احتجاج اور ہڑتال: مظاہرین نے آزاد کشمیر بھر کے داخلی مقامات آمد و رفت کے لیے بند کر دیئے

آزاد کشمیر میں مظاہرین مظاہرہ کرتے ہوئے

آزاد جموں و کشمیر کو پاکستان سے ملانے والے تمام راستے احتجاجی مظاہرین نے بند کر دیئے۔کشمیر کے تمام اضلاع میں ہفتے کے روز سے کاروباری مراکز اور بازار بند ہیں۔ہفتہ کے روز بعد دوپہر مظاہرین نے برارکوٹ، کوہالہ، دھیرکوٹ، آزاد پتن، اور أزاد کشمیر کو پاکستان سے ملانے والے راستوں پر دھرنے دے دیئے۔احتجاج عوامی ایکشن کیمیٹی کی جانب سے کیا جا رہا۔جس میں حال ہی میں نافذ کردہ صدارتی آرڈیننس کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جا رہا۔

عوامی ایکشن کمیٹی کا موقف:


عوامی ایکشن کمیٹی کے دھیر کوٹ سے رکن راجہ غلام مجتبی نے حقائق سے کفٹگو کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت کی جانب سے تمام مطالبات پر عمل درآمد ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔

رکن عوامی ایکشن کمیٹی نے کہا کہ حکومت کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارنہ ہے۔احتجاج سے قبل عوامی ایکشن کمیٹی کے حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے۔ حکومت نے مطالبات تسلیم تو کر لیے مگر ان پر عمل درأمد کرنے سے گریزاں تھی۔حکومت شاید سارے آزاد کشمیر کی بندش کا انتظار کر رہی تھی۔

راجہ غلام مجتبی نے کہا ہمیں رواں سال فروری میں ہونے والے احتجاج کے موقع پر جو معائدہ حکومت سے ہوا تھا اس پر بھی ابھی تک مکمل عمل در آمد نہیں ہو سکا۔ تاہم اب احتجاج کے خاتمے کے لیے صدارتی أرڈیننس کو واپس لینے اور گرفتار افراد کی رہائی کے علاوہ ہمارے دیگر مطالبات بھی تسلیم کرنا ہوں گے۔

آزاد کشمیر حکومت کیا کہتی ہے؟

آزاد جموں و کشمیر کے وزیر اطلاعات نے حقائق سے خصوصی گفتکو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کمزور نہیں ہے اور نہ ہی دباو کا شکار ہے تاہم احتجاجی مظاہرین کے ساتھ شفقت کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔حکومت کے 5 وزارا نے احتجاجی مظاہرین کی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کے 2 ادوار کیۓ ہیں۔حکومت نے مذاکرات کے دوران عوامی ایکشن کمیٹی کے تمام مطالبات تسلیم کر لئے ہیں۔ان مطالبے پر مظفر آباد میں مذکورہ آرڈیننس کی خلاف ورزی پر گرفتار شدہ تمام افراد رہا کر دیئے گئے ہیں۔جبکہ دیگر اضلاع میں گرفتار افراد کی رہائی کے احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا مذاکرات میں ڈیڈ لاک یا ناکامی کا تاثر درست نہیں ہے۔مذاکرات کے طے کردہ اور تسلیم کردہ تمام معاملات پر عمل درآمد کیا جائے گا۔اس عمل درآمد کی نگرانی کے لیے عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں، وکلا، تاجروں، صحافیوں، علما، حکومتی نمائندوں اور دیگر پر مشتمل ایک کمیٹی بنانے کی تجویز بھی حکومت کی طرف سے دی گئی ہے۔تاہم معالات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی ذمہ داری عوامی ایکشن کمیٹی پر ہے۔کیونکہ حکومت کی طرف سے ان کے تمام مطالبات تسلیم کرنے اور ان پر عمل درآمد کی یقین دہانی دے دی گئی ہے۔

پیر مظہر سعید شاہ نے کہا کہ حکومت کسی دباو کا شکار ہر گز نہیں ہے۔

وزیر اطلاعات نے مزید بتایا کہ موجودہ احتجاج صدر ریاست کی طرف سے ایک آرڈیننس جاری کرنے کے نتیجے میں شروع ہوا۔صدر کی طرف سے جاری کردہ آرڈیننس ریاست میں اجتجاج کرنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے تھا۔جس کے تحت احتجاج کرنے والے افراد احتجاج سے قبل حکومت کو اس کے وقت اور مقام کی معلومات فراہم کرنے کے پابند قرار دیئے گئے تھے۔ یہ معلومات حکومت کو احتجاجی مظاہرین کے لیے قبل ازوقت تحفظ فراہم کرنے کے اقدامات لینے میں معاون ثابت ہوتیں۔اس کے علاوہ دوران احتجاج مریضوں، طلبہ طالبات اور دیگر افراد کو احتجاج کے مقام سے متبادل راستہ فراہم کرنے کے لیے اقدامات لینے میں بھی مددگار ہوتیں۔مگر آرڈیننس کے نفاذ کے بعد سپریم کورٹ نے اس کو غیر قانونی قرار دے دیا۔حکومت نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے قبول کر لیا تھا۔

آزاد کشمیر میں ہڑتال اور احتجاجی لانگ مارچ:

آزاد جموں و کشمیر میں عوامی حقوق کی وکالت کرنے والے سول سوسائٹی عوامی ایکشن کمیٹی نے جمعہ کے روز اعلان کیا تھا کہ وہ ہفتے کے روز علاقے کے داخلی راستوں کی طرف لانگ مارچ کرے گی۔اس سے قبل ایک وزارتی ٹیم جمعرات کو دیر گئے مظفرآباد میں عوامی ایکشن کمیٹی کی کور کمیٹی کے ساتھ ابتدائی بات چیت میں مصروف رہی۔جس بعد کمیٹی کے ارکان نے اعلان کیا کہ پورے خطے میں مکمل پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال ہو گئی۔سول سوسائٹی اتحاد نے عوام سے جمعہ کی دوپہر تک ہڑتال جاری رکھنے کا مطالبہ کیا۔

جمعہ کو پورے خطے میں جزوی اور پرامن ہڑتال کی گئی۔جب کہ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کم تھی، بڑے راستوں پر پبلک ٹرانسپورٹ معطل رہی اور کئی شہری دکانیں بند رہیں۔مقامی ذرایع ابلاغ کے مطابق باغ کے تاجروں نے احتجاجی منصوبوں کے درمیان لاک ڈاؤن کو مسترد کر دیا ہے۔