اسلام آباد کے جج افضل مجوکہ بلاسفیمی کیس کی فائل میں ردّ و بدل کرتے پکڑے گئے

احمد نورانی

اسلام آباد میں پیکا مقدمات کی نگرانی کے لیے تعینات ایک جج کو توہین مذہب کے الزام میں مقدمات کی سماعت تیز کرنے کے لیے عدالتی ریکارڈ میں ردّو بدل کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ جج نے غلط طور پر ایک خاتون وکیل کو ریاست کی طرف سے مقرر کردہ اٹارنی کے طور پر ظاہر کر کے کیس ریکارڈ میں اپنی مرضی کی خود ساختہ گھڑی ہوئی کراس ایگزامینیشن لکھی، باوجود اس کے کہ وہ خاتون وکیل کبھی بھی اس کی عدالت میں پیش نہیں ہوئیں۔

دستاویزی ثبوت واضح طور پر ثابت کرتے ہیں کہ جج محمد افضل مجوکہ، ایڈیشنل سیشن جج (ایسٹ) اسلام آباد، جو پیکا کیسز کے خصوصی جج کے طور پر مقرر ہیں، بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہوں توہین مذہب سے متعلق اس مقدمے میں جانبداری کا مظاہرہ کیا، ان مقدمات میں واحد سزا موت ہے۔

زیادہ تر پیکا مقدمات توہین مذہب کے الزامات سے متعلق ہوتے ہیں، جو دیگر قوانین کے ساتھ مل کر لازمی سزائے موت کا تقاضا کرتے ہیں۔

تحقیقاتی صحافت کو سپورٹ کریں ۔ ۔ ۔ فیکٹ فوکس کو گوفنڈ می پر سپورٹ کریں

https://GoFundMe.com/FactFocus

جج مجوکہ کو توہینِ مذہب کے مقدمات میں ملزمان کے ٹرائل کو تیزی سے مکمل کرنے کے لیے عدالتی ریکارڈ میں رد و بدل کرتے ہوئے پایا گیا ہے، ان کیسز میں سے زیادہ تر بلاسفیمی بزنس گروپ کی طرف سے دائر کیے گئے۔ رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے چیمبر میں بلاسفیمی بزنس گروپ کے سربراہ راؤ عبد الرحیم سے بار بار نجی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں، جس سے عدالتی غیرجانبداری پر سنگین خدشات پیدا ہو تے ہیں۔

یہی نہیں، اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی عدالت نے بلاسفیمی بزنس گروپ سے منسلک مقدمات میں سب سے زیادہ سزائے موت سنائی ہیں۔ توہینِ مذہب کے مقدمات سے وابستہ وکلاء کے مطابق، ان کے فیصلے پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی واحد جج کی جانب سے دی گئی سزائے موت کی سب سے زیادہ تعداد ہیں۔ یہ پہلی بار ہے کہ ان کے جج کے طور پر طرزِ عمل کے خلاف دستاویزی ثبوت سامنے آئے ہیں۔

چار مارچ دوہزارپچیس کو، ابرار حسین شاہ، جو توہینِ مذہب کے مقدمے محمد علی عباس بنام ریاست میں ملزم ہیں، نے ایک نئے وکیل کی خدمات حاصل کیں۔ اس سے قبل وہ مالی مشکلات کے باعث قانونی خدمات حاصل کرنے سے قاصر تھے۔ ان پر دیگر افراد کے ساتھ  تعزیرات پاکستان دفعہ دو سو پچانوے اے، بی اور سی ، پیکا کا سیکشن بائیس اور پی پی سی کی دفعہ ایک سو نو کے تحت الزامات عائد کیے گئے تھے۔

نئے مقرر کیے گئے وکیل، حادی علی چٹھہ کو جج مجوکہ نے آگاہ کیا کہ مقدمے کی کاروائی تقریباً مکمل ہو چکی ہے اور صرف دفعہ تین سو بیالیس سی آر پی سی کے تحت بیانات ریکارڈ کیے جانے باقی ہیں۔ جج نے مزید کہا کہ حتمی دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا جانے والاہے۔

ملزم کے خاندان نے نئے وکیل کے ذریعے مقدمے کی فائل تک رسائی کی درخواست کی۔ فائل کا جائزہ لینے پر انہیں معلوم ہوا کہ جج نے ایک کمزور اور غیر مؤثر جرح ریکارڈ کی تھی۔ جج مجوکہ کے مطابق، یہ جرح ایک سرکاری وکیل نے کی تھی، جو ابرار حسین شاہ کی نمائندگی کر رہا تھا۔ تاہم، ریکارڈ کی گئی جرح ملزم کے دفاع میں نہیں بلکہ اس کے خلاف کام کرتی نظر آئی۔ یہ انکشاف خاندان کے لیے ایک جھٹکا تھا، کیونکہ انہیں کبھی بھی ایسی جرح کے ہونے کا علم نہیں تھا۔

سرکاری عدالت کی فائل میں جج مجوکہ نے کہا کہ ملزم ابرار حسین شاہ کی جانب سے جرح سرکاری وکیل محترمہ نبیلہ ارشاد نے کی تھی۔ تاہم، جرح اس طرح ترتیب دی گئی تھی کہ وہ ملزم کے خلاف کام کرتی نظر آئی۔

جعلی مقدمے کے دستاویزات کا سب سے چونکا دینے والا پہلو یہ تھا کہ ایک معروف ایف آئی اے افسر، مدثر شاہ، کو گواہ کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ اس کی خیالی جرح جج مجوکہ وکیل نبیلہ ارشاد کا نام استعمال کرتے ہوئے خود تیار کی۔ اس کے علاوہ، بلاسفیمی بزنس گروپ کے سربراہ رائو عبدالرحیم، جو اس مقدمے میں مدعی کے وکیل تھے، بھی عدالت میں موجود تھے چونکہ وہ اس مقدمے کی ہر سماعت پر موجود ہوتے تھے۔ جج سمیت یہ سب افراد جانتے تھے کہ یہ جعلی دستاویزات ایک ایسے مقدمے میں تیار کی جا رہی ہیں جو ملزمان کو سزائے موت دلوانے کا سبب بن سکتی تھیں۔ یہ واقعہ بلاسفیمی بزنس گروپ، عدلیہ، اور ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے گٹھ جوڑ کی خوفناک حد کو واضح کرتا ہے۔

ایف آئی اے افسر مدثر شاہ، جو اس وقت پشاور میں تعینات ہیں، اسلام آباد میں زیادہ تر توہینِ مذہب کے مقدمات میں کلیدی گواہ کے طور پر شامل ہیں۔ انہوں نے عبداللہ شاہ قتل کیس میں راؤ عبدالرحیم کو بچانے کے لیے اہم کردار ادا کیا اور عبداللہ کے والد، عامر شاہ، کو توہینِ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کر دیا۔ عامر شاہ، جو اپنے بیٹے کے قتل کے مقدمے میں مدعی تھے، کو زبردستی پولیس تفتیشی افسر کے سامنے راؤ کے حق میں بیان دینے پر مجبور کیا گیا۔

متاثرہ خاندان کافی عرصے سے میڈیا کو یہ بتا رہے تھے کہ جج مجوکہ خود ملزمان سے جرح کے نام پر سوالات کرتے اور جلد بازی میں مقدمات نمٹا کر انہیں سزائے موت سنا دیتے تھے۔ تاہم، یہ پہلا موقع ہے کہ انہیں ٹھوس دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ بے نقاب کیا گیا ہے، جس میں ایک سینئر وکیل کا بیان بھی شامل ہے، جس کا نام غلط طور پر استعمال کیا گیا تھا۔

یہ اس مقدمے کی جرح کی ایک کاپی ہے۔

کراس ایگزامینیشن کی کاپی عدالتی ریکارڈ سے

ملزم کے خاندان کو یہ یقین تھا کہ ایسی کوئی جرح کبھی نہیں ہوئی، اس لیے انہوں نے سرکاری وکیل محترمہ نبیلہ ارشاد سے رابطہ کیا۔ وکیل نبیلہ صاحبہ  نے بلا کسی ابہام کے اس مقدمے میں کسی حوالے سے بھی شامل ہونے یا مبینہ جرح کرنے کی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ انہیں سرکاری وکیل کے طور پر مقرر کیا گیا تھا، لیکن بعد میں انہیں بتایا گیا کہ کسی اور کو ان کی جگہ پر مقرر کر لیا گیا ہے اور وہ کبھی بھی مقدمے کی کاروائی کا حصہ ہی نہیں بنی۔ ۔

ایڈوکیٹ نبیلہ ارشاد کا حلف نامہ جن کا نام استعمال کر کے جج افضل مجوکہ نے خیالاتی کراس ایگزامینیشن لکھی۔

یہ خاندان کے لیے ایک چونکا دینے والا انکشاف تھا، جو پہلے ہی ایک تباہ کن آزمائش سے گزر رہے تھے کیونکہ ان کے نوجوان بیٹے کو ایک بدنام زمانہ گروہ نے جھوٹے توہین مذہب کے مقدمے میں پھنسایا تھا۔

یہ عدلیہ کے اصولوں اور ملزم کے بنیادی حقوق کی واضح خلاف ورزی تھی۔ ابرار حسین شاہ کا مقدمہ قانونی نمائندگی کے بغیر چلایا گیا، اور جھوٹے جرح کے ریکارڈ تیار کر کے اس کی مقدمہ فائل میں ڈالے گئے تاکہ مقدمے کو یکطرفہ طور پر جلدی سے نمٹایا جا سکے۔ اس کے بعد ملزم کے خاندان نے ممبر انسپکشن ٹیم (اسلام آباد ہائیکورٹ) کے پاس شکایت درج کی۔

ملزم ابرار حسین شاہ کی طرف سے جج مجوکہ کی بدعنوانی کے خلاف معائنے کی ٹیم  کو شکایت درج کرائی گئی۔ اس شکایت میں تمام متعلقہ دستاویزات بطور ثبوت شامل کی گئی تھیں۔

آزادنہ کمیشن کا قیام

فیکٹ فوکس نے جولائی دوہزار چوبیس میں پہلی بار بلاسفیمی بزنس گروپ  کی سرگرمیاں بے نقاب کیں۔ دستاویزی ثبوت کے ذریعے اس رپورٹنگ نے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی کے سائبر کرائم ونگ  کے ارکان اور بلاسفیمی بزنس گروپ کے درمیان تعلقات کو بے نقاب کیا۔

اس کے بعد مزید تحقیقات نے مزید تشویش ناک انکشافات کیے ہیں، جن میں توہین مذہب کے الزامات میں ملوث افراد کی اس نجی گروہ کے ذریعے اغوا، خفیہ حراستی سیلز میں تشدد، متاثرین کے موبائل فونز کا طویل عرصے تک بلاسفیمی بزنس گروپ کے ارکان کے پاس ہونا، اور جیلوں میں حراستی تشدد شامل ہیں، جس کے نتیجے میں پانچ نوجوان افراد کی ہلاکت ہوئی ہے، جن میں لاہور کی ایک 22 سالہ لڑکی بھی شامل ہے۔

حال ہی میں، فیکٹ فوکس نے سید عبداللہ شاہ کے اغوا اور قتل کا انکشاف کیا- اور اسکے ساتھ ہی ایف ائی اے  کے افسران کی توہینِ مذہب کے قوانین کو ان کے والد کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں سازباز کا پردہ فاش کیا۔ یہ سب اس لیے کیا گیا تاکہ ان پر دباؤ ڈالا جا سکے کہ وہ اپنے بیٹے کے قتل کے مقدمے میں سمجھوتہ کریں، جس میں راؤ عبد الرحیم، بلاسفیمی بزنس گروپ کے سربراہ کا مرکزی کردار تھا۔ توہینِ مذہب کا مقدمہ، عامر شاہ، مقتول عبداللہ شاہ کے والد اور قتل کے مقدمے کے مدعی، پر درج کیا گیا، یہ ایک سو فیصد جعلی مقدمہ تھا، جس میں پاکستان کے ایک شہری کے خلاف توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا، اور اس سے توہینِ مذہب کے قوانین کی صداقت پر سنگین سوالات اٹھے ہیں۔  جب عامر شاہ کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ جعلی ثابت ہو چکا ہے، تو اب توہینِ مذہب کے قوانین کو شہریوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جانا چایئے ، جب تک کہ تمام متعلقہ مقدمات اور شواہد کی تفتیش ایک آزادانہ کمیشن کے ذریعے نہ کر لی جائے۔ خاص طور پر، جب تک عبداللہ شاہ کے قتل میں ملوث افراد کو فوراً گرفتار کر کے سزائیں نہ دی جائیں، اس وقت تک توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال سنجیدہ سوالات اٹھتے رہیں گے۔ کیونکہ ایگزیکٹو اور عدلیہ دونوں براہِ راست عبداللہ شاہ کے قتل کے مقدمے کو بند کرنے میں ملوث تھے، اور یہ سب توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کے ذریعے کیا گیا۔ فیکٹ فوکس کی پیش کردہ دستاویزی شہادتوں نے اس سب کو ثابت کیا ہے۔

اب، مزید دستاویزی شہادتوں کے ذریعے، فیکٹ فوکس نے ایک اہم سیشن کورٹ کے جج کا کردار بے نقاب کیا ہے، جو متعدد توہینِ مذہب کے مقدمات کی نگرانی کر رہے تھے اور عدالت کی سماعتوں اور دستاویزات میں چھیڑ چھاڑ کرکے سزائے موت کے فیصلوں کو تیز کر رہے تھے۔

قانون  کے مزید غلط استعمال کو روکنے کے لیے آزادنہ کمیشن کے فوری قیام کی ضرورت کو بیان کرنا بہت ضروری ہے۔ اس بدنام نیٹ ورک کی مکمل حقیقت کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک جامع تحقیقاتی کمیشن، جو اپنے اپنے شعبوں کے غیر جانبدار ماہرین کی قیادت میں ہو کا قیام اشد ضروری ہے- یہ نیٹ ورک ایف ائی اۓ  کے افسران، عدلیہ کے بعض ارکان، اور کچھ پارلیمنٹیرین کی پشت پناہی سے چل رہا ہے۔  ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیشن ہی ذاتی اور سیاسی ایجنڈوں کے لیے توہین رسالت کے قوانین کے منظم غلط استعمال کا سدباب کرکے انصاف فراہم سکتا ہے

ایڈیشنل سیشن جج محمد افضل مجوکہ کے خلاف درج شکایت کا متن درج ذیل ہے۔

تاریخ: آٹھ مارچ دوہزار پچیس

مخاطب:

ممبر معائنے کی ٹیم،

اسلام آباد ہائی کورٹ،

دستور ایونیو، جی-5،

اسلام آباد۔

رابطہ نمبر – ٩١٩٨١١٦-٠٥١

مضمون: ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد محمد افضل مجوکہ کے خلاف شکایت/درخواست

محترم،

میں آج آپ کو اپنے بھائی کے مقدمے (نیچے درج تفصیلات کے مطابق) میں ایڈیشنل سیشن جج (ایسٹ) اسلام آباد، جج محمد افضل مجوکہ کے خلاف بدعنوانی کی شکایت درج کرنے کے لیے لکھ رہا ہوں

الف – مقدمہ ایف آئی آر نمبر ٤٨/٢٠٢٣ بعنوان ریاست بمقابلہ محمد علی عباس (تعزیرات پاکستان دفعہ ١١ کے تحت الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ، ٢٠١٦  اور ٢٩٥ اے بی سی اور ١٠٩  پی پی سی کے تحت)

میری شکایت مذکورہ جج کے اس مقدمے میں جانبدارانہ اور غیر قانونی رویے سے متعلق ہے۔ ابتدا میں ہماری فیملی مالی مشکلات اور کیس کی حساس نوعیت کی وجہ سے ملزم کی طرف سے وکیل مقرر نہیں کر پائی تھی۔ ہم آخرکار چار مارچ دوہزار پچیس کو وکیل مقرر کرنے میں کامیاب ہوئے۔ وکیل کو فائل حاصل کرنے میں مشکل پیش آئی، تاہم فائل حاصل کرنے کے بعد، وکیل نے ہمیں مطلع کیا کہ تمام استغاثہ کے شواہد پیش کیے جا چکے ہیں اور اس کے بعد ریاستی وکیل (نبیلہ ارشاد) نے ان کی جرح کی تھی اور اس کیس کو دفعہ ٣٤٢ کے تحت جوابات جمع کرانے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ میرے بھائی اور میں نے آج پہلی بار یہ سنا کہ ریاستی وکیل مقرر کیا گیا تھا، کیونکہ یہ سب ہمارے خاندان یا میرے بھائی (ملزم) کی رضامندی یا علم کے بغیر کیا گیا تھا۔

میرے بھائی کو کبھی نہیں بتایا گیا کہ اس کے لیے ریاستی وکیل مقرر کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت، اسے کبھی بھی ریاستی وکلا کی فہرست نہیں دی گئی جس سے وہ اپنی پسند کا وکیل منتخب کر سکے۔ مزید برآں، نہ تو کسی سماعت پر مجھے عدالت نے بتایا کہ میرے بھائی کے لیے ریاستی وکیل مقرر کیا گیا ہے۔ تاہم، سب سے زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ جب میں نے سات مارچ دوہزار پچیس  کو ریاستی وکیل سے رابطہ کیا، تو انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ کبھی بھی اس کیس میں ریاستی وکیل کے طور پر مقرر نہیں ہوئیں، نہ ہی انہوں نے میرے بھائی کی جانب سے اس مقدمے میں شرکت کی، اور نہ ہی کبھی ان کی طرف سے کسی طرح کی کوئی جرح کی۔ ریاستی وکیل نے اس حوالے سے ٧ مارچ ٢٠٢٥  کی تاریخ کا حلف نامہ دیا ہے جو مذکورہ بالا باتوں کی تصدیق کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میرے بھائی کو اس کے دفاع کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے۔

سات مارچ ٢٠٢٥ کی تاریخ کا حلف نامہ یہاں منسلک ہے

اوپر بیان کردہ واقعات جج کے بدعنوانی کے واضح شواہد ہیں۔ مجھے یہ سمجھنے میں دشواری ہو رہی ہے کہ جب کوئی وکیل موجود ہی نہیں تھا تو جرح کیسے کی گئی؟ اور یہ بھی سمجھنے میں مشکل ہو رہی ہے کہ جس وکیل نے اس کیس میں کبھی بھی شرکت نہیں کی، اس کا نام جرح کرنے والے کے طور پر کیسے درج کیا گیا؟ اور کیسے اس کا نام ریاستی وکیل کے طور پر حکم ناموں میں ظاہر کیا گیا جب کہ اسے کبھی بھی ایسا مقرر نہیں کیا گیا؟ یہ سوال اٹھتا ہے کہ میرے بھائی کی طرف سے جرح کس نے کی؟ اور عدالت نے کیسے کسی کو جرح کرنے کی اجازت دی جو میرے بھائی کا وکیل نہیں تھا؟ اور ان غیر قانونی جرحوں کو ریکارڈ کا حصہ بننے کی اجازت کیوں دی گئی؟

جج کے طرز عمل نے میرے ذہن میں سنگین خدشات پیدا کیے ہیں کہ میرے بھائی کے مقدمے میں کس حد تک اور کس طرح سے طریقہ کار پر عمل کیا جا رہا ہے، خاص طور پر اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ ان پر عائد الزامات کی سزا موت ہے۔ جیسا کہ خصوصی طور پر پیکا مقدمات کی نگرانی کرنے کے لیے مقرر کیا گیا جج، یہ جج سینکڑوں ایسے مقدمات کے ذمہ دار ہیں جن میں سزائے موت دی جاتی ہے۔ اگر میرے بھائی کو اس کے دفاع کے حق سے محروم کیا گیا ہے، تو یہ بہت ممکن ہے کہ ایسا ہی دوسرے مقدمات میں بھی ہو رہا ہو جو انہی دفعات کے تحت درج ہیں۔

اوپر بیان کردہ واقعات ایڈیشنل سیشن جج (ایسٹ) اسلام آباد، جج محمد افضل مجوکہ کی سنگین بدعنوانی کو ظاہر کرتے ہیں، اور میں اس کے ذریعے اپنی شکایت درج کر رہا ہوں تاکہ میرے خدشات کا ازالہ ہو سکے اور ان بدعنوانیوں کی تحقیقات کی جا سکے جنہوں نے انصاف کے نظام کو متاثر کیا ہے۔

سیّد ابرار حسین شاہ ولد سیّد شوکت حسین شاہ