26 آئینی ترمیم کی روشنی میں سپریم جوڈیشل کمیشن نے 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل کر دیا ۔بینچ کا سربراہ جسٹس امین الدین کو مقرر کر دیا گیا۔ آٸینی بنچ کی تشکیل کا فیصلہ 7/5 کی اکثریت سے ھوا۔
آئینی بینچ کے ارکان میں جسٹس عائشہ ملک، جسٹس جمال خان مندوخیل،جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور، جسٹس منیب، رہنما پی ٹی آئی شبلی فراز، عمر ایوب نے فیصلے کی مخالفت کی.
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی زیرصدارت جوڈیشل کمیشن کا پہلا اجلاس منگل کے روز منعقد ہوا۔اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کے آئینی بینچوں میں ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا اور سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دے دیا گیا۔
گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی جانب سے چیئرمین سینیٹ اور پارلیمانی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد جے سی پی کے لیے پارلیمانی رہنماؤں کے نام بھجوائے گئے تھے جس کے بعد چیف جسٹس نے اجلاس طلب کیا تھا۔
7 رکنی آئینی بینچ تشکیل کا فیصلہ سات پانچ کے تناسب سے ہوا ہے۔ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، عمر ایوب اور شبلی فراز نے مخالفت میں ووٹ دیا، جبکہ جسٹس امین الدین، اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل اور اختر حسین نے حق میں ووٹ دیا، فاروق ایچ نائیک، آفتاب احمد، روشن خورشید بروچہ نے بھی حق میں ووٹ دیا۔
آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین ہوں گے، جسٹس امین الدین اور جسٹس عائشہ ملک پنجاب سے آئینی بینچ میں شامل ہوں گے۔جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس نعیم اخترافغان بلوچستان کے آئینی بینچ کا حصہ ہیں۔جبکہ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی سندھ سے آئینی بینچ کا حصہ ہیں۔اور جسٹس مسرت ہلالی خبیرپختونخوا بینچ میں شامل ہیں۔
آئینی کمیشن کا حصہ بننے والے جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس حسن اظہر رضوی مخصوص نشستوں پر اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 ججز میں شامل تھے۔آئینی بینچ کی سربراہی ملنے کے ساتھ ہی جسٹس امین الدین خان پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے رکن بھی بن گئے ہیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی ایکٹ کے تحت آئینی بینچ کے سربراہ کمیٹی کے تیسرے رکن ہوں گے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کمیٹی کے ارکان ہیں۔ یوں 26 ویں آئینی ترمیم کے تناظر میں جوڈیشل کمیشن 13 ارکان پر مشتمل ہو گیا ہے.
اعلامیہ میں کیا بتایا گیا؟
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس کا اعلامیہ بھی جاری کردیا گیا ہے۔ جوڈیشل کمیشن اجلاس کا اعلامیہ سیکرٹری جوڈیشل کمیشن جزیلہ اسلم نے جاری کیا۔اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس نے شرکا کو خوش آمدید کہا اوران کی نامزدگی پر مبارکباد دی۔
اعلامیے کے مطابق عمرایوب نے ایک رکن کی غیرموجودگی میں کمیشن کے کورم پر اعتراض کیا لیکن عمرایوب کے اعتراض پر ووٹنگ کے ذریعے اکثریت نے فیصلہ کیاکہ اجلاس آئین کے مطابق ہے اور ایک رکن کی غیرموجودگی میں بھی اجلاس جاری رکھا جاسکتا ہے۔ کمیشن نے اپنے کام کو انجام دینے کے لیے ایک مخصوص سیکرٹریٹ کے قیام پر غورکیا اور غور و فکر کے بعد چیف جسٹس کو مخصوص سیکرٹریٹ کی قواعد سازی اورقیام کی اجازت دی۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ کمیشن نے آئینی معاملات/کیسز پر غور کے لیے آئینی بینچ کے قیام پربھی غورکیا، چیف جسٹس نے آئینی بینچ پر ججوں کی رائے پیش کی اوربینچ کی مدت بارے تجاویز دیں، دیگرشرکا نے بھی موضوع پر اپنی آراء کا اظہار کیا جس پر مکمل بحث کی گئی۔
اعلامیے کے مطابق جسٹس امین الدین خان آئینی بینچ کے سربراہ ہوں گے، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اخترافغان آئینی بینچ میں شامل ہونگے۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ووٹنگ کے بعد اکثریت (12 میں سے 7) نے آئینی بینچ کے قیام کی منظوری دی اور آئینی بینچ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی شامل ہے، مدت 2 ماہ مقررکی گئی ہے، جوڈیشل کمیشن کا ابتدائی اجلاس کمیشن کے افعال کو آگے بڑھانے میں پروسیجرل قدم کی حیثیت رکھتا ہے اور جوڈیشل کمیشن نئے فریم ورک کے مطابق عملدرآمد کی طرف پیشرفت کررہا ہے۔
جسٹس امین الدین کی پروفائل:
جسٹس امین الدین خان یکم دسمبر 1960 کو ملتان میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے زمانے کے معروف وکیل و قانون دان خان صادق محمد احسن مرحوم کے گھرانے سے ہیں جبکہ ان کے والد بھی ایک وکیل تھے۔
انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم کنڈر گارٹن اسکول ملتان سے حاصل کی اور گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول ملتان سے اپنی ثانوی تعلیم مکمل کی۔ انہوں نے فلسفے کے مضمون کے ساتھ بی اے کیا اور اس کے بعد سنہ 1984 میں یونیورسٹی لا کالج ملتان سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے والد کے ساتھ بطور جونیئر وکیل پریکٹس کا آغاز کیا۔
سنہ1987 میں وہ لاہور ہائیکورٹ کے وکیل کے طور پر رجسٹر ہوئے جبکہ سنہ 2001 میں وہ سپریم کورٹ کے وکیل بنے۔
12 مئی 2011 کو جسٹس امین الدین خان کو لاہور ہائیکورٹ کا جج مقرر کیا گیا جہاں انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے ملتان اور بہاولپور بینچز کے ساتھ ساتھ پرنسپل سیٹ پر بھی سینکڑوں مقدمات کے فیصلے کیے۔
21 اکتوبر 2019 کو انہیں سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا گیا۔
جسٹس امین الدین خان یونیورسٹی لا کالج ملتان میں بطور لیکچرر اور ممتحن بھی کام کرتے رہے۔ بطور جج لاہور ہائیکورٹ وہ مختلف یونیورسٹیوں کے سینڈیکٹ ممبر بھی رہے جن میں یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور بھی شامل ہے۔
جسٹس امین الدین خان کا نام 20 ستمبر کو اس وقت زرائع ابلاغ میں آیا جب سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس کے اجرا کے بعد انہیں جسٹس منیب اختر کی جگہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کا رکن بنایا۔
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کی مشروط اجازت دی.
پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمے میں جسٹس امین الدین خان اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے 5 ججز میں شامل تھے اور انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ پی ٹی آئی اس مقدمے میں فریق ہی نہیں تھی اس لیے آئین کے آرٹیکل 175 کے تحت ان کو ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔