پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) اور اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل کے مشترکہ فیکٹ فائنڈنگ مشن کا کہنا ہے کہ فورینسک شواہد اور قابل بھروسہ شہادتوں کی عدم موجودگی میں یہ حتمی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اکتوبر 2024 کے اوائل میں لاہور کے پنجاب کالج میں ایک طالبہ کے ریپ کے الزامات حقیقت پر مبنی تھے۔
یکم نومبر جمعہ کے روز جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس حوالے سے پیش آنے والے کئی واقعات نے پنجاب کالج کے کیمپس نمبر 10 کے طالبعلموں میں شبہات اور بداعتمادی کی فضا پیدا کر دی تھی جیسے کہ سوشل میڈیا پر ریپ کے غیرمصدقہ دعووں سے متعلق مواد کی تشہیر، سرکاری نمائندوں کے متضاد بیانات ( جنہوں نے پہلے الزامات کی تصدیق اور بعد میں تردید کی)، اور الزامات پر کالج انتظامیہ کا تاخیری اور غیرمعقول ردعمل۔
مشن نے 14 اکتوبر کو کیمپس 10 میں سینکڑوں طالبعلموں کے خلاف طاقت کے بے جا استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔
البتہ، آن لائن پلیٹ فارمز پر بہت زيادہ شورو غل سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ دیگر فریقین نے طالبعلموں کے بیانیے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے اور سوشل میڈيا پر اپنا دائرہ کار بڑھانے کی کوشش کی ہے۔
اس حوالے سے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ایک انتہائی اہم نکتہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ طالبعلموں کے اتنے شدید ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کی صورت حال اور جنسی ہراسانی کے مسلسل واقعات اور متاثرین ہی کو مورد الزام ٹھہرانے کی روش سے بہت زيادہ نالاں ہیں۔ مسئلے کے حل کے لیے کیمپس کے منتظمین کی بظاہر عدم دلچسپی اور پولیس و کالج انتظامیہ پر شدید بداعتمادی نے حالات کو اور زيادہ خراب کیا ہے۔ طالبعلموں کے غصّے کو محض اس وجہ سے نظرانداز نہیں کر دینا چاہیے کہ وہ من گھڑت معلومات ملنے کی وجہ سے مشتعل تھے۔ تاہم، من گھڑت معلومات کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کے پیش نظر یہ بھی ضروری ہے کہ ڈیجیٹل خواندگی اور حقائق کا ادراک آسان بنانے کے لیے باقاعدگی کے ساتھ عوامی سطح پر ایک سے زیادہ نتیجہ خیز شعوری مہم چلائی جائے۔
اس حوالے سے مشن نے کئی سفارشات پیش کی ہیں جن میں یہ تجویز بھی شامل ہے کہ کیمپس 10 پر اکتوبر کے پہلے دو ہفتوں کے دورانیے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا فورینسک معائنہ کروایا جائے۔ علاوہ ازیں، طالبعلموں پر تشدد کرنے اور مبینہ جرم کے الزام میں ایک شخص کو ایف آئی آر کے بغیر حراست میں رکھنے پر پولیس کا محاسبہ کیا جائے۔ تاہم، مشن کا پرزور مطالبہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں ہراسانی اور جنسی تشدد کے الزامات کو ہمیشہ سنجیدہ لیا جائے اور تمام تعلیمی اداروں میں انسداد ہراسانی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں جو حقِ رازداری کی حفاظت کے ساتھ طالبعلموں کی دسترس میں ہوں۔
پنجاب ریپ کیس واقعہ کا پسِ منظر:
پنجاب کالج میں طالبہ کا ریپ کرنے کی افواہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی تھی۔ جس کے ردعمل میں ایک طرف کالج کی طالبات نے کلاسز کا بائیکاٹ کر کے اور واقعہ پر کنال روڈ پراحتجاج کرکے شاہراہ بند کردی تھی۔ مذکورہ واقعہ پر طلبا و طالبات نے گلبرگ کیمپس کے سامنے شدید احتجاج کیا، طلبہ کے احتجاج کو روکنے کیلئے سیکیورٹی گارڈز نے کلاس رومز اور مرکزی گیٹ کو بند کرنے کی کوشش کی جس کے جواب میں مشتعل طلبا نے کالج کے اندر اور باہر توڑ پھوڑ شروع کردی۔ طلبہ نے کالج کے باہر سی سی ٹی وی کیمروں کو توڑ دیا اور کرسیوں کو آگ لگا دی۔
طلبا نے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دئیے اور گیٹ کے داخلی رجسٹر کو پھاڑ دیا۔ سیکیورٹی گارڈز کے تشدد سے ایک طالبعلم زخمی ہو گیا اور چند طالبات کی طبعیت ناساز ہو گئی۔ واقعے کے خلاف ایم اے او کالج کے قریب واقع کیمپس کے طلبا و طالبات نے بھی احتجاج کیا اور شدید نعرے بازی کی۔ واقعے پر طالبات کی جانب سے مسلم ٹاؤن موڑ کے قریب کینال روڈ پر کالج کے باہر احتجاج کیا اور کینال روڈ بلاک کیا۔واقعہ پر کالج طلبا اور طالبات کے مظاہروں کا سلسلہ دو ہفتے تک جاری رہا۔جو کہ پنجاب کے دیگر شہروں بور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد تک پھیل گیا۔
پنجاب حکومت نے ابتدائی طور پر پولس سےواقعہ کی تحقیقات کروائیں. پنجاب پولیس نے جامع تحقیقات کے بعد واقعہ کو من گھڑت اور جھوٹ قرار دے دیا تھا۔ پولیس نے کہا کہ نجی کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی واقعے کی تصدیق نہیں ہوسکی اورمبینہ متاثرہ طالبہ اور اس کا خاندان سامنے نہیں آئے۔تاہم صوبے بھر کے مختلف شہروں میں پنجاب کالج کے طلبہ و طالبات کے مظاہروں کا سلسلہ نہ رکنے پر بعد ازاں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے واقعہ کی تحقیقات کروائی گئیں۔مگر ایف آئی اے نے بھی پنجاب کالج کسی طالبہ کے ریپ کے واقعہ کو من گھڑت قرار دے دیا تھا۔
پنجاب کالج یں مبینہ ریپ کی شکار طالبہ کی ٹک ٹاک پرماں ہونے کا دعوی کرنے والی خاتون گرفتار:
لاہور میں پنجاب کالج میں مبینہ ریپ کا شکار طالبہ کی والدہ ہونے کی جھوٹی دعویدار سارہ خان کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ سارہ خان نے اپنی اس ویدیو میں ریپ کی شکار لڑکی کی ہسپتال میں خود "خون میں لت پت” لاش دیکھنے کا بھی دعوی کیا تھا۔ اس خاتون کے خلاف لاہور گلبرگ تھانہ میں پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
فیک نیوز اور ڈیجیٹل لٹریسی:
دنیا بھر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک آسان رسائی نے فیک نیوز اور اس سے پیدا ہونے والے خطرناک مسائل کو جنم دیا ہے۔ پاکستان میں بھی دو ہزار بیس میں وفاقی حکومت نے عوام تک انٹرنیت کی رسائی دینے کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل لٹریسی کو قومی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے فیس بک کی سی ای او مس شیرل سین برگ سے ملاقات میں اہم پیشرفت بھی سامنے آئی تھی۔
پنجاب کالج ریپ کیس جیسے واقعات سے فیک نیوز اور ڈیجیٹل لٹریسی کی اہمیت سامنے آتی ہے۔ ایسے کیسز کے بعد افواہیں اور غیر مصدقہ معلومات سوشل میڈیا پر تیزی سے پھیل سکتی ہیں، جس سے حقیقت کو مسخ کرنے اور معاشرتی ہیجان پیدا کرنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کیس سے یہ چیز سامنے آتی ہے کہ کیسے فیک نیوز کے پھیلاؤ سے انصاف کی راہ میں رکاوٹیں پیدا ہو سکتی ہیں، عوامی ردعمل غلط اور کطرناک سمت میں جا سکتا ہے، اور متاثرہ افراد یا کمیونٹی کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ غلط اطلاعات کی وجہ سے کسی بھی واقعہ کے حوالے سے تحقیقات پر اثر پڑ سکتا ہے اور میڈیا کی ذمہ داری مزید اہم ہو جاتی ہے کہ وہ حقائق کی تصدیق کرے اور سچائی کو سامنے لائے۔ مزید یہ کہ ریپ جیسے حساس معاملات پر فیک نیوز مزید نقصان دہ ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے ریپ کے جینوئن کیسز بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔