جہانگیر ترین قرضے معاف کروانے کی وجہ سے ہمیشہ نااہل رہیں گے

جہانگیر ترین نے دوہزار سات میں مشرف کے وفاقی وزیر صنعت کے طور پر اپنے جےڈی ڈبلیو گروپ کے ذریعے فاروقی پلپ ملز خریدی

ترین کے فاروقی پلپ ملز خریدنے کے بعد کمپنی کے قرضوں کی ری اسٹریکچرنگ کا عمل شروع ہوا اور دوہزار دس تک ایک سو نو ملین روپے سے زائد کے قرضے معاف بھی کروا لیے گئے

دوہزار تیرہ کے عام انتخابات سے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے قرض معاف کروانے کے حوالے سے یہ معلومات الیکشن کمیشن کو فراہم کیں۔

تاہم ترین نے متعلقہ بینکوں سے خطوط حاصل کر لیے کہ فاروقی پلپ ملز کے یہ قرضے ترین کے اس کمپنی کے ڈائریکٹر بننے سے پہلے معاف کیے گئے

یہ دھوکہ بازی تھی۔ بات ڈائریکٹر بننے یا نہ بننے کی نہیں کمپنی کا مالک بننے کی ہوتی ہے۔ ترین دو ہزار سات میں فاروقی پلپ ملز کو حاصل کر چکے تھے۔

دو ملین سے زائد قرض معاف کروایا ہو تو کوئی بھی فرد آئین کے آرٹیکل تریسٹھ (ایک)(این) کے تحت ہمیشہ کیلیے نااہل ہو جاتا ہے

احمد نورانی

حال ہی میں وجود میں آنے والی نئی سیاسی جماعت استحکامِ پاکستان پارٹی (آئی پی پی ) کے بانی جہانگیر خان ترین نے دوہزار سات میں جنرل مشرف کے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار کی حیثیت سے "فاروقی پلپ ملز” کے نام سے ایک کاروبار حاصل کیا جس کے واجب الزمہ ایک سو نو ملین کے قرضے دوہزار سات سے دوہزار دس کے دوران معاف کروائے گئے۔ کمپنی کی آڈٹ رپورٹس اور متعلقہ بینکس کی دستاویزات کی روشنی میں آئین کے آرٹیکل تریسٹھ (ایک)(این) کے تحت جہانگیر خان ترین انتخابات لڑنے کیلیے ہمیشہ کیلیے نااہل ہیں۔

______________________________________________________

اشتہار

تحقیقاتی صحافت کو آگے بڑھائیں۔

فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپئن میں اپنا حصہ ڈالیں۔

https://gofundme.com/FactFocus

_____________________________________________________

جہانگیر خان ترین نے دوہزار سولہ میں میڈیا کو بتایا کہ زیر بحث قرضے "فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ” نے حاصل کیے تھے اور دسمبر 2010 میں ان کے ڈائریکٹر کے عہدہ پر آنے سے پہلے ہی یہ قرضے معاف کر دیے گئےتھے۔ جہانگیر ترین کی نئی قائم کردہ سیاسی جماعت آئی پی پی کو پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور یہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کی اتحادی ہے۔

تاہم، کمپنی کے مالی گوشوارے (جو اب ویب سائٹس سے ہٹا دئے گئے ہیں ،لیکن وے بیک مشین کے ذریعے قابل رسائی ہیں) کی تحقیقات اور متعلقہ بینکوں سے حاصل کردہ ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ جمال دین والی گروپ ( جے ڈی ڈبلیو گروپ) نے فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ کے حصول کے لئے سرمایہ کاری دوہزار دس کے آخر میں نہیں بلکہ دوہزار سات میں کی تھی۔

دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ فاروقی پلپ ملز کے قرض کی ری اسٹریکچرنگ کا عمل دوہزار سات میں شروع ہوا اور دوہزار دس میں تقریباً ایک سو نو ملین معاف بھی کیے گئے۔ اس کے بعد انتیس دسمبر دوہزار دس کو جہانگیر ترین فاروقی پلپ ملز میں ڈائریکٹر بن گئے حالانکہ اپنے جے ڈی ڈبلیو گروپ کے ذریعے وہ دوہزار سات میں ہی فاروقی پلپ ملز خرید چکے تھے۔

جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے دوہزار تیرہ میں عام انتخابات سے قبل کاغذات نامزدگی جمع ہونے کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان کو اس کی اطلاع دی تو جہانگیر ترین نے متعلقہ بینکوں سے خطوط حاصل کیے جن کے مطابق ترین فاروقی پلپ ملز کا قرض معاف ہونے کے بعد اس کمپنی کے ڈائریکٹر بنے۔ یہ بات ایک لحاظ سے سچ تھی۔ مگر یہ آدھا سچ تھا۔ پورا سچ یہ تھا کہ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ کسی کمپنی کے ڈائریکٹر اس کے میجورٹی شیئر ہولڈر/مالک بھی ہوں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ میجورٹی شیئر ہولڈر لازمی طور پر کمپنی کا ڈائریکٹر بھی ہو۔ اصل بات یہ ہوتی ہے کہ کمپنی کا مالک یا میجورٹی شیئر ہولڈر کون ہے۔ جہانگیر ترین اور انکے بیٹے علی خان ترین ہی جے ڈی ڈبلیو اور فاروقی پلپ ملز کے میجورٹی شیئر ہولڈر تھے جب بینکوں نے یہ قرض معاف کیے اور بعد میں الیکشن کمیشن کو بےوقوف بنانے کیلیے ترین کو خطوظ جاری کر دیے۔

آئین کے آرٹیکل تریسٹھ (ایک)(این) کے مطابق درج ذیل دو صورتوں میں کوئی شخص منتخب ہونے یا منتخب ہونے اور بطور رکن پارلیمنٹ رہنے کے لیے نااہل قرار دیا جائے گا، ۱) اگر:- (این) اس نے کسی بھی بینک، مالیاتی ادارے، کوآپریٹو سوسائٹی یا کوآپریٹو باڈی سے اپنے نام پر یا اس کی شریک حیات یا اس کے زیر کفالت افراد میں سے کسی کے نام پر 20 لاکھ روپے یا اس سے زیادہ کی رقم بطور قرض حاصل کی ہو،اور قرض کی واپسی کی مقررہ تاریخ سے ایک سال سے زائد عرصے تک یہ رقم قاپس نہ کی ہو۔ ۲)یا ایسا قرض معاف کرا دیا گیا ہو۔

جہانگیر ترین پہلے ہی پارلیمانی امیدواری سے نااہل ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے انہیں آئین کے آرٹیکل باسٹھ (ایک)(ایف) کے تحت ‘بددیانت’ قرار دیا تھا کیونکہ وہ برطانیہ میں واقع اپنی جائیداد جو کہ آف شور کمپنی کے نام ہے، اپنے ٹیکس گوشواروں میں ظاہر کرنے سے قاصر رہے تھے۔ اس آف شور کمپنی کے بارے میں معلومات اس صحافی نے تیس اپریل دوہزار سولہ کو اخبار دی نیوز، پاکستان میں رپورٹ کی تھیں۔

مختلف اخباری اطلاعات کے مطابق اس وقت، چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، ججوں کی ایک کمیٹی کے ذریعے آرٹیکل باسٹھ (ایک)(ایف) کے تحت نااہلی کے تاحیات اثرات پر نظر ثانی کرنے اور ممکنہ طور پر کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اے ایف فرگوسن کے ذریعے آڈٹ کیے گئی فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ کی فنانشیل اسٹیٹمنٹس سے پتہ چلتا ہے کہ انیس سو اکانوے میں کمپنی کے قیام اور انیس سو ستانوے میں یونٹ چلانے کے ناکام تجربے کے بعد دوہزار سات میں ہی نئے سرمایہ کاروں نے کمپنی میں سرمایہ لگایا اور یہ نیا سرمایہ کار کوئی اور نہیں بلکہ جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز لمیٹڈ (جس کے شیئرز کی اکثریت کی ملکیت ترین اور انکے خاندان کے افراد کے پاس ہے) تھی جو فرگوسن کی اس آڈٹ رپورٹ کے مطابق "فاروقی پلپ ملز کی پرنسپل شیئر ہولڈر” بن گئی۔ بینک دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ قرض دوہزار سات کے بعد معاف ہوئے اور قرض معاف ہونے کا سلسلہ دوہزار دس تک چلتا رہا۔

فاروقی پلپ ملز کی دوہزار گیارہ کی آڈٹ رپورٹ کے صفحہ آٹھ کے ایک حصے کا عکس

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی دوہزار دس میں معاف کیے گئے قرضوں کی دستاویز کے ایک صفحہ کا عکس، دیکھا جا سکتا ہے کہ دوہزار سات میں فاروقی پلپ ملز جہانگیر ترین کو بیچ دینے کے باوجود فاروقی فیملی کے افراد نے قرض معاف ہو جانے تک ڈائریکٹرز کے عہدے اپنے پاس رکھے۔ فاروقی پلپ ملز کی قرض معافی کا مشاہدہ نمبر بیس قطار میں کیا جا سکتا ہے۔

[آڈٹ رپورٹس کو درج ذیل لنکس سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے: دوہزار گیارہ آڈٹ رپورٹدوہزار بارہ آڈٹ رپورٹ۔ قارئین خود ان رپورٹس کو براہ راست ایف پی ایم ایل کی ویب سائٹ سے اس ویب لنک
(http://farukipulpmills.com/faruki_pulp_mills_003.htm)
کو کاپی کرکے، وے بیک مشین
(https://archive.org)
میں پیسٹ کرکے اور سال دوہزار گیارہ کے لیے ویب سائٹ کو چیک کرکے خود ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔ ]

بینکوں کی آفیشیل دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ فاروقی پلپ ملز کو دوہزار دس میں یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ نے اٹھہتر اعشاریہ پانچ ملین اور ایم سی بی بینک نے تقریباً نو ملین کے قرضے معاف کیے۔ فاروقی پلپ ملز کو انیس سو اکانوے میں فاروقی خاندان کے افراد نے قائم کیا تھا۔ مجید اﷲ فاروقی، میجر (ر) نسیم فاروقی، شاہد اکبر فاروقی، کلیم اﷲ فاروقی، نعیم اﷲ فاروقی، ولید اکبر فاروقی، سلیم اﷲ فاروقی، عبدالسمیع اور پرویز اسلم فاروقی قائم کرنے والوں میں شامل تھے۔

[یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی قرض معافی کی دوہزار دس کی دستاویز

ایم سی بی کی قرض معافی کی دوہزار دس کی دستاویز

قارئین یہ دستاویزات ان بینکوں کی آفیشیل ویب سائیٹس سے ڈھونڈ سکتے ہیں۔ ایک آسان طریقہ گوگل پر بینک نا نام اور متعلقہ سال لکھ کر ایڈوانس سرچ کا آپشن استعمال کرنا بھی ہے۔]

جب جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز نے دوہزار سات میں فاروقی پلپ ملز میں سرمایہ کاری کی تو یہ پرنسپل شیئر ہولڈر بن گئی لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ فاروقی خاندان کے افراد شیئر ہولڈر کے طور پر رہے۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق (اگر وےبیک مشین سے ماضی کے سالوں میں ویب سائٹ مطالعہ کیا جائے تو) شاہد اکبر فاروقی اور ولید اکبر فاروقی بھی کمپنی میں اعلیٰ انتظامی عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے ابتدائی طور پر سرمایہ کاری کی، قرضے حاصل کیے، لیکن انیس سو ستانوے میں کی گئی ناکام کوشش کے بعد وہ بے بس ہو گئے ۔ نئے سرمایہ کاروں نے دوہزار سات میں میں پرنسپل شیئر ہولڈر بننے کے لیے سرمایہ کاری کی۔


دوہزار تیرہ کے عام انتخابات کے وقت الیکشن کمیشن کو اپنی رپورٹ میں، اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنے خط نمبر
CPD/CPU-01/122/NA-154/35202-2698829-5/2013
مورخہ اٹھائیس مارچ دو ہزار تیرہ کے ذریعے یہی موقف پیش کیا اور کہا کہ فاروقی پلپ ملز کو تین بینکوں نے قرضے معاف کیے ۔

تاہم، جہانگیر خان ترین نے دوہزار سولہ میں سوالات اٹھنے پر میڈیا کو بتایا کہ فاروقی پلپ ملز نے ان کے کمپنی کے ڈائریکٹر بننے سے پہلے ہی اپنے قرضے معاف کروا لیے تھے۔ انھوں نے میڈیا کو تین بینکوں یونائیٹد بینک لمیٹڈ، ایم سی بی بینک اور فیصل بینک کے خطوط فراہم کیے جس میں بتایا گیا کہ فاروقی پلپ ملز کے قرضے ترین کے اس کمپنی کے ڈائریکٹر بننے کی تاریخ سے پہلے ہی معاف کر دیے گئے تھے۔

ترین نے اسٹیٹ بینک کا ایک خط بھی فراہم کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ جہانگیر ترین ، ہیوی مکینیکل کمپلیکس کے حکومتی نامزد ڈائریکٹر تھے اور ان کے نام واجب الادا رقم کا ذکر انہیں واجبات کا ذمہ دار نہیں بناتا ہے۔ جہانگیر ترین نے ہیوی مکینیکل کمپلکس کے معاف ہونے والے قرضے کے بارے میں یقیناً درست کہا تھا کیونکہ یہ ایک حکومتی ادارہ تھا اور اس کے قرضہ معاف کئے جانے کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوتی تھی۔

یونائیٹد بینک کی طرف سے دوہزار تیرہ میں جہانگیر ترین کو دیا گیا خط

ایم سی بی بینک کی طرف سے دوہزار تیرہ میں جہانگیر ترین کو دیا گیا خط

فیصل بینک کی طرف سے دوہزار تیرہ میں جہانگیر ترین کو دیا گیا خط

اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے دوہزار تیرہ میں جہانگیر ترین کو دیا گیا خط

درحقیقت، اسٹیٹ بینک نے صرف واجب الادا رقم کے حوالے سے موقف واضح کیا تھا اور بینکوں نے ترین کی طرف سے فراہم کردہ ایس ای سی پی کے فارم انتیس کی مصدقہ کاپی کی بنیاد پر اسٹیٹمنٹ جاری کی، جس میں انتیس دسمبر دوہزار دس کو جہانگیر ترین کو فاروقی پلپ ملز کا ڈائریکٹر بننے کی بات کی تصدیق کی گئی۔ یہ سب ان بینکوں کا کام نہیں تھا اور ان بینکوں نے الیکشن کمیشن سے دھوکہ دہی کی۔

آڈٹ رپورٹس: فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ، تیس جون دوہزار گیارہ کو ختم ہونے والے سال کے لیے مالیاتی گوشوارہ اے ایف فرگوسن لاہور کے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس نے تیار کیا۔ آڈیٹرز کی رپورٹ چارنومبر دوہزار گیارہ کو پیش کی گئی۔ اس میں، "کاروبار کی قانونی حیثیت اور نوعیت”، کے عنوان کے نیچے لکھی گئی رپورٹ میں لکھا ہیکہ، "فاروقی پلپ ملز لمیٹڈ (‘کمپنی’) کو ایک پبلک لمیٹڈ کمپنی کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ کمپنیز آرڈیننس، انیس سو چوراسی کے تحت بیس اکتوبر انیس سو اکانوے کو رجسٹر ہونے کا سرٹیفکیٹ دیا گیا۔ اس کمپنی نے کاغذ کے گودے کو تیار کرنا تھا۔ کمپنی کا پلانٹ گجرات سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر اور رجسٹرڈ دفتر لاہور میں واقع ہے۔

کمپنی نے انیس سو ستانوےمیں آزمائشی بنیادوں پہ پیداواری عمل شروع کیا لیکن وہ کمرشل سطح پر پیداوار شروع نہیں کر سکی کیونکہ اس کے لئے ضروری اہم پیداواری ضروریات پوری نہیں کی جا سکیں۔ فنڈز کی کمی کی وجہ سے مزید تعمیرات روک دی گئیں۔

نئے سرمایہ کاروں کی طرف سے مزید سرمایہ آ جانے کے بعد، دوہزار سات میں قرض دہندگان کے ساتھ حاصل کئے گئے قرض کی شرائط میں رد و بدل اور دوہزاردس میں بینکوں کے کنسورشیم سے طویل مدتی قرض حاصل کرنے، پیداواری سہولت کی تکمیل اور اس کی آزمائشی پیداوار، تجارتی پیداوار کا آغاز چھ ماہ کے اندر متوقع ہے۔

تیس جون دوہزار بارہ کو ختم ہونے والے سال کے لیے آڈٹ رپورٹ اور سولہ نومبر دوہزاربارہ کو جمع کرائی گئی۔ اس کے صفحہ سات پر "کاروبار کی قانونی حیثیت اور نوعیت” اور "گروئنگ کنسرن ازمپشن” کے عنوانات کے تحت، مندرجہ بالا پیراز کو دوبارہ پیش کرنے کے بعد مزید لکھا ہے: "یہ مالی گوشوارے اس لئے مرتب کئے گئے ہیں کیونکہ انتظامیہ پراعتماد ہے کہ کمپنی کے پرنسپل شیئر ہولڈر جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز لمیٹڈ کی جانب سے مسلسل فنڈز کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔

پاکستان کے معروف تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کی جولائی دوہزار بیس کی اس خبر "بہت سی زندگیاں رکھنے والا ایک آدمی” میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ فاروقی پلپ ملز بعد ازاں کن مقاصد کیلیے استعمال ہوتی رہی۔

Scroll to Top