پاکستان میں غیر قانونی طور مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی جاری، تعداد 8 لاکھ ہو گئی

پاکستان مین موجود افغان پناہ گزینوں کی واپسی

تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق واپس جانے والے افغان پناہ گزینوں کی کل تعداد 799,208 تک پہنچ گئی ہے۔وطن واپس جانے والے افغانیوں کے تازہ اعداد و شمار پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے ریڈیو پاکستان نے بدھ کے روز اپنی رپورٹ میں جاری کئے ہیں۔

ریڈیو پاکستان کے مطابق گزشتہ ماہ افغانستان روانگی کے لیے 710 گاڑیوں میں 760 خاندانوں کی اپنے وطن واپسی عمل میں لائی گئی ہے۔

غیر قانونی غیر ملکیوں بشمول افغانوں کی واپسی کا سلسلہ ایک سال سے جاری ہے۔ گزشتہ برس واپسی کے لیے مقرر کردہ 30 نومبر کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد بھی بڑی تعداد میں افغان واپس جا رہے ہیں۔ گزشتہ برس نگران دور حکومت میں جب غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم غیر ملکیوں کو اپنے وطن واپس بھیجنے کا اعلان ہوا تو چند حلقوں نے خدشات کا اظہار کیا تھا۔ل یکن ریاستی اداروں کی حکمت عملی کے باعث کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کے بغیر ان کی واپسی کا سلسلہ جاری ہے۔ نگران حکومت نے بھی اپنے اعلان میں یہ مثبت پیغام دیا تھا کہ ہم افغانیوں سمیت کسی بھی غیر ملکی کو پاکستان سے نکال نہیں رہے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ یہ واپس اپنے ملک جائیں اور پاسپورٹ اور ویزا لے کر قانونی طریقے سے پاکستان آئیں۔افغان حکومت چاہے تو اپنے باشندوں کو پاکستان میں قانونی طریقے سے بھیجنے کے لیے ویزا پراسس میں آسانیاں پیدا کر سکتی ہے جبکہ پاکستان کی جانب سے پہلے ہی اس ضمن میں لچک دکھائی جا رہی ہے.

پاکستان میں کتنے افغان مقیم ہیں؟

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین یو این ایچ سی آر کے مطابق پاکستان میں 13لاکھ سے زائد رجسٹرڈ افغان پناہ گزین موجود ہیں جن میں سب سے زیادہ (سات لاکھ) پشاوراور دوسرے نمبر پر (تین لاکھ)بلوچستان میں رہائش پذیر ہیں۔جبکہ پاکستان کی وفاقی وزارتِ داخلہ کے مطابق رجسٹرڈ کے علاوہ تقریباً 17لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان باشندے بھی پاکستان کے مختلف علاقوں میں مقیم ہیں جن کے پاس کسی قسم کی سفری یا قیام کی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق طورخم اور وزیرستان کے انگور اڈہ سرحدی مقامات کے ذریعے چھ اکتوبر سے یکم نومبر تک ایک لاکھ 30ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر مقیم افغان باشندے واپس جا چکے ہیں۔

افغان پناہ گزین گزشتہ تقریباً چار دہائیوں سے پاکستان بالخصوص پشاور میں چھوٹے بڑے کاروباروں سے وابستہ ہیں۔ پشاور میں بورڈ بازار کا نام بھی اسی وجہ سے منی کابل پڑ گیا تھا کیونکہ وہاں پر زیادہ تر کاروبار افغان پناہ گزینوں کے ہیں۔

کیا افغان پناہ گزینوں کی واپسی معیشت پر کوئی اثر پڑے گا؟

جرنل آف ہیومینٹیز سوشل اینڈ مینجمنٹ سائنسز کے 2021ء میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے کے لیے پشاور کے مصروف کاروباری مراکز کا سروے کیا گیا تھا اور یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ کس مرکز میں کتنے افغان پناہ گزینوں کی دکانیں ہیں۔ جس کے مطابق افغان جہاد کے بعد آنے والے افغان پناہ گزینوں میں تقریباً 60فیصد مزدور‘ 20فیصد کاروباری افراد اور پانچ فیصد ہنر مند افراد شامل تھے۔جبکہ باقی 15فیصد دیگر پیشوں سے وابستہ تھے۔ پاکستان پہنچنے والے افغان پناہ گزین تقریباً 25لاکھ مویشی بھی اپنے ساتھ لائے تھے۔ اُس وقت پناہ گزین پشاور سمیت ملک کے دیگر حصوں میں آباد ہونا شروع ہوئے تھے تاہم انہوں نے مختلف کاروباروں میں اپنے لیے جگہ بنا لی۔

یہ افراد افغانستان سے سمگل شدہ امپورٹڈ سامان کا کاروبار بھی کرنے لگے یوں پشاور اس سامان کی تجارت کے لیے ایک مرکزی منڈی بن گیا۔ آہستہ آہستہ ان پناہ گزینوں نے دیگر کاروباروں میں بھی اپنے پاؤں جمانا شروع کر دیے اور یوں زیادہ تر پناہ گزینوں نے بیرونی امداد کے بجائے خود کمانا شروع کر دیا۔ یہ سروے قصہ خوانی بازار‘ افغان کالونی‘ پشاور کنٹونمنٹ اور یونیورسٹی ٹاؤن کے علاقوں میں کیا گیا تھا۔

سروے کے مطابق قصہ خوانی بازار میں قالین کی صنعت میں 91فیصد‘چمڑے اور جوتوں کے کاروبار میں 33فیصد‘ ہوٹلوں اور ریستورانوں کے کاروبار میں 29فیصد ‘کپڑوں کے کاروبار میں 15فیصد حصہ افغان پناہ گزینوں کا ہے۔

افغان کالونی میں زیادہ تر استعمال شدہ اشیا بیچی جاتی ہیں جہاں 105دکانوں میں صرف دو دکانیں مقامی افراد جبکہ باقی سب افغان پناہ گزینوں کی تھیں۔ پشاور کنٹونمنٹ میں افغان پناہ گزینوں کی تعداد دیگر علاقوں کی نسبت کم تھی لیکن پھر بھی مختلف کاروباروں میں ان کا حصہ موجود تھا۔ ایک اندازے کے مطابق کنٹونمنٹ علاقے میں تقریباً 29فیصد کپڑے کے کاروبار کرنے والے افغان شہری تھے جبکہ کارپٹ اور انٹیکس (نایاب اشیا) کا کاروبار کرنے والوں میں 50فیصد افغان باشندے تھے۔ اسی طرح دستکاری سے وابستہ افراد میں 31فیصد افغانی تھے۔

یونیورسٹی ٹاؤن پشاور کے مصروف علاقے میں یو این ایچ سی آر کا دفتر بھی موجود ہے۔ اس علاقے میں کپڑے کے کاروبار سے وابستہ افراد میں 50فیصد‘ کارپٹ صنعت میں 83فیصد جبکہ ٹیلرنگ میں 53فیصد افغان پناہ گزین شامل تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ افغان پناہ گزین جب سے پشاور اور بلوچستان آئے ہیں‘ انہوں نے وہاں کوئی نہ کوئی چھوٹا بڑا کاروبار شروع کیا۔ اگر کسی کے پاس کم سرمایہ تھا تو وہ فروٹ منڈی سے پھل خرید کر ہتھ ریڑھی لگا کر پھل بیچتا تھا جبکہ زیادہ سرمایہ رکھنے والے افغان پناہ گزین بڑے کاروباروں سے وابستہ ہو گئے تھے۔ ان کے واپس جانے سے معیشت پر کم یا زیادہ اثر ضرور پڑے گا کیونکہ یہاں معیشت کردار ضرور تھا. افغان پناہ گزین جو خلا چھوڑیں گے پاکستان اور خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع سے لوگ یہی جگہ دوبارہ بھر سکتے ہیں.

پاکستان میں افغان شہریوں کی قانونی حیثیت:

اقوام متحدہ کے مطابق 2006 سے پہلے افغان پناہ گزینوں کو پاکستان میں رہنے کے لیے کسی قانونی شناختی دستاویز کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ 1980 کی دہائی میں انہیں حکومت کی جانب سے ایک پاس بُک (شناخت نامہ) جاری کی جاتی تھی اور وہی ان کی واحد شناخت تھی۔

2005 میں ‘یو این ایچ سی آر’ کے تعاون سے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی تفصیلی مردم شماری کروانے کے بعد انہیں رجسٹرڈ کیا گیا۔ رجسٹریشن کروانے والوں اس کے ثبوت پر مبنی کارڈ جاری کیے گئے جنہیں ‘پروف آف رجسٹریشن’ (پی او آر) کارڈ کہا جاتا ہے۔ ستمبر 2023 سے پہلے ملک میں ‘پی او آر کارڈ’ کے حامل لوگوں کی تعداد تقریباً 13 لاکھ 33 ہزار تھی۔ اس کارڈ کی مدت 31 دسمبر 2023 کو ختم ہو رہی ہے۔

اگست 2017 میں پاکستان نے افغان شہریت کے حامل ایسے تارکین وطن/پناہ گزینوں کو ‘افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) جاری کرنے کا آغاز کیا جن کے پاس ‘پی او آر’ کارڈ نہیں تھا۔ ‘یو این ایچ سی آر’ کے مطابق جنوری 2022 تک پاکستان میں ‘اے سی سی’ کارڈ کے حامل افغان شہریوں کی تعداد تقریباً 8 لاکھ 40 ہزار تھی۔ اس کارڈ کی بدولت غیررجسٹرڈ افغانوں کو پاکستان میں قیام کی سہولت ملی اور ملک بدری، حراست اور قید سے تحفظ حاصل ہوا۔

اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد تقریباً 7 لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان آئے۔ تاہم حکومت نے ان لوگوں کو رجسٹرڈ نہیں کیا۔ ان کے علاوہ کئی سال سے تقریباً 2 لاکھ ایسے افغان بھی پاکستان میں مقیم تھے جن کے پاس کوئی شناختی دستاویز نہیں ہے۔