وزارت داخلہ نے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت پشتون تحفظ موومنٹ کو کالعدم قرار دے دیا

وزارت داخلہ حکومت پاکستان نے پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی عائد کردی۔ پی ٹی ایم پر پابندی انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت لگائی گئی، جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن اتوار کے روز جاری کردیا گیا۔

نوٹیفکیشن میں پی ٹی ایم کو ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے اور امن و امان کے لیے خطرہ بننے والی تنظیم قرار دے کر کالعدم قرار دے کر پابندی عائد کی گئی ہے۔

وزارت داخلہ کی جانب سے نوٹیفیکیشن  جاری کرنے کے بعد اس پر عمل درآمد کیا جائے گا۔وزارت داخلہ کی جانب سے اتوار کو جاری کیے جانے والے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ ٹھوس شواہد کی روشنی میں پشتون تحفظ موومنٹ پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا ہے، پی ٹی ایم ملک دشمن بیانیے اور انارکی پھیلانے میں ملوث ہے.

نوٹیفکیشن میں مزید کہا گیا کہ پی ٹی ایم ملک میں امن و امان اور سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے، 1997 کے انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 11 بی کے تحت پی ٹی ایم پر پابندی عائد کی جاتی ہے۔

اس سے قبل بھی پشتون تحفظ موومنٹ کو متعدد بار حکومت کی جانب سے کالعدم جماعت قرار دیا جاچکا ہے۔رواں سال اگست میں حکومت بلوچستان کی جانب سے 90 دن کے لیے پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین پر صوبے کے تمام اضلاع میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی تھی۔چند روز قبل پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور سے بھی ملاقات کی تھی اور انھیں پشتون قومی عدالت میں شرکت کی دعوت بھی دی تھی۔

پشتون تحفظ موومنٹ کی بنیاد مئی 2014 میں رکھی گئی تھی اور تب اس کا نام محسود تحفظ موومنٹ تھا تاہم 4 سال بعد جنوری 2018 میں نام تبدیل کرکے پشتون تحفظ موومنٹ رکھ دیا گیا۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین ہیں۔ رکن اسمبلی علی وزیر سمیت اس تنظیم کے متعدد رہنما سنگین الزامات پر جیل میں ہیں جب کہ ایک رکن اسمبلی اور مرکزی رہنما محسن داوڑ نے 2021 میں پی ٹی ایم  سے علیحدہ ہوکر نئی جماعت بنانے کا اعلان کیا.

پی ٹی ایم کچھ دوستوں کی بنائی ہوئی تنظیم ہے۔پاکستان کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں امن و امان کی ابتر صورتحال کے کے نتیجے میں  محسود قبائل کے مطالبات کے لیے بنائی گئی ۔

2017 میں ہی محسود تحفظ موومنٹ کا نام تبدیل کر کے پشتون تحفظ موومنٹ رکھ دیا گیا۔

پی ٹی ایم کے مظاہروں اور جلسوں میں حکومتی پالیسیوں اور پاک فوج کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔جس پر حکومت نے 2018 میں پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کا اعلان کیا اور پی ٹی ایم راہنماوں سے حکومتی شخصیات نے ملاقاتیں کرنا شروع کیں۔

پی ٹی ایم کے راہنما محسن داوڑ اور علی وزیر 2018 کے انتخابات میں رکن قومی اسمبی بھی منتخب ہوئے۔اس دوران ملک بھر میں میڈیا پر پی ٹیم کا غیر اعلانیہ بلیک آوٹ جاری رہا۔جبکہ منتخب رکن قومی اسمبلیی علی وزیر نے بطور رکن اسمبلی کا تمام دورانیہ جیل میں ہی گزارا جبکہ محسن داوڑ اور پی ٹی ایم کے کئی سرگرم ساتھیوں نے پی ٹی ایم سے الگ ہو گئے۔ 2021 میں پی ٹی ایم کے بانی رکن محسن داوڑ نے نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے ایک نئی سیاسی جماعت بنا لی۔تاہم  پی ٹی ایم کی تقریبات اور جلسوں میں بھی محسن داوڑ سمیت ان کی پارٹی کے لوگ بدستور شریک ہوتے رہے ہیں۔

پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین اور دیگر ساتھیوں کو متعدد مرتبہ گرفتار بھی کیا گیا۔ریاست کی طرف سے منظور پشتین اور ان کی تنظیم پر بیرون ممالک سے فنڈنگ لینے اور ملک میں لسانی فسادات پیدا کرنے کے الزامات بھی لگائے گئے۔ پاکستان فوج کی جانب سے ماضی میں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ ’پی ٹی ایم کو پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے لیے بیرون ملک سے فنڈنگ ملتی ہے۔

پی ٹی ایم نے ضلع خیبر میں آئندہ ہفتے 11 اکتوبر کو "’پشتون عدالت جرگہ‘ کے نام سے ایک جرگہ منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔جس میں ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں، سماجی شخصیات اور سیاسی رہنماؤں کو دعوت دی گئی ہے۔

اسی جرگے کے منتظمین کے خلاف حالیہ دنوں میں سیکورٹی اداروں کی طرف سے کریک ڈاؤن بھی کیا گیا تھا، جس کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی۔ دوران سماعت پشاور ہائی کورٹ نے پی ٹی ایم کو جرگہ کرنے کی اجازت دی تھی۔