پاک فوج کے جرنیلوں کی ارب پتی بیویاں اور دنیا بھر میں پھیلی جائیدادیں

نیو یارک سٹی گورنمنٹ کے پراپرٹی ریکارڈز جن کا فیکٹ فوکس نے تفصیلی معائنہ کیا سے ثابت ہوتا ہے جنرل شفاعت نے پاک فوج سے اپنی ریٹائرمنٹ کے کچھ عرصہ بعد ڈائون ٹائون مینہیٹن میں ایک اعشاریہ چار ملین ڈالر کا اپارٹمنٹ خریدا

حکومتی ریکارڈ کی چھان بین سے ثابت ہوتا ہے کہ جنرل شفاعت نے مینہیٹن اپارٹمنٹ پاکستان میں حکام سے چھپائے رکھا۔

______________________________________________________

اشتہار

تحقیقاتی صحافت کو آگے بڑھائیں۔

امریکہ اور یورپ میں رہنے والے "گوفنڈمی” کے اس لنک پر جائیں اور فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپئن میں اپنا حصہ ڈالیں۔

https://gofundme.com/FactFocus

پاکستان اور گلف ممالک میں رہنے والے اس لنک پر جا کر فیکٹ فوکس کی تحقیقاتی صحافت کو سپورٹ کریں

https://www.patreon.com/FactFocus

[فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپیئن کی ویڈیو دیکھیں۔]

_____________________________________________________

سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے ملٹری سیکریٹری جنرل شفاعت نے فیکٹ فوکس کو انٹرویو میں تسلیم کیا کہ لندن کا اپارٹمنٹ بھارتی بزنس مین کی طرف سے انکی اہلیہ کے نام اس وقت منتقل ہوا جب وہ کورکمانڈر لاہور تھے۔

جنرل شفاعت نے دعوٰی کیا کہ انہوں نے بھارتی بزنس مین کو اپارٹمنٹ کی آدھی قیمت سے کم ادائیگی کرکے لندن اپارٹمنٹ حاصل کیا۔

جنرل شفاعت نے فیکٹ فوکس کو بھارتی بزنس مین کو لندن اپارٹمنٹ حاصل کرنے کیلیے آدھی قیمت کی ادائیگی کرنے کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا۔

دوہزار سات میں حاصل کر لینے کے بعد جنرل شفاعت کی فیملی نے لندن اپارٹمنٹ دوہزار سترہ صرف اس وقت ٹیکس حکام جلدبازی میں ڈیکلیئر کیا جب اس اپارٹمنٹ کی مالک کمپنی کا نام اپریل دوہزار سولہ میں جاری ہونے والے پانامہ پیپرز میں آگیا۔

یاد رہے پانامہ پیپرز میں کمپنی کا نام آیا تھا، ملکیت کا ذکر نہیں تھا، اس لیے عام لوگوں کو پتا نہ چل سکا۔

دوہزار سولہ کے آخر میں دوبئی لیکس جاری ہونے کے بعد ہی جنرل شفاعت نے دوہزار سترہ میں ہی دوبئی، متحدہ عرب امارات میں بھی ایک اپارٹمنٹ ڈیکلیئر کر دیا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ امریکہ میں جائیدادوں کے حوالے سے کوئی لیکس نہ آئی، باقی جائیدادیں منظرِ عام پر لے آنے والے جنرل شفاعت نے دوہزار سترہ میں بھی سب سے قیمتی مینہیٹن اپارٹمنٹ ڈیکلیر نہ کیا۔

اپنا دوبئی اپارٹمنٹ ڈیکلیئر کرتے ہوئے جنرل شفاعت نے ٹیکس ریٹرنز میں اس فلیٹ کو خریدنے کا ذریعہ آمدن فوج سے اپنی ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد شروع ہو جانے والی دوبئی کی ایک کمپنی ٹیکسپو میں نوکری بتائی۔

جب فیکٹ فوکس نے پوچھا کہ آپ دوبئی میں آئی ٹی انفراسٹریکچر کی اس کمپنی میں کیا کام کرتے تھے۔ تو جنرل شفاعت نے بتایا کہ وہ کوئی کام وغیرہ نہیں کرتے تھےاور لاہور میں اپنے گھر میں رہتے تھے۔

دنیا کی مہنگی ترین رئیل اسٹیٹ رکھنے والے شہروں میں پاکستانی جرنیلوں کی جائیدادوں کی مینیجمنٹ ایسے بہترین اور تخلیقی طریقوں سے کی جاتی ہے کہ منی لانڈرنگ کنٹرول کرنے والے دنیا کے بڑے بڑے اداروں کے افسران کا دماغ بھی جواب دے جاتا ہے۔

اسلام آباد (عثمان منظور) پاکستان کے ایک اہم فوجی جرنیل جو کہ سابق ڈکٹیٹر جنرل مشرف کے ملٹری سیکریٹری رہے نے اپنی ملازمت کے دوران بطور کور کمانڈر لاہور لندن میں جبکہ ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد دوبئی اور مینہیٹن میں لگژری اپارٹمنٹ حاصل کیے، پہلے پاکستانی ٹیکس حکام سے ان جائیدادوں کو چھپائے رکھا پھر اداروں اور عوام سے حقائق اور ان جائیدادوں کے حصول کیلیے ذرائع آمدن کے بارے میں مسلسل غلط بیانی کی۔ تحقیقاتی ادارے مکمل شواہد ہونے کے باوجود فوج کے ہیڈکوارٹر جی ایچ کیو کے خوف سے آج تک کوئی کاروائی نہ کر سکے۔

جنرل شفاعت ڈکٹیٹر مشرف کے ملٹری سیکریٹری، کورکمانڈر لاہور اور جی ایچ کیو میں چیف آف لاجسٹک سٹاف بھی رہے۔ اس سے پہلے فیکٹ فوکس ڈکٹیٹر مشرف کے ڈپٹی ملٹری سیکریٹری جنرل عاصم سلیم باجوہ اور انکے خاندان کے دنیا بھر میں اثاثوں کے بارے میں بھی رپورٹ کر چکا ہے۔

______________________________________________________

اشتہار

تحقیقاتی صحافت کو آگے بڑھائیں۔

امریکہ اور یورپ میں رہنے والے "گوفنڈمی” کے اس لنک پر جائیں اور فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپئن میں اپنا حصہ ڈالیں۔

https://gofundme.com/FactFocus

پاکستان اور گلف ممالک میں رہنے والے اس لنک پر جا کر فیکٹ فوکس کی تحقیقاتی صحافت کو سپورٹ کریں

https://www.patreon.com/FactFocus

[فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپیئن کی ویڈیو دیکھیں۔]

_____________________________________________________

دوہزار سات میں جب جنرل شفاعت لاہور کے کور کمانڈر تھے تو انہوں نے بھارتی بزنس مین اکبر آصف سے لندن میں اپنی بیوی فریحہ شاہ کے نام ایک قیمتی اپارٹمنٹ حاصل کیا جو کہ ایک آف شور کمپنی کے نام پر رجسٹر تھا۔ پاکستان کی ٹیکس دستاویزات کے مطابق جنرل شفاعت نے دوہزار سات میں تقریباً آٹھ لاکھ آمدنی ظاہر کی، یعنی انکی ماہانہ آمدنی ستاسٹھ ہزار روپے تھے اور انہوں نے پورے سال کا ٹیکس تہتر ہزار سات سو پچاسی روپے ادا کیا۔ اسی طرح سے دوہزار آٹھ میں جنرل شفاعت نے آٹھ لاکھ ستاون ہزار آمدن ظاہر کی، انہوں نے ساٹھ ہزار چیریٹی کو دیا، اس طرح انکی قابل ٹیکس آمدنی تقریباً سات لاکھ نوے ہزار تھی۔ اور انہوں نے پورے سال کا ٹیکس تقریباً انسٹھ ہزار روپے ادا کیا۔ اس طرح کے مالی حالات میں بھی اس وقت کے کور کمانڈر لاہور نے لندن کے اہم علاقے میں یہ قیمتی اپارٹمنٹ حاصل کر لیا۔ انہوں نے پوری ایک دہائی یہ اپارٹمنٹ پاکستان کے ٹیکس حکام سے چھپائے رکھا۔ سن دوہزارسولہ میں اس اپارٹمنٹ کی مالک آفشور کمپنی کا نام پانامہ پیپرز میں آ گیا اور دوہزار سترہ میں جنرل شفاعت کی اہلیہ نے یہ اپارٹمنٹ اپنے ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر کر دیا مگر اس کی قمیت آدھ سے بھی کم بتائی۔ پانامہ پیپرز میں اس آفشور کمپنی کا نام آیا مگر اسکی ملکیت کا پتا نہ لگا۔ دوہزار اکیس میں جب پنڈورا پپرز جاری ہوئے تو ان میں نہ صرف اس کمپنی کی ملکیت کا پتا چلا بلکہ یہ بھی پتا چلا کہ درحقیقت جنرل شفاعت نے یہ اپارٹمنٹ کب حاصل کیا۔ بین الاقوامی تحقیقاتی صحافت کے ادارے آئی سی آئی جے کے پنڈورا پیپرز کی رپورٹنگ کے بعد جب تفصیلات سامنے آئیں تو جنرل شفاعت نے لندن اپارٹمنٹ حاصل کرنے کو درست ثابت کرنے کیلیے چھ مختلف دعوے کیے۔ آج کی تحقیقات میں فیکٹ فوکس ان چھ دعووں پر دستاویزات کی روشنی میں اپنی تحقیقات پیش کر رہا ہے۔

فوج سے نومبر دوہزار نو میں اپنی ریٹائرمنٹ کے تقریبا سوا سال کے بعد دوہزار گیارہ میں جنرل شفاعت نے متحدہ عرب امارات کے شہر دبئی میں بھی ایک اپارٹمنٹ خرید لیا۔ یہ اپارٹمنٹ بھی جنرل شفاعت نے پاکستان میں ٹیکس حکام سے چھپائے رکھا۔ دو ہزار سولہ کے آخر میں دبئی لیکس رپورٹ ہوئیں۔ دوہزار سترہ میں جنرل شفاعت اور انکے بیٹے نے یہ اپارٹمنٹ ڈیکلیئر کیا اور اسے خریدنے کیلیے رقم کے بارے میں بتایا کہ دراصل فوج سے ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد انکی دبئی کی ایک کمپنی ’’ٹیکسپو‘‘ میں نوکری ہو گئی تھی۔ اس کمپنی سے ملنے والی ایک سال کی تنخوا سے انہوں نے دبئی میں یہ اپارٹمنٹ خرید لیا۔ ٹیکس ریکارڈ کے مطابق سن دوہزار گیارہ میں انکی کل آمدن صرف چھ لاکھ روپے، یعنی پچاس ہزار روپے ماہانہ، تھی اور انکا اس پورے سال کا ٹیکس پچاس ہزار چھ سو بائیس روپے تھا۔ جنرل شفاعت کی بعد کے ایک سال کے سالانہ ریٹرنز کے مطابق انہیں دبئی سے ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے کرائے کی مد میں ملتا ہے۔

دوہزار بارہ میں، اپنی ریٹائرمنٹ کے تقریباً سوا دو سال بعد ہی جنرل شفاعت نے ڈائون ٹائون مینہیٹن میں ایک اعشاریہ چار ملین ڈالر کا ایک لگژری اپارٹمنٹ خریدا۔ پاکستان کے ٹیکس ریکارڈ کے مطابق اس سال جنرل شفاعت نے سات لاکھ بیس ہزار سالانہ (یعنی ساٹھ ہزار روپے ماہانہ) کی آمدن ظاہر کی اور پورے سال کا ٹیکس اڑتالیس ہزار پانچ سو روپے ادا کیا۔ اپریل دوہزار بارہ میں دنیا کے قیمتی ترین علاقوں میں سے ایک مینہیٹن میں یہ اپارٹمنٹ خریدنے کے بعد وہ دسمبر دوہزار اکیس تک اسکے بِلا شرکتِ غیرے مالک رہے۔ اسکے بعد انہوں نے یہ اپارٹمنٹ اپنے آپ، اپنی بیوی فریحہ شاہ اور اپنے بیٹے رضااللہ شاہ کو بیچ لیا۔ دوہزار سولہ میں پانامہ پیپرز میں آف شور کمپنی آ گئی بعد میں دبئی لیکس آ گئیں۔ مگر امریکہ میں جائیدادوں کے حوالے سے کبھی کوئی لیکس نہ آئیں۔ دوہزار سترہ میں جب جنرل شفاعت اور انکے خاندان نے بیروں ملک (لندن اور دبئی) چھپائے گئے اثاثے ظاہر کیے تب بھی مینہیٹن کا یہ قیمتی اپارٹمنٹ چھپائے رکھا۔ جب تک یہ اپارٹمنٹ جنرل شفاعت کے نام رہا انہوں نے اسے پاکستان میں ٹیکس حکام سے چھپائے رکھا۔

نیویارک، مینہیٹن کی جائیداد

فیکٹ فوکس کی تحقیقات، نیو یارک سٹی حکومت کی سرکاری دستاویزات پر مبنی ہیں، جن کے مطابق ایک شخص جس کا نام ‘شفاعت شاہ’ تھا، نے تیرہ اپریل دوہزار بارہ کو مینہٹن کے ڈاؤن ٹاؤن میں ایک اعشاریہ چار ملین کی ادائیگی کر کے ایک لگژری اپارٹمنٹ خریدا۔ مینہٹن کنڈونیم کی سرکاری دستاویزات پر "شفاعت شاہ” کے دستخط بالکل وہی تھے جو حکومت پاکستان کی سرکاری دستاویزات میں لیفٹینٹ جنرل شفاعت اللہ شاہ کے تھے۔

جنرل شفاعت نے اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد مینہیٹن میں اپنا یہ ڈریم اپارٹمنٹ خریدنے کیلیے تک انتظار کیا۔ اس سے چند ماہ قبل وہ دبئی میں بھی اپارٹمنٹ خرید چکے تھے۔

تیرہ اپریل دوہزار بارہ کی اپارٹمنٹ کی سیل ڈِیڈ کا صفحہ اوّل

اپارٹمنٹ ڈِیڈ کا صفحہ نمبر آٹھ جس میں کل قیمت دکھائی گئی ہے۔

مینہیٹن اپاٹمنٹ کے فروخت، مکمل دستاویزات ان لنکس سے ڈائون لوڈ کریں۔

۔ دوہزار بارہ کی ڈِیڈ

۔ دوہزار بارہ کی پاور آف اٹارنی

۔ دسمبر دوہزار اکیس کا اہلیہ اور بیٹے اشتراک

[قارعین مینہیٹن میں جائیداد کی ان دستاویزات کی نیویارک کی سرکاری ویب سائیٹ سے بذاتِ خود بھی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس لنک https://www.nyc.gov/site/finance/taxes/acris.page پر کلک کریں۔ اس کے بعد سامنے آنے والے ویب پیجز پر مندرجہ ذیل ٹیبز پر کلک کرتے جائیں۔

“Begin By Using ARCIS” → “Search Property Records” → “Parcel Identifier”

پھر اوپر تصاویر میں دیا گیا ’’بلاک نمبر‘‘ اور ’’لاٹ نمبر‘‘ درج کریں۔

The borough’s name is "Manhattan”.

قارعین متعلقہ کالم میں ڈیٹ رینج تبدیل کر کے ماضی کے ریکارڈز دیکھ بھی سکتے ہیں اور ڈائون لوڈ بھی کرسکتے ہیں۔]

پاکستان میں مختلف ریکارڈز اور ٹرانسیکشنز کا معائنہ کرنے پر فیکٹ فوکس نے یہ بھی اخذ کیا کہ اس سال جنرل شفاعت نے اتنی بڑی رقم پاکستان سے پاہر نہیں بھیجی۔ مزید براں، انکا ٹیکس ریکارڈ بھی ایسی کوئی ٹرانزیکشن یا رقوم کی بیرون ملک منتقلی نہیں دکھاتا۔ جنرل شفاعت اس اپارٹمنٹ کا سالانہ ٹیکس امریکہ میں ادا کرتے رہے۔ پاکستان میں انکا ٹیکس ریکارڈ یہ دکھاتا ہے کہ نہ صرف انہوں نے یہ اپارٹمنٹ چھپایا بلکہ امریکہ میں اس کے ٹیکس کی ادائیگی، جو کئی ملین روپے سالانہ ہوتی تھی، وہ کرتے رہے مگر پاکستان میں چھپاتے رہے۔

جنرل شفاعت کے دوہزار چودہ اور سولہ کے سالانہ ریٹرنز کے متعلقہ حصوں کا امیج، دیکھا جا سکتا ہے کہ ان سالوں میں وہ اپنا مینہیٹن کا اپارٹمنٹ چھپا رہے ہیں۔

دستاویزات سے پتا چلتا ہے کہ امریکہ میں جنرل شفاعت کے صرف مینہیٹن اپارٹمنٹ کا سالانہ ٹیکس پاکستان میں انکے پورے سال کے کل ٹیکسز سے بھی زیادہ ہے۔

آرمی جنرل کی دبئی میں پراپرٹی

پانامہ پیپرز کے بعد جب جنرل شفاعت کی فیملی نے لندن اپارٹمنٹ ظاہر کیا تو شفاعت اور انکے بیٹے نے دبئی میں بھی اپنی جائیدادیں ظاہر کیں۔ جنرل شفاعت اور انکے بیٹے نے دبئی میں مختلف ائڈریسز پر اپارٹمنٹ ظاہر کیے۔ تا ہم فیکٹ فوکس کو انٹرویو دیتے ہوئے جنرل شفاعت کا کہنا تھا کہ دبئی میں انکا اور انکے بیٹے کا ایک ہی اپارٹمنٹ ہے۔

جنرل شفاعت کے دوہزار سترہ کے سالانہ ریٹرنز کے متعلقہ حصے کا عکس، جس میں دیکھا جا سکتا ہے جنرل شفاعت نے دبئی کے ایک ایڈریس پر اپارٹمنٹ کی آدھی ملکیت ظاہر کی، انہوں آئی ٹی انفراسٹریکچر کمپنی ٹیکسپو میں ملازمت کا بھی ذکر کیا۔

جنرل شفاعت کے بیٹے رضااللہ شاہ کے دوہزار سولہ اور دوہزار سترہ کے سالانہ ریٹرنز کے متعلقہ حصوں کے امیجز۔ دیکھا جا سکتا ہے کہ انہوں نے دوہزار سولہ میں کیا کیا ظاہر کیا۔ اور پھر دوہزار سولہ میں پہلے پانامہ پیپرز اور پھر دبئی لیکس کے آنے کے بعد دوہزار سترہ میں انکی ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں کیسے ڈرامائی تبدیلی آئی۔

دوہزار سترہ میں جب جنرل شفاعت نے اپنا دبئی کا اپارٹمنٹ آخر کار ظاہر کیا تو اسے خریدنے کیلیے اپنا ذریعہ آمدن انہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد دبئی کی ایک کمپنی ٹیکسپو کے بورڈ ممبر کے طور شروع ہونے والی اپنی ایک نوکری بتایا۔ مگر انہوں نے دبئی اپارٹمنٹ خریدنے کا سال نہیں بتایا۔ ’’فلیٹ نمبر دو سو دو، جے فائیو، دوبئی‘‘ وہ ایڈریس تھا جو جنرل شفاعت نے دوہزار سترہ کے سالانہ ریٹرنز میں ظاہر کیا۔ اور یہ ایک اعشاریہ چھ ایک آٹھ اماراتی درہم (یہ دو ہزار گیارہ میں چار لاکھ چالیس ہزار نو سو پانچ امریکی ڈالر بنتے ہیں) میں خریدا گیا۔ ٹیکس پیپرز کے مطابق یہ اپارٹمنٹ جنرل شفاعت اور انکے بیٹے کی مشرترکہ ملکیت ہے۔ انہوں نے فیکٹ فوکس کو اپنے انٹرویو میں بتایا کہ یہ اپارٹمنٹ انہوں نے دوہزار گیارہ میں خریدا۔

اسی سال دوہزار سترہ میں جنرل شفاعت کے بیٹے رضا نے بھی دبئی کے ایڈریس ’’فلیٹ نمبر چوہتر اوبلیک زیرو، سیکنڈفلور، جے فائیو، السفوح، فرسٹ دوبئی‘‘ پر ایک اپارٹمنٹ ڈیکلیئر کیا اور اسکی اپنے والد کے ساتھ مشترکہ ملکیت بتائی۔ تاہم انہوں نے اس ایڈریس پر خریدے گئے اپارٹمنٹ کی نہ تو قیمت لکھی اور نہ تاریخ خرید بتائی۔ رضا جنرل شفاعت کے ایک ہی بیٹے ہیں۔

جنرل شفاعت نے یہ بھی بتایا کہ انکی ٹیکسپو کمپنی سے آمدنی کبھی بھی پاکستان نہیں لائی گئی۔

اپارٹمنٹ ڈیکلیئر کرنے کے چار سال بعد جنرل شفاعت نے دوہزار اکیس کے سالانہ ریٹرنز میں دبئی کا ایک فارن کرنسی بنک اکائونٹ بھی طاہر کر دیا۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ دبئی اپارٹمنٹ کے کرائے کے ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے سے کچھ زیادہ (دوہزار اکیس میں تقریباً ایک لاکھ امریکی ڈالر) رقم پڑی ہے۔ رضا نے بھی اسی سال ڈیکلیئر کیا کہ اسکے حصے کا کرایہ بھی اس کے والد کے بنک اکائونٹ میں آیا ہے۔

جنرل شفاعت کے ایک سالانہ ریٹرن کا متعلقہ حصہ جس میں دبئی اپارٹمنٹ سے وصول شدہ کرائے کی رقم کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

جنرل شفاعت کا ٹیکسپو میں کردار

ٹیکسپو آئی ٹی انفراسٹریکچر فراہم کرنے والی دبئی کی ایک کمپنی ہے جس کے مالک کراچی سے تعلق رکھنے والے سرفراز اشفاق عالم ہیں۔ اس کمپنی کے دفاتر کراچی پاکستان، برطانیہ اور امریکہ میں بھی قائم کیے گئے تھے۔ جنرل شفاعت کی پروفائل میں آئی ٹی کا کسی طرح کا بھی تجربہ نہیں ہے اس لیے یہ سوال اٹھا کہ ٹیکسپو میں انکی نوکری کیسے ہوئی اور آخر انکی ذمہ داریاں کیا تھیں۔ فیکٹ فوکس نے جنرل شفاعت کے انٹرویو کے دوران جب ان سے یہ سوالات کیے تو انہوں نے تسلیم کیا کہ آئی ٹی کے شعبے میں وہ کسی بھی طرح کی مہارت نہیں رکھتے۔ انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ ٹیکسپو دبئی کے دفتر شاید ایک آدھ بار ہی گئے۔ جنرل شفاعت نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ اپنے لاہور کے گھر میں ہی رہے۔

تاہم فیکٹ فوکس نے جن دستاویزات کا مطالعہ کیا ان سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے دوہزار دس اور خصوصاً دوہزار گیارہ میں زیادہ تر وقت جنرل شفاعت پاکستان یا دوبئی میں نہیں بلکہ امریکہ میں رہے۔

ایسے میں بغیر کوئی بھی کام کیے جنرل شفاعت اتنی زیادہ تنخوا ملنا جس سے بندہ دبئی میں باقائدہ اپارٹمنٹ ہی خرید لے ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ چناچہ فیکٹ فوکس نے یہی سوال جنرل شفاعت سے کیا۔ جس پر انکا کہنا تھا کہ ٹیکسپو نے صرف انکو ہی تو نوکری نہیں دی۔ اور چند لوگوں کو بھی دی۔ انکی بھی آئی ٹی میں کوئی مہارت نہ تھی۔ وہ بھی کام نہیں کرتے تھے۔ اس میں بُرا کیا ہے۔

جنرل شفاعت کا تفصیلی مئوقف جاننے کے فیکٹ فوکس نے ٹیکسپو کے سربراہ سرفراز عالم سے مختلف چینلز سے رابطہ کرنے کی مسلسل کوشش کی۔ وہ لنکڈ ان پر مسلسل آن لائن بھی آئے۔ وہاں بھی انہیں میسجز بھیجے گئے مگر انہوں نے جواب دینا مناسب خیال نہیں کیا۔ ان جنرل شفاعت کی اس قابلیت کے بارے میں سوال پوچھے گئے تھے جن کی بنیاد پر انہیں ایک آئی ٹی کمپنی میں یہ نوکری دی گئی تھی۔ ان سے یہ بھی پوچھا گیا تھا کہ جنرل شفاعت نے انکی کمپنی میں کب سے کب تک نوکری کی۔

سرفراز اشفاق عالم، سربراہ ہیش موو، ٹیکسپو

لندن اپارٹمنٹ

برطانوی حکومت کی سرکاری دستاویزات یہ ثابت کرتی ہیں کہ ایک بھارتی بزنس مین اکبر آصف نے دوہزارچھ میں لندن کے ایک مہنگے علاقے میں چھ لاکھ چھہتر ہزار دو سو پچاس پائونڈ (دوہزار سات میں ایک اعشاریہ دو ملین ڈالر سے زائد) میں ایک اپارٹمنٹ خریدا۔ فیکٹ فوکس سے انٹرویو کے دوران جنرل شفاعت نے یہ تسلیم کرلیا کہ یہ اپارٹمنٹ انکی اہلیہ کے نام منتقل کروانے کیلیے انہوں نے دوہزار سات میں صرف تین لاکھ دس ہزار پائونڈ دیے۔ یوں جنرل شفاعت نے تسلیم کیا کہ انہوں ایک بھارتی بزنس مین سے لندن کا یہ اپارٹمنٹ آدھے سے بھی کم قیمت میں خریدا۔ بھارتی بزنس مین نے یہ اپارٹمنٹ چند ماہ قبل اس سے دوگنی سے بھی زیادہ قیمت میں خریدا تھا۔ جس وقت جنرل شفاعت نے بھارتی اکبر آصف سے لندن کا یہ اپارٹمنٹ حاصل کیا اس وقت وہ اور انکا خاندان لاہور کے حال میں مشہور ہونے والے ’’جناح ہائوس‘‘ میں رہ رہے تھے۔ فریحہ شاہ نے اپنے دوہزار سات میں ہی اپنے سالانہ ٹیکس ریٹرنز جمع کروانے کا سلسلہ شروع کیا مگر انہوں نے ایسی کوئی فارن پراپرٹی ظاہر نہیں کی۔

یہ بات انتہائی اہم ہے کہ جنرل شفاعت کہتے تو ہیں کہ انہوں نے بھارتی بزنس مین سےلندن اپارٹمنٹ آدھی قیمت پر حاصل کیا مگر وہ یہ آدھی رقم دینے کا بھی کوئی ثبوت پیش نہیں کرتے۔ جب فیکٹ فوکس نے انہیں بتایا کہ دوہزار سات میں انکی ایسی کوئی ٹرانزیکشن نہیں ملتی کہ انہوں پیسے برطانیہ بھیجے ہوں تو انہوں نے کہا کہ لندن اپارٹمنٹ خریدنے کیلیے انہوں نے رقم کی ادائیگی لاہور میں کسی بندے کو کی تھی۔ تاہم وہ اس حوالے سے بھی کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے۔

لندن میں اپارٹمنٹ خریدنے کیلیے کسی بندے کو لاہور میں رقم کی ادائیگی کا جنرل شفاعت کا بیان انتہائی اہم ہے اور اس حوالے سے ان پر منی لانڈرنگ کا اعتراف کرنے کا الزام لگ سکتا ہے۔

برطانوی حکومت کے لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ کے ریکارڈ میں لندن اپارٹمنٹ کی دوہزار چھ میں آفشور کمپنی ’’طلاح لمیٹڈ‘‘ کے ذریعے خریداری کی دستاویز کے ایک حصے کا امیج۔ وہ قیمت خرید دیکھی جا سکتی ہے جو بھارتی بزنس میں اکبر آصف نے ادا کی۔

لندن اپارٹمنٹ کا برطانوی لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ کا مکمل ڈاکومنٹ اس لنک سے ڈائون لوڈ کریں۔

دستاویزات کے مطابق اکبر آصف کی آفشور کمپنی کے ڈائریکٹرز، منان ایڈن والا اور روندرا وسانت رائو چٹنس، جو کہ بھارتی شہری ہیں اور دبئی میں انوسٹ منٹ بنکرز ہیں، نے استعفٰی دیا جو کہ چیئرمین نے قبول کیا اور فریحہ شاہ کی آف شور کمپنی میں بطور ڈائریکٹر تعیناتی کر دی گئی۔ اس عمال سے فریحہ شاہ اس آف شور کمپنی کی واحد مالکہ بن گئیں اور اسی توسط سے اس آفشور کمپنی کی ملکیے میں موجود لندن اپارٹمنٹ ’’فلیٹ نمبر ایک سو پچپن، ڈسکوری ڈوک اپارٹمنٹس، ایسٹ، تھری سائوتھ کوئے اسکوائر، لندن، ای ایک چار نو آر زیڈ‘‘ کی بھی مالک ہو گئیں۔

دوہزار سترہ کے سالانہ ریٹرنز میں فریحہ شاہ اور رضا شاہ نے لندن اپارٹمنٹ کی ملکیت ظاہر کی اور بتایا کہ یہ ان دونوں کی برابر اور مشترکہ ملکیت ہے۔ دونوں نے ٹیکس گوشواروں میں بتایا کہ الگ الگ ایک لاکھ پچپن ہزار ڈالر کی رقم انہوں نے اپارٹمنٹ حاصل کرنے کیلیے خرچ کی۔ رضا شاہ نے بتایا کہ یہ رقم انکے والد نے انہیں تحفہ میں دی۔ جبکہ فریحہ شاہ نے بھی یہی بتایا کہ یہ رقم انکو انکے والد نے تحفہ میں دی۔

یہ بات تحریری طور پر بھی تسلیم کر لی گئی کہ جو اپارٹمنٹ بھارتی بزنس میں نے چھ لاکھ چھہتر ہزار پائونڈ میں خریدا وہ اپارٹمنٹ صرف چند ماہ بعد جنرل شفاعت کی فیملی کو تین لاکھ دس ہزار پائونڈ میں ملا۔ یہ بات فیکٹ فوکس کی تحقیقات میں ثابت ہوئی۔ جبکہ یہ بات تو پہلے ہی ثابت ہو چکی تھی کہ اس بھارتی بزنس مین نے جنرل شفاعت کی موجودگی میں جنرل مشرف سے ملاقات کی اور اور اسی میٹنگ کے نتیجے میں ایک اہم کاروباری فائدہ بھی حاصل کیا۔

دوہزار سولہ اور دوہزار سترہ کے فریحہ شاہ کے سالانہ ریٹرنز کا عکس۔ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ دوہزار سات میں حاصل کیا گیا لندن اپارٹمنٹ فریحہ شاہ دس سال یعنی دوہزارسترہ تک چھپاتی رہیں اور دوہزار سترہ میں پانامہ پیپرز میں طلاح لمیٹڈ کا نام آ جانے کے بعد ہی ظاہر کیا۔ جو رقم انہوں نے اور انکے بیٹے نے مل کر ادا کی (اگر واقعی ہی ادائیگی کی گئی تو) وہ بھارتی بزنس مین کی چند ماہ پہلے کی قیمت خرید کے آدھے سے بھی کم ہے۔

دوہزار پندرہ میں اس وقت کے قزیراعظم نواز شریف کی طرف سے پاکستان کے اردن میں سفیر کے طور پر اپنی تعیناتی کے بعد سے دوہزار سترہ تک جنرل شفاعت اور انکی فیملی اردن میں مقیم تھی۔ ٹیکس قوانین کے تحت سالانہ گوشوارے جمع کروانا انکے لیے لازم بھی نہ تھا۔ مگر پاکستان میں بیرونی اثاثوں کے حوالے سے حالات بہت خراب تھے۔ ملک کا وزیراعظم پانامہ پیپرز میں اپنے خاندان کے افراد کے اثاثے شائع ہو جانے کے بعد ایک بڑے کیس کا سامنا کر رہا تھا۔ جنرل شفاعت اور انکی فیملی نے انہی حالات میں دوہزار سترہ میں اپنے بیرونی اثاثوں میں سے کچھ کو ظاہر کیا۔

جنرل شفاعت وہ واحد فوجی جرنیل ہیں جن کے عالمی اثاثوں کا ذکر آئی سی آئی جے کے پانامہ اور پنڈورا پیپرز دونوں میں آیا۔

دوہزار سات میں لندن اپارٹمنٹ پہلے مکمل طور فریحہ شاہ کے نام پر آیا۔ وہ آف شور کمپنی کی واحد مالک تھیں۔ مگر دوہزار دس میں جب انکے بیٹے رضا کی عمر اٹھارہ برس ہو گئی تو مئی دوہزاردس میں وہ اس آفشور کمپنی کے آدھے مالک بن گئے۔

طلاح لمیٹد میں ڈائریکٹرز کب کب شامل ہوئے۔ فوٹو کریڈٹ: آئی سی آئی جے پنڈورا پیپرز

بھارتی بزنس مین اکبر آصف اور جنرل مشرف کی ملاقات کا احوال

بھارتی بزنس مین اکبر آصف جو کہ بالی وڈ کے عظیم ہدایت کار کے آصف کے بیٹے ہیں چھ دسمبر دوہزار چار کو لندن کے ایک ہوٹل میں جنرل شفاعت کی موجوگی میں نرل مشرف کو ملے۔ اکبر آصف نے اپنے والد کی تاریخ ساز فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ کا پرنٹ جنرل مشرف کو پیش کیا۔ جس وقت یہ میٹنگ ہوئی اس وقت پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی تھی۔ اس میٹنگ میں اکبر آصف نے ’’مغلِ اعظم‘‘ کی حد تک اس پابندی سے استشنا حاصل کر لیا۔ اس میٹنگ کے بعد ہونے والی پیش رفت کے نتیجے میں پاکستان میں بھارتی فلموں پر پابندی مکمل طور پر ختم کر دی گئی۔

اکبر آصف جنرل شفاعت کی موجودگی میں شھ دسمبر دوہزار چار کو جنرل مشرف کو فلم ’’مغلِ اعظم‘‘ کا پرنٹ پیش کر رہے ہیں۔ (تصویر کا کریڈٹ: جیو نیوز پاکستان کی ویب سائیٹ)

ملیحہ لودھی پر ذمہ داری ڈالنے کی کوشش

فیکٹ فوکس کے ساتھ انٹرویو میں جنرل شفاعت نے اس بات پر زور دیا کہ اکبر آصف کی جنرل مشرف کے ساتھ میٹنگ میں انکا واحد کردار اس وقت وہاں موجود ہونا تھا تھا اکبر مشرف کو فلم کا پرنٹ دے رہے تھا یا اس موقع پر بنائی گئی تصویر میں انکا آ جانا۔ انکا کسی بھی طور پر یہ میٹنک ارینج کروانے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ جب فیکٹ فوکس نے ان سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک اہم بھارتی بزنس مین کی میٹنگ جنرل مشرف، جو اس وقت صدر کے عہدے پر غیر آئینی طور پر قابض تھے، سے ہو جائے اور انکے ملٹری سیکریٹری کو معلوم ہی نہ ہو۔ جنرل شفاعت نے کہا کہ ایسا ہی ہوا تھا اور یہ میٹنگ اس وقت برطانیہ میں پاکستان کی ہائی کمیشنر ملیحہ لودھی نے ’’بیگم صاحبہ‘‘ کے ذریعے کروائی تھی۔ یہاں ’’بیگم صاحبہ‘‘ سے جنرل شفاعت کی مراد جنرل مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف سے تھا۔ جنرل شفاعت نے اس حوالے کوئی ثبوت یا مزید کوئی شواہد پیش نہیں کیے۔

ملیحہ لودھی کی دو ٹوک تردید

ملیحہ لودھی جو کہ اس وقت لندن میں پاکستان کی ہائی کمشنر تھیں نے فیکٹ فوکس کے رابطہ کرنے پر کہا کہ انکے دفتر کا اس میٹنگ سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہ تھا۔

جنرل شفاعت کا مجموعی ردّ عمل

جنرل شفاعت کا کہنا تھا کہ یہ اہم نہیں ہے کہ فارن پراپرٹیز کو حاصل کرنے بعد فوراً ڈیکلیئر بھی کیا جائے۔ انہوں نے فیکٹ فوکس سے انٹرویو میں کہا کہ بہت سے لوگ تو اثاثے ظاہر ہی نہیں کرتے۔ جنرل شفاعت نے تبصرہ کیا کہ نواز کے لندن اپارٹمنٹس کے حوالے سے خبروں کا آنا درست تھا چونکہ وہ یہ فلیٹ خریدنے کیلیے استعمال کی گئی رقم کی منی ٹریل نہیں دے سکے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انکے پاس مکمل منی ٹریل ہے۔ تاہم فیکٹ فوکس کو وہ ایسی کوئی بھی منی ٹریل نہ دے سکے۔ جنرل شفاعت کا کہنا تھا کہ کوئی ان سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ انہوں نے کون سی فارن پراپرٹی کب ڈیکلیئر اور کب نہیں۔ ’’میں نے جب مناسب سمجھا ڈیکلیئر کر دیا،‘‘ جنرل شفاعت نے فیکٹ فوکس کو جواب دیا۔

فوجی جرنیل کے غلط ثابت ہو جانے والے دعوے

دوہزار اکیس میں اپنے لندن اپارٹمنٹ کے بارے میں خبر آنے کے بعد جنرل شفاعت نے چھ مختلف وجوہات بیان کر کے اس فلیٹ کے حاصل کرنے کا دفاع کیا۔ فیکٹ فوکس نے ان تمام چھ نکات پر تحقیقات کی ہیں۔

i۔ لندن اپارٹمنٹ اپنے بیٹے کی تعلیم کیلیے خریدا

جب جنرل شفاعت نے لاہور کا کور کمانڈر ہوتے ہوئے بھارتی بزنس مین سے اپنی بیوی کے نام پر لندن میں اپارٹمنٹ حاصل کرنے کا اعتراف کر لیا تو لوگوں نے سوال کیا کہ جب انکے پاس پاکستان سرکاری رہائش گاہوں کے ساتھ ساتھ اپنی پرائیویٹ پراپرٹیز اور گھر تھے تو لندن میں اپارٹمنٹ کیوں لیا۔ اس کو جواب دیتے ہوئے جنرل شفاعت نے کہا کہ یہ اپارٹمنٹ انہوں نے اپنے بیٹے کی برطانیہ میں تعلیم کیلیے حاصل کیا۔

پنڈورا پیپرز رپورٹ ہونے کے بعد جنرل شفاعت کے چند ٹویٹس (ٹویٹ کا لنک)

پاکستان کی سرکاری دستاویزات ثابت کرتی ہیں کہ جنرل شفاعت کے واحد بیٹے رضا سن دوہزارسات میں اپارٹمنٹ حاصل کرتے وقت صرف چودہ سال کی عمر کے تھے۔ اس وقت انکے اکیلے بیرونِ ملک رہ کر تعلیم حاصل کرنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔

پنڈورا پیرز کے بعد کی تحقیقات کی فائل میں لگی رضا شاہ کے پاسپورٹ کی کاپی۔

مختلف سرکاری دستاویزات کے مشاہدہ سے یہ بات پتا چلی کہ جنرل شفاعت کے بیٹے نے برطانیہ سے تو کبھی تعلیم حاصل کی ہی نہیں اور دراصل وہ ایک امریکی یونیورسٹی سے پڑھے، جب فیکٹ فوکس نے جنرل شفاعت سے یہی سوال کیا تو انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے بیٹے نے نیویارک میں نیویارک یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔

دستاویزات سے یہ بھی ثابت ہوا رضا کا امریکی یونیورسٹی میں داخلہ لندن اپارٹمنٹ خریدے جانے کے تقریباً چار سال بعد ہوا۔ پاکستان میں سرکاری دستاویزات یہ بھی ثابت کرتی ہیں کہ رضا دوہزار سات میں صرف تیرہ دن، دوہزار آٹھ میں تیس دن اور دوہزارنو میں سولہ دن پاکستان سے باہر رہے۔ دوہزاردس میں چھ اگست سے پندرہ اکتوبر تک وہ تقریباً دوماہ دس دن پاکستان سے باہر رہے۔ ایسے میں ان سالوں میں بیرون ملک تعلیم والی بات غلط ثابت ہوتی ہے۔

برطانوی شہریت

فیکٹ فوکس کے ساتھ انٹرویو میں جنرل شفاعت نے لندن میں اپارٹمنٹ خریدنے کا ایک اضافی جواز یہ بھی پیش کیا کہ انکی بیٹی انکے ایک کورس پر برطانیہ میں ہونے کی وجہ سے وہاں پیدا ہوئی اور برطانوی شہری ہے۔ یہ اپارٹمنٹ حاصل کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ اسکو سہولت ہو۔

پاکستانی حکومت کے ایک محکمے کے ریکارڈ میں موجود ماہا شاہ کے ایک پرانے پاسپورٹ پر اُن کی جائے پیدائش واضح طور پر ’’لاہور‘‘ لکھی ہوئی ہے۔ یہ بات معاملات کو بہت زیادہ الجھا رہی ہے۔ یا تو ماہا شاہ نے اپنا پاسپورٹ بنواتے ہوئے پاسپورٹ اتھارٹیز کو غلط معلومات فراہم کیں یا پھر فیکٹ فوکس کے ساتھ اپنے انٹرویو میں جنرل شفاعت سچ نہیں بول رہے تھے۔

ایک حکومتی محکمے کے ریکارڈ میں موجود ماہا شاہ کے ایک پرانے پاسپورٹ کی کاپی جس میں انکی جائے پیدائش ’’لاہور‘‘ لکھی ہوئی ہے۔ فیکٹ فوکس کے ساتھ اپنے انٹرویو میں جنرل شفاعت نے اپنی بیٹی ماہا شاہ کی جائے پیدائش ’’برطانیہ‘‘ بتائی تھی۔

فیکٹ فوکس نے برطانوی امیگریشن قوانین کے ماہرین سے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کی برطانیہ انیس سو تراسی کے بعد سے برتھ نیشنیلیٹی رائٹ دیتا ہی نہیں ہے۔ جنرل شفاعت کی بیٹی ماہا شاہ مئی انیس سو پچاسی میں پیدا ہوئیں۔ ان ماہرین کے مطابق یہ ضروری ہے کہ پیدا ہونے والے بچے کے والدین میں سے کوئی ایک یا دونوں برطانوی شہری ہوں یا دونوں والدین برطانیہ میں مستقل سکونت کا اسٹیٹس رکھتے ہوں۔ ان دو میں سے کوئی ایک صورت ہو گی تو بچے کو برطانوی شہریت ملے گی ورنہ نہیں۔ جنرل شفاعت نے فیکٹ فوکس کو یہ تو نہیں بتایا کہ انکی اہلیہ بھی برطانوی شہری ہیں مگر جو وہ کہہ رہے ہیں وہ اس کے بغیر قانونی طور پر ممکن نظر نہیں آتا۔

دوسری طرف پاکستان میں متعلقہ یونین کونسل کے ریکارڈ کے مطابق ماہا شاہ کے پیدائش کے ریکارڈ میں ایک خانہ ڈاکٹر؍مڈوائف کے آگے ’’فرحت‘‘ لکھا ہوا ہے۔ اس سے یہ معمہ مزید پچیدہ ہو گیا۔

ii- سب کچھ ایف بی آر اور فوجی حکام کو رپورٹ کیا

جنرل شفاعت نے یہ دعوٰی بھی کیا کہ انہوں نے سب کچھ ایف بی آر اور فوجی حکام کو رپورٹ کیا۔ فیکٹ فوکس نے جنرل شفاعت کی فیملی کے سب افراد کے ایف بی آر کے ٹیکس ریکارڈ کا بغور مشاہدہ کیا۔ انکا یہ بالکل غلط ہے۔ انہوں نے بیرون ملک اثاثے ٹیکس حکام سے مسلسل چھپائے۔ جب پانامہ پیپرز اور دبئی لیکس آ جانے کے بعد کچھ ڈیکلیئر بھی کیا تو اثاثوں کی قیمتیں بہت کم بتائیں۔ ان اثاثوں کو حاصل کرنے کیلیے ذرائع آمدن ایسے بتائے جن کی سمجھ ہی نہیں آتی۔

جہاں تک فوجی حکام کو اپنے بیرونِ ملک اثاثے بتانے کا تعلق ہے تو یہ بات تو ایک مذاق ہے۔ ملک کا قانون اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ فوجی جرنیل دنیا بھر اثاثے بنائیں، ایف بی آر سے چھپائیں اور جی ایش کیو کے کسی کونے میں بیٹھے کسی کلرک کو بتا دیں کہ ہم نے فلاں فلاں ملک میں فلاں فلاں اثاثے بنا لیے ہیں۔ اگر پاک فوج جی ایچ کیو راولپنڈی میں ایسا کوئی بھی ریکارڈ رکھتی ہیں اسے فوری طور پبلک کر دینا چاہیے تا کہ عام پاکستان فوجی جرنیلوں کے بیرونِ ملک اثاثوں کے بارے میں حقائق سے آگاہ ہو سکیں۔

iii- دوہزار سترہ میں ڈرامائی ڈیکلیریشنز

پانامہ پیپرز اور دبئی لیکس کے بعد جنرل شفاعت کے خاندان نے بیرون ملک کے چند اثاثے ڈیکلیئر تو کر دیے مگر اس عمل مزید بہت سے سوالات کھڑے کر دیے۔ جیسے رضا نے لکھا کہ لندن اپارٹمنٹ میں اس نے ایک لاکھ پچپن ہزار پائونڈ کی سرمایہ کاری کی جو اسکو اس کے والد نے تحفہ میں دیے، جبکہ جنرل شفاعت کے ٹیکس ریکارڈ میں دوہزار سات یا دوہزار دس میں ایسا کوئی تحفہ دینے کا ذکر نہیں ہے۔ لندن اپارٹمنٹ حاصل کرنے کے بعد سے اگلے دس سال میں جنرل شفاعت نے جو سالانہ ٹیکس ادا کیے انکی تفصیل کچھ یوں ہے۔

2007: Rs73,785

2008: Rs59,278

2009: Rs93,993

2010: Rs195,432

2011: Rs50,622

2012: Rs48,500

2013: Rs48,500

2014: Rs370,059

2015: Rs375,841

2016: Rs180,965

2017: Rs938,907

2018: Rs2,291,245



اس کے باوجود کہ جنرل شفاعت نے اپنے بیرونِ ملک اثاثے چھپانے کا سلسلہ سن دوہزارسترہ کے بعد بھی جاری رکھا مگر واضح طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ہے کہ پانامہ پیپرز کی رپورٹنگ نے بہت کچھ بدل دیا۔ ٹیکس کی ادائیگی میں کئی سو گنا کا اضافہ ہوا۔

iv- ڈی ایچ اے لاہور کا پلاٹ بیچ کر لندن اپارٹمنٹ کی خرید

جنرل شفاعت نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ انہوں نے اپنا ڈی ایچ اے لاہور میں پلاٹ بیچ کر لندن اپارٹمنٹ خریدا۔ تاہم ان کے ٹیکس ریکارڈ کے باریک بینی سے مشاہدے کے بعد بھی ایس کسی بات کا پتا نہیں چلتا۔ دراصل، جنرل شفاعت کے اس دعوے کے برعکس، انکی اہلیہ کا یہ دعوٰی کہ اپارٹمنٹ خریدنے کیلیے رقم دراصل انکو انکے والد نے تحفہ کے طور پر دی تھی، زیادہ دلچسپ ہے۔

جنرل شفاعت کے بیانات میں تضادات اور دورانِ انٹرویو بنیادی مئوقف تبدیل کرنا

جنرل شفاعت جو فیکٹ فوکس کے ساتھ انٹرویو میں یہ بنیادی پوزیشن لے چکے تھے کہہ انکی اہلیہ کا اس سارے معاملے میں صرف نام استعمال ہوا اور یہ کہ یہ لندن کا اپارٹمنٹ انہوں نے خود خریدا جس کیلیے رقم کی مکمل ادائیگی انہوں نے اپنا ڈی ایچ اے لاہور کا ایک پلاٹ بیچ کر لاہور میں ایک شخص کو کی۔ جب انہیں بتایا گیا کہ انکی اہلیہ نے اپنے دوہزارسترہ کے سالانہ ٹیکس ریٹرنز میں یہ بتایا کہ لندن اپارٹمنٹ خریدنے کیلیے انکے حصے کے پیسے ایک لاکھ پچپن ہزار پائونڈ انکو انکے والد نے تحفے میں دیے، جنرل شفاعت نے فوراً کہا یہ بھی درست ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکے سسر برگیڈئر ریٹائرڈ لیاقت اسرار بخاری کا لندن میں چالیس سال سے ایک بنک اکائونٹ تھا، انہوں نے اسی اکائونٹ میں سے پسے دیے تھے۔ فیکٹ فوکس نے لیاقت اسرا بخاری کا ٹیکس ریکارڈ کا معائنہ کیا۔ دوہزار سات یا دوہزار آٹھ کے سالانہ گوشواروں میں انہوں نے اپنی بیٹی فریحہ شاہ کو ایسا کوئی بھی تحفہ دینے کا ذکر نہیں کیا اور نہ ہی فریحہ شاہ صاحبہ ان سالوں میں اپنے والد صاحب سے ایسا کوئی تحفہ لینے کا ذکر کیا ہے۔ جس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ محترم لیاقت اسرار بخاری صاحب جو اب اس دنیا میں نہیں رہے کا نام ناجائز طور پر اس کیس میں استعمال کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

vi- لندن کا اپارٹمنٹ بیوی کے نام پر کیوں خریدا؟

جب صحافیوں نے جنرل شفاعت سے سوال کیا کہ جب وہ لندن اپارٹمنٹ لے ہی رہے تھے تو انہوں نے اپنے نام پر کیوں نہ لیا اور اپنی بیوی کا نام کیوں استعمال کیا؟ اس پر جنرل شفاعت نے جواب دیا کہ انکے اپنے نام پر کافی اثاثے تھے جبکہ انکی بیوی کے نام پر کوئی اثاثہ نہ تھا اس لیے انہوں نے لندن اپارٹمنٹ اپنی بیوی کے نام پر خریدا۔

فیکٹ فوکس نے جب انکے ٹیکس ریکارڈ کا باریک بینی سے جائزہ لیا تو پتا چلا کہ جنرل شفاعت نے دوہزار چھ میں، جب وہ جنرل مشرف کے ملٹری سیکریٹری تھے، اپنی اہلیہ فریحہ شاہ کو وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ایک کینال کا ایک پلاٹ تحفے میں دیا تھا۔ یہ پلاٹ فریحہ شاہ نے اپنے دوہزار انیس کے سالانہ ٹیکس گوشواروں میں ظاہر بھی کیا ہے۔ اس سے جنرل شفاعت کا لندن اپارٹمنٹ کے حوالے سے یہ چھٹا دعوٰی بھی غلط ثابت ہوتا ہے۔

فریحہ شاہ کے دوہزارانیس کے سالانی ٹیکس ریٹرنز میں لگائی گئی ویلتھ اسٹیٹمنٹ کے ایک حصے کا عکس

البتہ یہ بات بھی اہم ہے کہ سال دوہزار چھ میں حاصل کر لینے کے باوجود فریحہ شاہ نے تیرہ سال یعنی دوہزار انیس تک یہ پراپرٹی پاکستان کے ٹیکس حکام سے کیوں چھپائے رکھی۔

پاکستانی فوجی جرنیلوں کے انڈر ایٹ ٹین ارب پتی بچے

رضا نے اپنی اٹھارویں سالگرہ جنوری دوہزاردس میں منائی۔ انہوں نے دس جولائی دوہزار چودہ میں اپنی سالانہ ٹیکس فائلنگ شروع کی۔ تاہم انہوں نے طلاح لمیٹڈ آفشور کمپنی کے ڈائریکٹر کے طور پر اپنی اٹھارویں سالگرہ کے چار ماہ بعد چوبیس مئی دوہزار دس کو ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اٹھارہ سال چار ماہ کی عمر میں یہ ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے رضا نے اپنا ذریعہ آمدن ’’شیئر ہولڈرز فنڈ ماضی کی آمدن‘‘ بتایا۔ فیکٹ فوکس تمام تحقیق کے باوجود اٹھارہ سال سے کم عمر بچے کے ایسے ذرائع آمدن کا پتا نہیں چلا سکی جس اس چھوٹی سی عمر میں کروڑوں روپے اکھٹے کیے جا سکتے ہوں۔

جنرل شفاعت، فریحہ شاہ اور رضا شاہ کے پاکستان میں ظاہر کردہ اثاثے

شفاعت، فریحہ اور رضا کے سالانہ گوشواروں میں انکی بہت سی جائیدادوں کا ذکر ملتا ہے۔ اپنی ایک حالیہ ڈیکلیریشن میں انہوں نے پاکستان میں اپنے مندرجہ ذیل اثاثوں کا ذکر کیا ہے۔ یہاں بنک اکائونٹس اور انوسٹمنس کا ذکر نہیں کیا جارہا۔

شفاعت اللہ شاہ

1-

117, Sarwar, Colony, Lahore

2-

129, Defence Raya Golf & Country Club, DHA, Lahore

3-

Plot No. 3-4A, Street G,Phase III, Sangar Housing Scheme, Gawadar

4-

Plot no 414 block MB Phase 6C, DHA, Lahore

5-

One Kanal Plot # 858Q Phase IX, DHA, Lahore

6

– 392, Phase Z, DHA, Lahore

فریحہ شاہ

1-

Plot # 9P, A/000923, DHA, Lahore

2-

8 Marla Commercial plot # 90A, DHA, Lahore

3-

01 kanal land, village Dora Mori, Islamabad (Gifted by husband in 2006)

4-

1, TUFAIL ROAD, Lahore Cantt

5-

plot, DHA Phase 6, LHR Cantt

6-

Gawadar, Ind Area

7-

74, H Block, Phase-1, Commercial Area

رضا اللہ شاہ

1-

8 Marla Commercial Plot No 26 B, DHA, Commercial Broadway, Phase-VIII, Lahore

2-

Commercial Plot – Plot No 25 B DHA, Commercial Broadway, Phase-VIII, Lahore

______________________________________________________

اشتہار

تحقیقاتی صحافت کو آگے بڑھائیں۔

امریکہ اور یورپ میں رہنے والے "گوفنڈمی” کے اس لنک پر جائیں اور فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپئن میں اپنا حصہ ڈالیں۔

https://gofundme.com/FactFocus

پاکستان اور گلف ممالک میں رہنے والے اس لنک پر جا کر فیکٹ فوکس کی تحقیقاتی صحافت کو سپورٹ کریں

https://www.patreon.com/FactFocus

[فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپیئن کی ویڈیو دیکھیں۔]

_____________________________________________________

نوٹ: تیرہ مارچ دو ہزار تئیس کو خبر میں ماہا شاہ کے ایک پرانے پاسپورٹ میں انکی جائے پیدائش کے اندراج حوالے سے تین فقروں کا اضافہ کیا گیا۔

Scroll to Top