چھبیسویں آئینی ترمیم سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور، صدر آج توثیق کریں گے

چھبیسویں آئینی ترمیم کے موقع پر قومی اسمبلی اجلاس کے دوران بلاول بھٹو حزب اختلاف کے راہنماوں کے پاس پہنچ گئے




سینٹ اور قومی اسمبلی میں  26ویں آئینی ترامیم کی تمام 23 شقیں منظور کرلی گئیں، حکومت نے دونوں ایوانوں میں  اپنی دو تہائی اکثریت ثابت کر دی۔ایوان زیریں سے منظوری کے بعد وزیرِ اعظم نے آئینی ترمیم کی توثیق کیلئے صدر پاکستان کو ایڈوائس بھیج دی ہے۔ ایوان صدر میں آئینی ترمیم کی صدر مملکت سے توثیق کے لیے باقاعدہ تقریب پیر کے روز علی صبح 6 بجے منعقد ہونا تھی مگر بعد ازاں یہ تقریب ملتوی کر دی گئی۔تاہم حکومتی ذرائع کے مطابق یہ تقریب آج کسی بھی وقت منعقد کی جائے گی۔ صدر مملکت سے توثیق کے بعد ترمیم آئین کا حصہ بن جائے گی۔  


چھبیسویں آئینی ترمیم  کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس نصف شب سے کچھ پہلے شروع ہوا جو کہ فجر تک جاری رہا۔




پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے قومی اسمبلی سے خطاب میں کہا کہ آئینی ترمیم کے بعد عدلیہ کو ہمیشہ کیلئے محکوم بنایا جائے گا۔ انہوں نے اس دن کو پاکستان کی آئینی تاریخ کا سیاہ دن قرار دیا۔ 






راہنماوں کے خطابات کے بعد ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو قومی اسمبلی میں حکومت نے دوتہائی اکثریت ثابت کردی، قومی اسمبلی کے اجلاس میں ابتدائی دو شقوں کی شق وار منظوری کے دوران اپوزیشن کے 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ حق میں 225 ووٹ دیئے گئے۔






اس کے بعد اپوزیشن واک آؤٹ کرکے لابی میں چلی گئی، جبکہ عمر ایوب اور صاحبزادہ حامد رضا ایوان میں گنتی کی ویڈیو بناتے رہے۔اس دوران شق وار منظوری کے دوران 22 شقوں کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا ۔قومی اسمبلی میں حکومتی اور اتحادی جماعتوں کے اراکین کی تعداد 215 ہے اور آئینی ترمیم کیلئے حکومت کو 224 ووٹ درکار تھے.




اسمبلی میں ن لیگ کے 111، پیپلز پارٹی 70، ایم کیوایم کے 22 ارکان، ق لیگ 5 اور استحکام پاکستان پارٹی کے 4 اراکین ہیں۔ نیشنل پارٹی، ضیاء لیگ اور بی اے پی کا بھی ایک ایک رکن اسمبلی کا حصہ ہے۔ آئینی ترمیم کیلئے جمعیت علماء اسلام کے 8 ووٹ ملنے کے بعد حکومت کے ووٹ 223 ہوگئے۔




حکمران اتحاد کے 3 افراد کے خلاف ریفرنس دائر ہے جس کے نتیجے میں وہ ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہ لے سکے، اس طرح حکومتی اتحاد کے اراکین کی تعداد  211 اور جے یو آئی کے 8 اراکین کی حمایت کے ساتھ یہ تعداد 219 بنی اور حکومت کو آئینی ترمیم پاس کروانے کیلئے مزید 5 ارکان کی ضرورت پیش آئی۔ اسمبلی میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی تعداد 8 ہے، سنی اتحاد کونسل کے 80 اراکین ہیں، بی این پی مینگل، ایم ڈبلیو ایم اور پشتونخواہ میپ کا ایک ایک رکن ہے۔


دوران اجلاس ظہور قریشی، عثمان علی، مبارک زیب ایوان میں پہنچ  گئے، مسلم لیگ ق کے منحرف رکن الیاس چوہدری کی بھی حکومتی صفوں پر واپسی ہوئی اور یوں حکومت کے آئینی گیم کے لئے نمبرز پورے ہوگئے۔




آزاد اراکین قومی اسمبلی مبارک زیب، ظہور قریشی، عثمان علی اور اورنگزیب کھچی نے آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیئے۔ انہیں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اراکین کہا جا رہا تھا۔ اپنی تقریر کے دوران عمر ایوب نے انہیں حکومتی بینچوں سے اٹھا کر اپوزیشن بینچوں پر بٹھانے کا مطالبہ کیا تاہم خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ان اراکین نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑا اور ان کا پی ٹی آئی سے تعلق نہیں ہے۔بعدازاں، قومی اسمبلی کا اجلاس بروز منگل 22 اکتوبر 2024 شام 5 بجے تک ملتوی کردیا.


اس سے قبل اتوار کی شام کو حکومت نے سینیٹ میں چھبیسویں آئینی ترامیم بل 2024 کی تمام 22 شقوں کو دو تہائی اکثریت سے منظور کرالیا۔چئیرمین یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت  سینیٹ اجلاس میں پیش کی گئی آئینی ترامیم میں حکومت کو 65 ووٹ ملے، پی ٹی آٸی کے کسی رکن سینیٹر نے بل کی حمایت میں ووٹ نہیں ڈالا۔


حکومت کو ملنے والے 65 ووٹوں میں 24 پیپلز پارٹی کے، 19 ن لیگ کے، 5 جے یو آئی کے، 4 بلوچستان عوامی پارٹی کے، 3 ایم کیو ایم کے، 3 اے این پی کے، 2 بی این پی کے، ایک ووٹ ق لیگ کا شامل تھا۔اسی طرح انوارالحق کاکڑ، محسن نقوی، فیصل واوڈا اور عبدالقادر نے بطور آزاد اراکین ووٹ دیئے۔