مسلح افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت 3 سے بڑھا کر 5سال کر دی گئی

حکومت نے تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کرنے کا بل سوموار کے روز قومی اسمبلی سے منظور کرالیا ہے۔قومی اسمبلی میں اور سینٹ میں مسلح افواج کے حوالے سے تین بل بھی منظور کئے گئے ہیں۔ قومی اسمبلی سے 25 منٹ، سینٹ سے 15 منٹ اور قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی سے 2 منٹ میں قوانین بننے اور گزٹ ڈیپارٹمنٹ کے رات کو نوٹیفکیشن چھاپنے کے بعد علی الصبح نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا۔

پیر کو قومی اسمبلی میں آرمی ایکٹ 1952 میں ترمیم کا بل منظور کیا گیا، پاکستان ائیر فورس ایکٹ 1962 اور پاکستان نیوی ایکٹ 1953 میں ترمیم کا بل بھی منظور کیا گیا۔

پاک افواج کے قوانین کے حوالے سے ترمیمی بل وزیر دفاع خواجہ آصف نے پیش کئے.

ان بلز کےتحت پاکستان کے بری فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافے کے لیے آرمی ایکٹ 1952 کی شق 8 اے، 8 بی اور 8 سی میں ترمیم کی گئی۔

اسی طرح بحریہ کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافے کے لیے پاکستان نیوی آرڈیننس 1961 کی شق 14 اے، 14 بی اور 14 سی میں تبدیلی کی گئی ہے۔

پاکستان کی فضائیہ کے سربراہ کی مدت ملازمت میں اضافے کے لیے پاکستان ائیر فورس ایکٹ 1953 کی شق 10 اے ، 10 بی اور 10 سی میں تبدیلی کی گئی ہے۔ سروسز چیف کی مدتِ ملازمت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دیا گیا لیکن چئیتمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تین سالہ مدت کو تبدیل نہیں کیا گیا جس سے ہر تین سال بعد ایک لیفٹیننٹ جنرل کو ترقی ملتی رہے گی۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد مذکورہ تمام بلز سینیٹ میں پیش کئے گئے کثرت رائے سے ایوان بالا سے بھی منظور ہوئے۔

جے یو آٸی کے ارکان بل منظوری کے دوران کھڑے رہے۔ جبکہ اپوزیشن ارکان نے پرزائڈنگ افسر کے ڈاٸس کا گھیراؤ کرلیا۔

دونوں ایوانوں سے منظور کئے گئے بلوں کے مطابق تینوں سروسز چیفس کی مدت ملازت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کردی گئی ہے۔

ترمیمی بل میں کیا ہے؟


*
اس بل میں ترمیم کے بعد پاکستان کی بری فوج میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کے قواعد کا اطلاق آرمی چیف پر نہیں ہو گا، تعیناتی، دوبارہ تعیناتی یا ایکسٹینشن کی صورت آرمی چیف بطور جنرل کام کرتا رہے گا۔

سروسز چیف ترمیمی ایکٹ کے مطابق آرمی چیف، ایئرچیف اور نیول چیف کی ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد بھی ختم کردی گئی ہے اور لکھا گیا ہے کہ آرمی چیف بطور جنرل، ایئر چیف بطور ایئر مارشل اور نیول چیف عہدے سے سبکدوش ہونے پر بطور ایڈمرل خدمات سر انجام دیتے رہیں گے۔

اس سے قبل آرمی ایکٹ کے تحت آرمی چیف سمیت تمام سروسز چیفس کی مدت ملازمت تین سال مقرر تھی اور ایگزیکٹیو کے اختیارات کے تحت آرمی چیف کو تین سال کی ایکسٹینشن دی جاتی رہی تھی۔

آخری بار مدت ملازمت میں توسیع جنرل قمر جاوید باجوہ کو دی گئی تھی اور ان کی ایکسٹیشن کی منظوری کے لیے پارلیمنٹ میں ایک متفقہ قرارداد بھی منظور کی گئی تھی جس کے بعد ایگزیکٹیو نے ان کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کر دی تھی۔

افواج کے سربراہان کی مدت ملازمت میں اضافہ سے دفاعی حکمت عملی کو تسلسل ملے گد وزیر دفاع خواجہ آصف

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ’پاکستان میں ایکسٹنشن کا سلسلہ ایوب خان کے دور میں شروع ہوا۔ اس کے بعد آٹھ، نو آرمی چیفس کو ایکسٹنشن دی گئی۔ ایوب خان، ضیا الحق، مشرف نے خود اپنے آپ کو ایکسٹنشن دی۔۔۔ یہ ساری ایکسٹنشنز افراد کے لیے تھیں۔ اب ہم نے اس حوالے سے قانون واضح کر دیا ہے۔‘

اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ سے متعلق سوال کے جواب میں خواجہ آصف نے کہا کہ موجودہ حالات میں تسلسل کی ضرورت ہے اور یہ ضروری ہے کہ جو بھی مسلح افواج کا سربراہ ہو وہ اسمبلی اور دیگر اداروں کی پانچ سالہ مدت کی طرح مناسب وقت کے لیے بہتر دفاعی منصوبہ بندی کر سکے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ سروس چیفس کی مدت میں طوالت سے نظام کو استحکام ملے گا اور یہ توقعات کے مطابق چل سکے گا۔ انھوں نے واضح کیا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کا اختیار اب بھی ہمارے (حکومت کے) پاس ہی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ہم نے گنجائش نکالی ہے کہ کوئی کامن گراؤنڈ نکالا جائے۔ ہم نے نظام کو قانونی اور آئینی شکل میں ڈھالا ہے تاکہ قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔‘

سپریم کورٹ ججز کی تعداد 34 کرنے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیم کے بل دونوں ایوانوں سے منظور

سپریم کورٹ پریکٹیس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل میں کیا ہے؟

واضح رہے کہ گزشتہ روز قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی نے سروسز چیفس کی مدت ملازمت اور ججز کی تعداد میں اضافے سے متعلق قومی اسمبلی اور سینیٹ سے پاس ہونے والے بلز کی منظوری دی تھی۔

قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی کے دستخط کے بعد تمام چھ ترمیمی بلز قانون بن گئے ہیں، ان تمام قوانین کو گزٹ نوٹیفکیشن کیلئے بھجوا دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی اور سینیٹ نے پیر کو چھ بلز کی منظوری دی تھی جس کے تحت آرمی، نیول اور ائیر فورس چیفس کی مدت اب تین سے بڑھ کر پانچ سال کردی گئی ہے۔

سینیٹ اور قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد 34 کرنے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی تعداد 9 سے 12 کرنے کا بل بھی کثرت رائے سے منظور کیا تھا جس کی صدر نے منظوری دے دی