شراب کے نشے میں دُھت ہو کر گاڑی سے شہری کو مارا، مصالحت کیلیے شہری کے فیملی ممبر کو اپنے سرکاری دفتر بلایا اور اُسے دفتر میں شراب آفر کی

سید حافظ قاسم منیر

دنیا بھر میں ڈرائیونگ کے دوران بندہ مار دینے پر نرم سزا صرف اس صورت میں ہوتی ہے اگر ڈرائیور کی غلطی نہ ہو اور واقعہ صرف ایک حادثہ ثابت ہو جائے۔ ڈرائیور کے شراب کے نشے میں ہونے کی صورت میں بد ترین سزا دی جاتی ہے۔ چند سال جیل کے بعد رہائی مل بھی جائے تو انسان ساری عمر کبھی کچھ بھی عزت سے نہیں کر سکتا۔ ملازمت تک نہیں ملتی، بنک قرضہ تک نہیں دیتے۔

شراب کے نشے میں ڈرائیونگ کرنا دنیا کے ہر مہذب ملک میں بدترین جرم ہے۔ ہمارے ہاں چند مفاد پرست علما نے اسلام کو نعوذبااللہ پوری تاریخی انسانی کا وہ واحد مذہب، اصول یا ضابطہ بنا دیا ہے جس کے تحت شراب پی کر قتل و غارت کر کے مقتولین کے خاندان کے افراد سے پیسوں کے بدلے صلح کر کے کہانی ہی ختم کر دی جاتی ہے۔ باقی تمام مذاہب اور نظاموں میں شراب پی کر کوئی بھی غلط حرکت کرنے پر سخت سزا ہوتی ہے۔ اگر قتل ہو جائے تو اسکی سزا بہت ہی سخت ہوتی ہے۔ واقعہ ہوتے ہی چند لوگ سامنے آ کر اسے اسلامی قانون قرار دیتے ہوئے اس کا دفاع شروع کر دیتے ہیں۔

جب بھی اس نقطے کو ہائی لائیٹ کیا جاتا ہے تو بجائے حقیقت تسلیم کرنے کے اور اصلاح کرنے کے الٹا ایسی حقیقت کو بتانے والے کو یا غلط کہنا شروع کر دیا جاتا ہے یا اس پر توہین کے فتوے لگنا شروع ہو جاتے ہیں

احمد نورانی

شراب کے نشے میں دُھت ہو کر چھبیس مئی دوہزارسولہ کو ایک نوجوان کو سڑک پر مارنے کے بعد سید حافظ قاسم منیر نے مر جانے والے شخص کے رشتہ دار اور اپنے خلاف قتل کے پرچے میں مدعی کو اپنے ایئرپورٹ روڈ راولپنڈی پر واقع سیکریٹری گلگت کے دفتر میں معاملات سلجھانے کیلیے بلایا اور دفتر میں پڑی شراب کی بیسیوں بوتلوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے ہی شراب آفر کرنے لگے۔

______________________________________________________

اشتہار

تحقیقاتی صحافت کو آگے بڑھائیں۔

فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپئن میں اپنا حصہ ڈالیں۔

https://gofundme.com/FactFocus

_____________________________________________________

شراب کے نشے میں دُھت ہو کر اس وقت کے فورس کمانڈر ناردرن ایریاز میجر جنرل حافظ سید عاصم منیر کے بھائی سرکاری افسر اس وقت کے سیکریٹری گلگت بلتستان سید حافظ قاسم منیر نے نہ صرف ایئر پورٹ روڈ پر اپنی گاڑی ایک ٹریکٹر میں مار چار لوگوں کو زخمی کیا اور ایک بیس سالہ نوجوان کو مار دیا بلکہ وہ نشے کی حالت میں گرفتار ہوئے۔ پورے پاکستانی میڈیا نے خبریں چھاپیں۔ ان کے بھائی فورس کمانڈر نادرن ایریاز (گلگت بلتستان) جن کے ہوتے ہوئے وہ سیکریٹری گلگت بلتستان تھے، اس واقعے کے بعد ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس بنے، ڈی جی آئی ایس آئی بنے، کو کمانڈر گوجرانوالہ بنے، جی ایچ کیو راولپنڈی میں کواٹر ماسٹر جنرل بنے اور آرمی چیف بھی بن گئے مگر سید حافظ قاسم منیر کو ان جرائم کی سزا نہ مل سکی۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے سرکاری افسر بھائی ہوں، ہائیکورٹ کے سابق جج اور موجودہ جج سپریم کورٹ ملک شہزاد کی بیٹی ہو یا کراچی کی امیر خاتون نتاشا دانش، طاقتور نشے میں دھت ہو کر سڑکوں پر نکلتے ہیں اور راہ چلتے غریب بے بس شہریوں کو کچلتے ہیں اور قصاص اور دیت کے اسلامی قانوں کا ناجائز فائدہ لیتے ہوئے نہ صرف مذہب کی تذلیل کرتے ہیں بلکہ انسانیت کا مذاق اڑاتے ہیں۔

پوری دنیا میں کسی جگہہ ایسا نہیں ہوتا اور نہ ہی انسانی تاریخ میں کسی بھی مہذب معاشرے میں ایسا ہوا۔ ایسا قانون کہ جس میں ایک طاقتور شخص شراب یا کسی بھی نشے میں دُھت ہو اور ایک پبلک مقام پر انسانوں کو کچل دے، کچلے جانے والے شخص کا غریب خاندان ڈر اور خوف کی وجہ سے اور کوئی بھی اور چارہ نہ ہونے کی وجہ سے معمولی رقم لے کر ظالم کو بے بسی اور بے کسی کی حالت میں معاف کر دے۔ مہذب دنیا میں تو کوئی شخص شراب پی کر گاڑی چلاتا پکڑا جائے، چاہے اس سے کوئی ایکسیڈنٹ نہ بھی ہوا ہو، تو بھی اُسے نشان عبرت بنا دیا جاتا۔ کچھ سال جیل الگ کاٹنی پڑتی ہے اورساری زندگی کیلیے ایک ایسا داغ لگ جاتا ہے کہ کبھی کسی ملازمت کیلیے جائیں یا بنک سے قرضہ لینے، وہ الزام ہر فائل پر لکھا ہوتا ہے۔

انتہائی دل خراش بات یہ ہے کہ یہ ظلم جیسے ہی پاکستان میں ہوتا ہے ایک خاص طبقہ مجرم کو بیسیوں جرائم جو اس سے سرزد ہوئے ہوتے ہیں اور جن کی معافی مقتول کا خاندان بھی نہیں دے سکتا، اس پورے عمل کی وکالت شروع کر دیتا ہے کہ یہ تو اسلامی قانون ہے اور اس پر تنقید کرنے والا سیکولر طبقہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ لوگ ظلم کے نظام کو مزید مضبوط کرتے ہیں۔ دنیا بھر میں روڈ ایکسیڈنٹ میں کم سزا ہونے کی صرف یہ صورت ہوتی ہے کہ یہ ثابت ہو جائے کہ حادثہ صرف ایک حادثہ تھا اور اس میں گاڑی مارنے والے فریق کی غلطی ہر گز نہیں تھی۔ اگر ثابت ہو جائے کہ اس شخص نے شراب پی ہوئی تھی تو وہ کبھی نہیں بچ سکتا۔ ایسا صرف نام نہاد اسلامی پاکستان میں ہی ممکن ہے اور یہ انسان اور انسانیت کی بدترین تذلیل ہے۔

آٹھ جون دوہزار بائیس کو جج ملک شہزاد کی بیٹی شنزا ملک نے اسلام آباد ایکسپریس وے پر سوہان پل کے قریب سیور فوڈ کے دو ملازمین شکیل تنولی اور حسنین علی کو کچل دیا جس میں دونوں وفات پا گئے۔ شنزا موقع سے فرار ہو گئیں اور دو سال بعد اسلام آباد کی ایک عدالت سے ضمانت قبل از گرفتاری حاصل کی۔ صحافی مطیع اللہ جان کے ایک وی لاگ کے مطابق شکیل تنولی کے والد نے بتایا کہ انہیں جج کے خاندان کی طرف سے مقدمہ واپس لینے کی دھمکیاں دیں گئیں۔

انیس اگست دوہزار چوبیس کو کراچی کارساز میں  ایک بہت امیر خاتون نتاشا دانش نے موٹر سائیکل پر گھر جانے غریب باپ بیٹی ساٹھ سالہ عمران عارف اور انکی بائیس سالہ بیٹی ایمان کو اپنی گاڑی سے کچل دیا۔ حادثہ کے وقت وہ نشہ کی حالت میں تھیں اور موقع پر موجود لوگوں کو اپنے باپ کے امیر ہونے کی دھمکیاں دے رہی تھیں۔ نتاشا اسلام کے استعمال کے ذریعے بچ نکلنے والی ہیں۔

چھبیس مئی دوہزار سولہ کی صبح تقریباً ساڑھے پانچ بجے سید حافظ قاسم منیرنے شراب کے نشے میں دُھت اپنی ٹویوٹا کرولا کار نمبر

ICT-UA-086

بہت تیزی سے چلاتے ہوئے شاہ خالد کالونی کی مین سڑک کے بالکل سامنے اولڈ ایئرپورٹ روڈ پر جانے والے ٹریکٹر کو پیچھے سے ہٹ کیا۔ ٹریکٹر پر بھکر سے راولپنڈی محنت مزدوری کیلیے آئے چار، پانچ مزدور سوار تھے۔ جن کی شناخت محمد اسلم، عبدالرشید، مختار احمد، محمد عرفان اور محمد جہانگیر کے نام سے ہوئی۔ ان میں سے محمد اسلم موقع پر ہی وفات پا گیا۔

مزدوروں کے لواحقین نے ایئرپورٹ روڈ بند کر دی اور احتجاج کیا۔ مگر کتنا احتجاج کرتے۔ یہ عام غریب دیہاڑی دار لوگ تھے اور ایئرپورٹ روڈ اس وقت بہت ہی اہم شاہراہ۔ انتظامیہ نے چکر چلا کر تھوڑی دیر میں احتجاج بند کروا دیا۔ عبدالرشید کی مدعیت میں تھانہ ائیر پورٹ میں پرچہ درج ہوا۔ چونکہ سید حافظ قاسم منیر شراب کے نشے میں بُری طرح دُھت تھے اس لیے شراب کی ایف آئی آر علیحدہ سے درج ہوئی۔

چھبیس مئی دوہزار سولہ کو راولپنڈی کے تھانہ ایئرپورٹ میں سید حافظ قاسم منیر ولد سید سرور منیر قوم سید سکنہ مکان نمبر دوسوانیس لین نمبر تین ڈیری حسن آباد راولپنڈی کے خلاف درج ہونے والی ایف آئی آر کا عکس

حرکت میں آنے والے حرکت میں آئے۔ خاندان کے افراد سے بیسیوں لوگ رابطے میں آ گئے۔ بھکر کے مقامی لوگوں کو بھی مرحوم کے خاندان کے افراد پر اثر اندوز ہونے کیلیے شامل کر لیا گیا۔ آخر کار بے چارے غریب خاندان نے چند لاکھ روپے قبول کر کے مصالحت کر لی اور عدالتوں میں بیانات ریکارڈ کروا دیے۔ علاقے کے لوگوں کو ڈال کر اس خاندان کو دی جانے والی رقم تباہ ہونے والے ٹریکٹر کی قیمت سے بھی کم تھی۔ جس کے نتیجے کے طور پر سرکاری افسر سید حافظ قاسم منیرجو گرفتاری کے فوراً بعد ہی رہا ہو گئے تھے، اس کیس میں بری بھی ہو گئے۔ دوسرا شراب والا کیس بھی طاقت کے ذریعے ختم کروا لیا گیا۔ ایسی صورتحال میں چونکہ اسلامی قانون کے تحت معافی پیسے دینے کے بعد ہی ہو سکتی ہے اس لیے فیمیلیز کو پیسے رکھنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔

حقائق نے اس مقدمے کے مدعی عبدالرشید سے بھکر میں رابطہ کیا۔ عبدالرشید اس حادثے کے کچھ عرصہ بعد راولپنڈی سے واپس بھکر منتقل ہو گئے تھے۔ عبدالرشید نے بتایا کی وہ اس بدقسمت تریکٹر پر سوار تھےجسے سید حافظ قاسم منیر نے پیچھے سے ہِٹ کیا۔ عبدالرشید کے مطابق یہ سب بہت اچانک ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آئی کہ ہوا کیا ہے۔ عبدالرشید کے مطابق وہ یہ سمجھے جیسے ان کا ٹریکٹر ہی ٹوٹ گیا ہے۔ انکے مطابق جیسے ہی انہیں سمجھ آئی ان کے ساتھی شدید زخمی حالت میں سڑک پر پڑے تھے۔ ان کا قریبی عزیز بیس سالہ محمد اسلم اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ ان کیلیے یہ ایک قیامت کی گھڑی تھی۔

وفات پا جانے والے بدقسمت محمد اسلم کے بارے عبدالرشید نے حقائق کو بتایا کہ محمد اسلم ان کے رشتے دار تھے۔ انہوں نے بتایا کہ بدقسمتی سے محمد اسلم کا کوئی بہن بھائی نہ تھا۔ عبدالرشید کے مطابق محمد اسلم کے والد اور والدہ بھی بہت پہلے وفات پا چکے تھے اور وہ بھکر میں بھی اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر رہتے تھے اور پھر مزدوری کیلیے راولپنڈی آ گئے۔

عبدالرشید یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب ان سے اور محمد اسلم کے قریبی رشتہ داروں سے رابطہ وغیرہ کیا جا رہا تھا، انہیں ایئرپورٹ روڈ پر پرانے ائیرپورٹ کے عین سامنے واقع گلگت بلتستان کے دفتر بلایا گیا جہاں انکی ملاقات حادثے میں انہیں زخمی کرنے اور انکے عزیز محمد اسلم کو مارنے والے سید حافظ قاسم منیر سے ہونا تھی۔ عبدالرشید نے بتایا کہ سید حافظ قاسم منیر کے دفتر میں بھی شراب کی بوتلیں پڑی تھیں۔ عبدالرشید کے مطابق اس وقت وہ حیران رہ گئے جب سید حافظ قاسم منیر نے انہیں بھی دفتر میں شراب پینے کی آفر کر ڈالی۔عبدالرشید کے مطابق انہوں نے انکار کیا۔ عبدالرشید کے مطابق سید حافظ قاسم منیر انہیں بالکل غیر سنجیدہ انسان لگے۔ عبدالرشید نے بتایا کہ بھکر میں سید حافظ قاسم منیر کے لوگوں نے وفات پاجانے والے محمد اسلم کے قریبی رشتہ داروں سے معاملات طے کیے۔ عبدالرشید محمد اسلم کے دور کے رشتہ دار ہیں۔

روزنامہ جنگ میں ستائیس مئی دوہزار سولہ کو چھپنے والی خبر :

لنک: https://archive.jang.com.pk/05-27-2016/pindi/pic.asp?picname=419.gif

ستائیس مئی دوہزار سولہ کوروزنامہ جنگ میں چھپنے والی خبر کا عکس

روزنامہ دنیا میں ستائیس مئی دوہزار سولہ کو چھپنے والی خبر:

لنک: https://e.dunya.com.pk/detail.php?date=2016-05-27&edition=ISL&id=2388005_26854142

ستائیس مئی دوہزار سولہ کوروزنامہ دنیا میں چھپنے والی خبر کا عکس

روزنامہ ایکسپریس میں ستائیس مئی دوہزار سولہ کو چھپنے والی خبر:

لنک: https://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1103539386&Issue=NP_ISB&Date=20160527

ستائیس مئی دوہزار سولہ کوروزنامہ ایکسپریس میں چھپنے والی خبر کا عکس

روزنامہ نوائے وقت میں ستائیس مئی دوہزار سولہ کو چھپنے والی خبر:

لنک: https://www.nawaiwaqt.com.pk/E-Paper/islamabad/2016-05-27/page-5

ستائیس مئی دوہزار سولہ کوروزنامہنوائے وقت میں چھپنے والی خبر کا عکس

انگریزی روزنامہ دی نیشن میں ستائیس مئی دوہزار سولہ کو چھپنے والی خبر:

لنک: https://www.nation.com.pk/27-May-2016/labourer-killed-as-drunkard-rams-car-into-trolley

ستائیس مئی دوہزار سولہ کو انگریزی اخبار دی نیشن میں چھپنے والی خبر کا عکس

انگریزی روزنامہ ڈان میں ستائیس مئی دوہزار سولہ کو چھپنے والی خبر: (خبر میں کچھ غلطیاں ہیں جس کا اندازہ باقی اخبارات کی خبر اور دستاویزی شواہد کو دیکھ کر لگایا جا سکتاہے)

لنک: https://www.dawn.com/news/1260906/two-students-drown-labourer-killed-on-road

ستائیس مئی دوہزار سولہ کو انگریزی اخبار ڈان میں چھپنے والی خبر کا عکس