راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ 14 دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک اور بائیکاٹ مہم کا آغاز کریں گے۔ انہوں نے اپنی جماعت کے سیاسی قیدیوں کی رہائی اور 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی شفاف تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی تشکل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو وہ چودہ دسمبر سے سول نافرمانی کی تحریک اور بائیکاٹ مہم کا آغاز کریں گے۔
عمران خان نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ حکومت کے ساتھ بات چیت کے لیے ایک پانچ رکنی مذاکراتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔اگر مذاکرات ناکام ہوتے ہیں تو انہوں نے خبردار کیا کہ حکومت کو نتائج کی ذمہ داری اٹھانی پڑے گی۔عمران خان نے اپنی پوسٹ میں کہا، ”سول نافرمانی تحریک کے ایک حصے کے طور پر، ہم بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے کہیں گے کہ وہ ترسیلات زر میں کمی کریں اور بائیکاٹ کی مہم شروع کریں۔دوسرے مرحلے میں، ہم اپنے اقدامات کو مزید بڑھائیں گے۔
عمران خان نے 2014 میں بھی سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تھی۔ انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کے خلاف ایک ایسی ہی مہم کی قیادت کی تھی، جس میں انہوں نے ڈی چوک پر دھرنے کے دوران خطاب کرتے ہویے بجلی کا بل پھاڑتے ہوئے اپنےحامیوں سے کہا تھا کہ وہ ٹیکس اور یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی روک دیں۔ اس موقع پر یوٹیلیٹی بلز کو جلانے کے مظاہرے بھی کیے گئے۔تاہم گھر جا کر عمران خان نے اپنے دونوں گھروں کے بل ادا کر دیئے تھے۔ان کے قول و فعل کے اس تضاد کے نتیجے میں سول نافرمانی کی تحریک مکمل طور پر ناکام ہو گئی تھی۔
کیا پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت سول نافرمانی کرے گی؟
قانونی ماہرین کے مطابق سول نافرمانی کی تحریک ایک طرح سے ملک سے غداری کے زمرے میں آتی ہے۔ تو ایسے میں اہم یہ ہے کہ کیا پی ٹی آئی کی خیبر پختونخواہ کی حکومت اور حکمرانوں کا سول نافرمانی کی تحریک میں شامل ہونا ممکن ہے؟ سوموار کے روز وزیر اعلی علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ ابھی تک سول نافرمانی کی تحریک کے حوالے سے کچھ طے نہیں ہوا ہے۔جب بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات ہوگی پھر اس معاملے پر مشاورت کریں گے۔پشاورمیں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سول نافرمانی میں شامل ہونے یا اس کی حمایت کرنے کا عندیہ نہیں دیا تاہم اس تحریک کی مشاورت میں شریک ہونے کا اقرار ضرور کیا ہے۔
پاکستان میں سول نافرمانی کی تاریخ :
مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمٰن نے 1970 کے انتخابات کے نتائج تسلیم کروانے کے لیے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کا اعلان کیا تھا۔اس تحریک کے دوران ڈھاکہ سمیت مشرقی پاکستان میں پہیہ جام ہڑتال کی گئی تھی۔جس کے بعد حکومت نے فوجی آپریشن ’سرچ لائٹ‘ کا آغاز کیا تھا۔
بعد ازاں ’1977 میں پاکستان قومی اتحاد نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان کیا، 1977 کے انتخابات کے نتائج میں قومی اسمبلیوں کی 200 نشستوں میں 100 پر پیپلزپارٹی نے کامیابی حاصل کی۔
’صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والے پاکستان قومی اتحاد نے قومی اسمبلی میں 36 نشستیں حاصل کیں اور نتائج کو مسترد کر دیا۔ پھرسول نافرمانی کی تحریک شروع کی۔‘ پاکستان قومی اتحاد نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پر دھاندلی کا الزام لگایا اور پارٹی کے صدر کے ساتھ ساتھ چیف الیکشن کمشنر کے استعفے کا بھی مطالبہ کیا۔ اس کے علاوہ قومی اتحاد نے دوبارہ الیکشن کا مطالبہ بھی کیا۔
۔2014 میں عمران خان نے ڈی چوک پر دھرنے کے سٹیج سے سول نافرمانی کی تحریک چلانے کا اعلان کیا اور کہا کہ جب تک نواز شریف مستعفی نہیں ہوتے اس وقت تک بجلی، گیس کے بل اور دیگر سرکاری واجبات ادا نہیں کیے جائیں گے۔اس اعلان کے بعد خود عمران خان نے اپنے بنی گالہ اور زمان پارک والے گھروں کے بل ادا کر دیئے تھے۔نتیجے میں تحریک مکمل ناکام ہو گئی کیونکہ اس سے حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔
سول نافرمانی تحریک کیا ہوتی ہے؟
سول نافرمانی کی تحریک عام طور پر حکومتی احکامات نہ ماننا اور کسی بھی حکومت کے خلاف شہریوں کی مالی بغاوت کو کہا جاتا ہے۔جس میں بیرون ملک مقیم شہریوں کا اپنے ملک میں ترسیلات زر نہ بھیجنا، بجلی، گیس، پانی سمیت حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سروسز کے بل ادا نہ کرنا یا ٹیکس اور محصولات کی ادائیگی روکنا، مالی بائیکاٹ کرنا اور قوانین کو تسلیم نہ کرنا شامل ہوتا ہے۔
بر صغیر میں سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز:
برصغیر میں سب سے پہلے سول نافرمانی تحریک کا آغاز مہاتما گاندھی نے مارچ 1930ءمیں برطانوی راج کےخلاف کیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق گاندھی نے احمد آباد سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سول نافرمانی کی تحریک شروع کی،انہوں نے یہ تحریک نمک کے بارے قانون سالٹ لاءکے خلاف شروع کی اورڈانڈہ مارچ بھی کیا جو سول نافرمانی کی تحریک کا حصہ تھا۔تاہم اس حطے میں سول نافرمانی کی کسی تحریک