چھبیسویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مسودے پر حکومتی اتحادیوں کا اتفاق ہو گیا 

سپریم کورٹ آف پاکستان




26 ویں آئینی ترمیم کا معاملہ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔عدالتی اصلاحات پر اتفاق کے بعد حکومت چھبیسویں آئینی ترامیم سے متعلق دیگر امور پر بھی اتفاق رائے کے لیے سرگرم ہے۔ اور اس سلسلے میں مذاکرات رات گئے تک جاری رہے۔پیپلز پارٹی کی طرف سے آئینی عدالت کے قیام کا مطالبہ مسودے میں سپریم کورٹ میں آئینی ڈویژن کے قیام میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔




وزیراعظم شہبازشریف نے جمعہ کے روز اتحادی جماعتوں کے پارلیمانی راہنماوں کو وزیراعظم ہاؤس بلایا۔ اس سے قبل وزیراعظم نے حکومتی اتحادی جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ کے اعزاز میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ظہرانہ دیا، ظہرانے کے موقع پر اجللاس میں 26 ویں ترمیم منظوری سے متعلق حکمت عملی طے کی گئی۔




اس اجلاس میں 26 ویں آئینی ترمیم کا معاملہ زیر غور آیا اور آئینی ترمیم بل سینیٹ میں پیش کرنے سے متعلق امور پر مشاورت ہوئی۔ اجلاس میں آئینی ترمیم کے حوالے سے اتحادیوں کو اعتماد میں لیا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ آئینی بینچ کے سربراہ اور کے لیے منظوری خصوصی کمیٹی دے گی، خصوصی کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن ارکان شامل ہوں گے، جبکہ اسپیکر بھی خصوصی کمیٹی کا حصہ ہوں گے۔


مسودے کے مطابق چیف جسٹس کی تعیناتی کا معاملہ بھی چھبیسویں آئینی ترمیم کا حصہ ہے۔


اجلاس میں فوجی عدالتوں کے معاملے پر بھی ارکان کو بریف کیا گیا۔عام شہریوں کے تمام کیسز فوجی عدالتوں میں نہیں جائیں گے، فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والے کیسز فوجی عدالتوں کے سپرد ہوں گے۔




 آئینی ترمیم آج ہفتہ کے روز ایوان میں پیش کیے جانے کا امکان ہے، ہفتے کو ووٹنگ کروانے کا منصوبہ طے کر لیا گیا ہے، آئینی ترمیم کے معاملے پر اتحادیوں نے وزیراعظم کو حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے، جبکہ اس سلسلے میں پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کا اجلاس آج 11 بجے ہوگا۔




پیپلز پارٹی کے راہنما خورشید شاہ نے زرائع ابلاغ کو بتایا کہ آیینی ترمیم پر تمام جماعتوں کا اتفاق ہو گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے زرائع ابلاغ کو بتایا کہ  ہفتہ کے روز سینیٹ میں آئینی ترمیم لائی جائے گی۔عرفان صدیقی نے بتایا کہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے آج آئینی ترامیم کے مسودے پر بریفنگ دی ہے، تفصیلات ہمارے سامنے ابھی آئی ہیں، حتمی فیصلہ کمیٹی میں کیا جائے گا،پارلیمانی کمیٹی ہی حتمی  اعلان کرے گی۔اور توقع ہے تمام مسودوں کو یکجا کیا جائے گا۔


پاکستان پیپلز پارٹی کی راہنما شیری رحمان نے کہا  کہ کوشش ہے جے یو آئی کے مسودے کے ساتھ ہم آہنگی ہوجائے، جبکہ تحریک انصاف نے ابھی تک اپنا مسودہ کمیٹی کو پیش نہیں کیا۔

ترمیم سے متعلق حزبِ اختلاف کا موقف:




صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ”کیا یہ شرم کی بات نہیں؟ کیا یہاں جمہوریت برائے فروخت ہے؟“ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی  پر آئینی عدالت کے قیام کے لیے دباؤ ڈالنے کا الزام بھی لگایا۔




 عمر ایوب نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ حکومت آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مطلوبہ تعداد پوری نہیں کر سکی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پی ٹی آئی رہنماؤں اور ان کے اہل خانہ کو ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ہراساں کیا جا رہا ہے۔





آئینی ترمیم کی ضرورت کیوں؟

پاکستان میں عدلیہ کے حوالے سے حکومتوں کو ہمیشہ سے شکایات رہی ہیں۔ اور یہ شکایات بے بنیاد نہیں۔ پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کہ ہماری اعلی عدلیہ میں بیٹھے ججز کی ہمدردی ہر دور میں کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے رہی ہے یا پھروہ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے میں رہے ہیں۔ اس حوالہ سے ن لیگ کی تو اپنے ججز لگانے کی ایک پوری تاریک رہی ہے۔ جسٹس (ر) ملک قیوم کی اور شہباز شریف کی فون کال ریکارڈنگ بھی منظر عام پر آگئی تھی۔ مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ججز دوسری سیاسی جماعتوں جیسے کہ پاکستان تحریک انصاف سے ہمدردی رکھتے آئے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ماضی قریب میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور عمر عطا بندیال کی پاکستان تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے لئے کام کرنے کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

موجودہ صورتحال میں بھی حکومت کو عدلیہ سے اسی طرح کی شکایات رہی ہیں۔ مخصوص نشستوں کے کیس میں تیرہ ججز پر مشتمل فل کورٹ کے آٹھ پانش کے اکثریتی فیصلہ حکومت کو یہ سمجھ آ گئی کہ سپریم کورٹ میں ایسے ججز کی اکثریت ہے جو فیصلہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے دباو مین آ کر نہیں کریں گے بلکہ آئین و قانون کے مطابق کریں گے۔

اب جب منصور علی شاہ بھی ان آٹھ ججوں میں شامل تھے جنھوں نے پاکستان تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں دینے کا فیصلہ دیا اور وہ 25 اکتوبر سے نئے چیف جسٹس بھی بننے جا رہے ہیں تو اب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو احساس ہوا کہ اگر فروری 2024 کے انتخابات کے غیر شفاف ہونے کے حوالے سے پٹیشن سنی گئی اور فل کورٹ میں کیس کا فیسلہ ہوا تو حکومت کا ہی تختہ الٹ جائے گا۔