جہاں ملک کا قدرے پڑھا لکھا طبقہ اس پارلیمانی مارشل لا کے خلاف کچھ لکھتا اور بولتا تھا۔ اس بے ضرر سی تنقید کو روکنے کے لئے بھی حکومت نے پہلئے فائر وال کے ذریعے سوشل میڈیا پر یلغار کر دی اور پچھلے کئی مہینوں سے ایکس (سابقہ ٹویٹر) تو مستقل طور پر بند ہے اور اب جو تھوڑے بہت لوگ وی پی این کے ذریعے ٹویٹر تک رسائی حاصل کرتے تھے، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے ان پر بھی پابندی لگا دی اور اس پہ رہی سہی کسر اسلامی نظریاتی کونسل کے اس فتوے نے پوری کر دی ہے۔ غیر رجسٹرڈ وی پی وین کا استعمال حرام ہے۔
بلاول بھٹو کی زبانی بے نظیر بھٹو کے خواب کی تعبیر کچھ یوں سامنے آئی کہ ملک کے اندر جعلی انتخابات کا انعقاد حلال، پھر ان ہی انتخابات سے وجود میں آنے والی جعلی پارلیمان سے دھونس، دھاندلی اور بدمعاشی سے آئینی ترمیم پاس کرنا حلال، پاکستان کی عدلییہ کے وجود کو ہی نام نہاد آئین سازی سے ختم کر دینا حلال، لوگوں کے سوچنے اور بولنے پہ پابندی حلال، سانس لینے کے لیئے سموگ میں لپٹا ہوا گھٹن زدہ ماحول حلال مگر ان تمام بنیادی مسائل پہ اظہارِ رائے کے لئے ایکس(سابقہ ٹویٹر) اور وی پی این کے ذرائع استعمال کرنا حرام ۔۔۔۔ اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا۔۔۔۔۔