مریم نواز کی حکومت نے میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے ٹیکس دہندگان کے کروڑوں روپے احد چیمہ کے خاندان کی زمینوں کی حفاظت پر خرچ کر دیئے

محسن نقوی کی نگراں حکومت نے نومبر 2023 میں حافظ آباد میں احد چیمہ کے خاندان کی زمینوں کے ارد گرد سٹڈز بنانے کے لیے یکدم 48 کروڑ روپے کی منظوری اس وقت دی جب احد خان چیمہ وزیراعظم کے مشیر تھے۔

متنازعہ منظوری کے باوجود مریم نواز حکومت نے نہ صرف منصوبے کی تعمیر کو آگے بڑھایا بلکہ اس منصوبے کے لئے بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اضافی گرانٹ کی منظوری دے کر اس کی کُل لاگت 84 کروڑ روپے تک لے گئی۔

ایک دلچسپ صورت حال اس وقت سامنے آئی جب فیکٹ فوکس نے اس پروجیکٹ کی منظوری کے معیار کو سمجھنے کی کوشش کی، منظوری کے عمل میں شامل کوئی بھی افسر یا کوئی محکمہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا، اور سب نے الزام دوسروں پر ڈال دیا۔

عمارہ شاہ

پنجاب حکومت نے پاکستان مسلم لیگ ن کے اہم رہنما احد خان چیمہ اور ان کے خاندان کی زمینوں کی حفاظت کے لئے نے نہ صرف ایک متنازعہ 480 ملین روپے (48 کروڑ) کے سٹڈز/بندز بنانے کے منصوبے کی تعمیر کی بلکہ اضافی فنڈز بھی جاری کیے جس سے اسکی کل لاگت 848 ملین روپے (84 کروڑ روپے) ہو گئی۔ اس منصوبے سے بنیادی طور پر بااثر وفاقی وزیر احد خان چیمہ، ان کے خاندان اور ساتھیوں کی ملکیت والی زمین کو فائدہ ہوتا ہے۔

______________________________________________________

اشتہار

تحقیقاتی صحافت کو آگے بڑھائیں۔

فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپئن میں اپنا حصہ ڈالیں۔

https://gofundme.com/FactFocus

_____________________________________________________

2022 میں وفاقی سطح پر حکومت کی تبدیلی اور احد چیمہ کے وزیر اعظم کے مشیر بننے کے بعد، حافظ آباد کی ضلعی انتظامیہ نے بہک احمد یار ،کوٹ کمیر اور محمود پورہ میں احد خان چیمہ اور ان کے خاندان کی ملکیتی اراضی کے تحفظ کے لیے کئی سٹڈز (بندھ) کی تعمیر کی تجویز پیش کی۔ بہک احمد یار احد خان چیمہ کا گاؤں ہے۔ اس تجویز کو تمام متعلقہ محکموں نے فورا منظور کیا اور آخر کار اس وقت کے نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی کی حکومت کے تحت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ نے 16 نومبر 2023 کو 480 ملین (48 کروڑ) کی منظوری دی۔

پنجاب حکومت کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کی ویب سائٹ سے ایک تصویر جس میں اس منصوبے کی 2023 میں کی گئی منظوری درج ہے۔

مریم نواز حکومت نے اس منصوبے کی تعمیر کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ باوجود اس کے کہ اس منصوبے کی منظوری دو اہم وجوہات کی بنیاد پر انتہائی قابلِ اعتراض تھی، اس کو آگے بڑھایا اور مزید رقم کی منظوری بھی دی۔ وہ اہم وجوہات جن کی بنا پر یہ منصوبہ انتہائی قابل اعتراض ہے وہ یہ ہیں کہ نگران حکومت کی جانب سے اس منصوبے کی منظوری کے عمل میں واضح طور پر معیار کے تعین کا فقدان تھا، اور اس منصوبے نے بنیادی طور پر ایسے افراد کو فائدہ پہنچایا گیا جن کے پاکستان مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت سے قریبی تعلقات تھے۔ دوسرا، نگران حکومت اس نوعیت کے بڑے پیمانے پر منصوبوں کی منظوری دینے کی مجاز نہیں ہے۔ یہی نہیں، 8 جولائی 2024 کو مریم نواز کی حکومت کے تحت پنجاب پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ نے مزید 360 ملین (36 کروڑ) کی رقم کی منظوری دی جس سے اس منصوبے کی کل مالیت 840 ملین (84 کروڑ) ہو گئی۔

پنجاب حکومت کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کی ویب سائٹ سے ایک تصویر جس میں اس منصوبے کی 2024 کی گئی منظوری درج ہے۔

پنجاب کی حالیہ تاریخ میں ٹیکس دہندگان کے پیسے کو بغیر کسی میرٹ کے اپنے قریبی ساتھیوں کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کرنے کی اس سے بڑی مثال نہیں ملتی –

ملک کی تباہ حال معاشی صورتحال کو پس پشت ڈالتے ہوئے اور ضلع حافظ آباد کے درجنوں دیہاتوں اور دریائے چناب کے کناروں کے سینکڑوں مزید دیہاتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے غریب ٹیکس دہندگان کے یہ کروڑوں روپے چند مراعات یافتہ طبقے کی ملکیتی زمینوں کی حفاظت کے لیے خرچ کیے گئے اور ایسا بغیر کسی قواعد و ضوابط پر عمل درآمد کے کیا گیا۔

فیکٹ فوکس کی ٹیم کی جانب سے جب صوبائی سیکرٹریز اور اعلیٰ سرکاری حکام سے رابطہ کیا گیا تو وہ ان قواعد و ضوابط کی وضاحت کرنے سے قاصر رہے جن کی بنیاد پر صرف احد خان چیمہ کے خاندان کی زمینوں کے ارد گرد سٹڈز کی تعمیر کی منظوری دی گئی اور باقی علاقوں کو نظر انداز کیا گیا۔ مریم نواز حکومت اس منصوبے کو اگلے ماہ تک مکمل کرنے والی ہے۔

مضحکہ خیز صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب فیکٹ فوکس نے منصوبے سے منسلک مختلف اعلی سرکاری حکام سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کن قواعد و ضوابط کو مدِ نظر رکھ کر اس منصوبے کی منظوری دی گئی۔ کوئی بھی محکمہ اس منصوبے کی ملکیت لینے کو تیار نہیں تھا، اور ہر شخص نے ذمہ داری دوسرے محکموں اور افسران پر ڈال دی۔ درحقیقت، دریا کا کٹاؤ ایک سنگین مسئلہ ہے، جس سے سینکڑوں دیہاتوں کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی 2022 کی رپورٹ میں صرف حافظ آباد ضلع کے 30 سے ​​زیادہ دیہاتوں کا ذکر کیا گیا ہے جو دریا کے بہاو کی زد میں تھے اور کئی دیہات کسی بااثر شخصیت کی پشت پناہی اور حمایت نہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو گئے۔ اس سب کے باوجود کہاں ایسے چھوٹے سٹڈز (بندھ) بننے ہیں اور کہا ں نہیں، کن دیہی علاقوں کو فوقیت دی جانی ہے اور کہاں کام تاخیر سے بھی ہو سکتا ہے، اس حوالے سے پنجاب حکومت یا متعلقہ ڈیپارٹمنٹس کی کوئی پالیسی نہیں ہے اور فیکٹ فوکس کے بار بار اصرار پر کوئی بھی عہدیدار اس حوالے سے کوئی جواب نہ دے سکا۔

تاہم، واٹر مینیجمنٹ ماہرین کے مطابق دریا کے کنارے کے بہت قریب دیہاتوں اور زمینوں کی حفاظت کے مقصد سے سٹڈز بنانے کے لیے ٹیکس دہندگان کی کروڑوں کی رقم خرچ کرنا کوئی دانشمندانہ حل نہیں ہے۔ ایسے دیہات کے انتخاب کے لیے چند ایک واضح قواعد و ضوابط ہونے چاہیے تھے جن کے تحت اس طرح کے سٹڈ یا بند بنائے جائیں اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ایسے منصوبوں پر سرمایہ کاری سے مجموعی نظام میں بہتری آئے اور زرعی پیداوار میں اضافہ ہو۔ اس کے باوجود، کوئی اہلکار اس طرح کے قواعد و ضوابط سے واقف نظر نہیں آیا، اور نہ ہی ایسے قواعد و ضوابط کا کوئی وجود دکھائی دیتا ہے۔

گوگل میپس کا اسکرین شاٹ جو دریائے چناب کے کنارے واقع دیہاتوں اور زمینوں کو دکھا رہا ہے

سابق بیوروکریٹ اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب اور موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف کے قریبی ساتھی احد خان چیمہ کو آشیانہ ہاؤسنگ سکیم سکینڈل میں اپنے وسائل سے زائد اثاثے جمع کرنے کے الزامات کا سامنا رہا۔ اگرچہ ابتدائی طور پر انھیں قومی احتساب بیورو (نیب) نے گرفتار کیا تھا لیکن بعد میں ان کے خلاف مقدمہ احتساب عدالتوں نے ختم کر دیا تھا۔ تاہم، یہ پیشرفت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی طاقت کے مرکز و محور، پاکستانی فوج کے ساتھ معاہدہ ہو جانے کے بعد ہی ہوئی۔

احد خان چیمہ کے ڈی ایم جی افسر کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد، وزیر اعظم شہباز شریف نے (اپنے سابقہ ​​دور میں) انہیں 9 جون 2022 کو اپنی کابینہ میں بطور مشیر شامل کیا۔ احد خان چیمہ کی اس تقرری کے بعد پنجاب حکومت نے ضلع حافظ آباد میں واقع احد خان چیمہ اور ان کے خاندان کے لوگوں کی زمینوں کی حفاظت کے لئے اسٹدز کی منظوری دی۔ احد خان چیمہ کو مارچ 2024 میں پاکستان مسلم لیگ ن نے سینیٹر بنایا تھا اور اب وہ وزیرِ اقتصادی امور کے طور پہ اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔

احد خان چیمہ کی 2022 میں بطور مشیرِ وزیراعظم تقرری کا نوٹیفکیشن

حکومتی کارروائیوں میں شفافیت کے دعووں کے باوجود ایسے منصوبوں کی تیزی سے منظوری اور ان کی برق رفتار تکمیل، من پسند افراد کو نوازنے اور سرکاری وسائل کی منصفانہ تقسیم پر سوالات اٹھاتی ہے۔

سٹڈز بنانے کے اس منصوبے میں 848 ملین روپے کی سرمایہ کاری دراصل حکمران جماعت کے قریبی اور من پسند ساتھیوں کے ساتھ ترجیحی سلوک کی عکاسی کرتی ہے۔ اتنی زیادہ لاگت سے زمین کے نسبتاً ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو دریا کے کٹاو سے محفوظ بنایا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے حکومتی منصوبوں کی شفافیت پر سنگین شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔

یہ سب ہوا کیسے؟ 

فیکٹ فوکس کی تحقیقات کے مطابق احد خان چیمہ کی مشیر برائے وزیر اعظم شہباز شریف کی تقرری کے بعد حافظ آباد کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے سے ان سٹڈز کی تعمیر اور منظوری کاعمل شروع کیا گیا۔ متعلقہ محکموں اور سیاسی نمائندوں کے ساتھ فوری میٹنگز کی گئیں۔ محکمہ آبپاشی سے تکنیکی معلومات فراہم کرنے کو کہا گیا، جس کے بعد سمری کمشنر کو بھیجی گئی، جس نے اسے سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو (SMBR) کو پیش کیا۔

اس تجویز کا کابینہ کے اجلاس میں جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ اس بات کا تعین کیا جا سکے کہ آیا یہ منصوبہ عوامی مفاد میں کام کرتا ہے۔ منظوری کے بعد، SMBR اور وزارت خزانہ کی طرف سے فنڈز جاری کیے جاتے ہیں اور محکمہ آبپاشی کے چیف انجینئر/XEN کو مختص کیے جاتے ہیں۔

افتخار احمد ساہو (اب صوبائی سیکرٹری زراعت) کی سربراہی میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ نے 16 نومبر 2023 کو 480 ملین روپے کے ابتدائی منصوبے کی منظوری دی۔ بعد ازاں، اسی زمین کی حفاظت کے لیے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کی طرف سے اضافی نو سٹڈز کی منظوری دی گئی، جس سے منصوبے کی کل لاگت 848 ملین روپے ہو گئی، جس کی حتمی منظوری 8 جولائی 2024 کو موجودہ مریم نواز حکومت کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے چیئرمین نبیل اعوان چوہدری کی صدارت میں دی گئی۔

احد خان چیمہ کا ردعمل

فیکٹ فوکس کی جانب سے احد خان چیمہ تک پہنچنے اور ان کا موقف لینے کے لیے متعدد کوششیں کی گئیں۔ وفاقی سیکرٹریٹ کے بلاک سی میں وفاقی وزیر برائے اقتصادی امور کے دفتر گئے تو عملے نے بتایا کہ احد خان چیمہ صرف وزیراعظم ہاؤس میں اپنے دفتر میں بیٹھتے ہیں اور اپنے اس دفتر میں نہیں آتے۔ پاکستان کا وزیراعظم ہاؤس آزاد صحافیوں کے لیے ہمیشہ سے پہنچ سے باہر رہا، چاہے اسلام آباد میں کسی بھی سیاسی جماعت حکومت رہی ہو۔ اس کے باوجود فیکٹ فوکس نے وفاقی وزیر تک پہنچنے کی بھرپور کوشش کی۔

احد خان چیمہ

احد خان چیمہ کے دفتر مین تعینات ڈائریکٹر جناب ثاقب منظور سے درخواست کی گئی کہ وہ رپورٹر کی وزیر سے ملاقات کروا دیں تا کہ خبر کے حوالے سے سوالات کیے جا سکیں اور ان کا موقف لیا جا سکے۔ بعد میں انہوں نے تصدیق کی کہ ملاقات کا پیغام وزیر کو پہنچا دیا گیا تھا۔ کوئی جواب نہ ملنے پر، فیکٹ فوکس نے وزیر کو سوالات بھیجنے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ براہ راست بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔احد خان چیمہ کے ذاتی موبائل پر، ان کے ڈائریکٹر کے موبائل پر اور ڈائریکٹر کی جانب سے اس مقصد کے لیے فراہم کردہ آفیشل ای میل پر درج ذیل سوالات بھیجے گئے۔

پنجاب کی نگران حکومت نے 16 نومبر 2023 کو خاص طور پر بہک احمد یار اور کوٹ کمیر میں متعدد بندوں کی تعمیر کی منظوری دی، موجودہ حکومت کی جانب سے مزید منظوری 8 جولائی 2024 کو دی گئی۔ کیا آپ نے کبھی یہ منظوری حاصل کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا ہے؟

بہک احمد یار، کوٹ کمیر اور آس پاس کے علاقوں میں آپ، آپ کے بھائی، آپ کی بہن اور خاندان کے دیگر افراد کی کتنی زمین ہے؟ مزید برآں، آپ نے یا آپ کے خاندان کے کسی فرد نے ان علاقوں میں آخری بار زمین کب خریدی تھی؟

فیکٹ فوکس کے سوالات کے جواب کی درخواست کرتے ہوئے احد خان چیمہ کو متعدد یاد دہانی کے پیغامات بھیجے گئے۔ تاہم ان کی طرف سے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔

سرکاری محکموں اور افسران کے جوابات

اس خبر کی تحقیقات کے دوران فیکٹ فوکس نے متعلقہ محکموں کے متعدد افسران سے رابطہ کیا۔ منصوبے کی منظوری کے لیے متعلقہ محکمے حافظ آباد کی ضلعی انتظامیہ، محکمہ آبپاشی، بورڈ آف ریونیو پنجاب، پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ حکومت پنجاب شامل ہیں۔

محکمہ آبپاشی نے اقدام کی تردید کی، صرف عملدرآمد میں کردار کا حوالہ دیا

حافظ آباد میں بند کی تعمیر کے منصوبوں کے حوالے سے وضاحت کے لیے رابطہ کیا گیا تو محکمہ آبپاشی پنجاب کے حکام نے ان منصوبوں کو شروع کرنے میں کسی طرح کا کردار ادا کرنے کی نفی کی۔ متعدد عہدیداروں کے مطابق، محکمہ اس منصوبے سے متعلق صرف ان کاموں کو انجام دینے کا ذمہ دار ہے جسے "ڈیپازٹ ورک” کہا جاتا ہے، جو کہ وہ کام ہیں دیگر سرکاری اداروں کے ذریعے شروع کیے گئے لیکن محکمہ صرف اپنی تکنیکی مہارت کی وجہ سے ان پر کام کر رہا ہے۔

پنجاب کے سیکرٹری آبپاشی واصف خورشید نے فیکٹ فوکس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محکمہ آبپاشی ان منصوبوں کی منظوری کے بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کر سکتا جو اس محکمہ کی جانب سے شروع ہی نہیں کئے گئے۔

واصف خورشید، سیکریٹری آبپاشی پنجاب

"محکمہ آبپاشی صرف وہ منصوبے شروع کرتا ہے جن میں ہمارے دائرہ کار میں موجودہ انفراسٹرکچر شامل ہوتا ہے،” خرم امین ایڈیشنل سیکرٹری (تکنیکی امور) محکمہ آبپاشی پنجاب نے کہا، "اس معاملے میں، ہمارا کردار صرف عمل درآمد تک محدود ہے، منصوبہ بندی یا شروعات ہمارا کام نہیں۔”

خرم نے مزید واضح کیا کہ نئے بندوں کی تعمیر کا عمل ضلع کے ڈپٹی کمشنر (DC) سے شروع ہوتا ہے۔ "یہ ڈپٹی کمشنر جو کہ ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کا چئیرمین بھی ہوتا ہے، ایک رپورٹ تیار کرتا ہے۔ یہ رپورٹ نئے منصوبوں کے بارے میں فیصلوں کی بنیاد کے طور پر کام کرتی ہے، جیسے کہ زیر بحث منصوبہ کے تحت بنائے جانے والے اسٹدز۔

یہ انکشافات اس منصوبے کو شروع کرنے کی ذمہ داری محکمہ آبپاشی سے دور اور مقامی حکام کی طرف منتقل کرتے ہیں، جس سے فیصلہ سازی کے عمل کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں جس کی وجہ سے بندوں کی تیزی سے منظوری اور تعمیر ہوئی۔

2022 پی ڈی ایم اے کی رپورٹ اور حافظ آباد کے مقامی حکام

ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر منیجمنٹ، حافظ آباد کی 2022 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں حافظ آباد کے 30 سے ​​زائد دیہاتوں کو سیلاب زدہ علاقوں کے طور پر شناخت کیا گیا ہے جنہیں فوری تحفظ کی ضرورت ہے۔ اس رپورٹ میں احد خان چیمہ کے خاندان کی زمینوں کے آس پاس کے دیہات بھی شامل تھے۔ تاہم، رپورٹ کی وسیع تر سفارشات کے باوجود، یہ 848 ملین روپے کا منصوبہ تقریباً خصوصی طور پر احد خان چیمہ اور ان کی زمینوں والے علاقوں اور دیہاتوں تک ہی محدود رہا۔ اس طرح کے سٹڈز بننے کے بعد زرعی پیداوار میں کوئی تھوڑا بہت اضافہ یا نہ ہو، زمین کے قیمت تین سو فیصد سے زائد بڑھ جاتی ہے۔

سوشل میڈیا سے لی گئی ایک تصویر جس میں چیمہ خاندان کی زمینوں کے قریب سٹڈز کی تعمیر کی جگہ دکھائی دے رہی ہے۔

اس منصوبے کی منظوری کے عمل پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے، ایک افسر نے وضاحت کی کہ محکمہ معمول کے مطابق مختلف مجوزہ پروجیکٹس کے لیے ماڈل سٹڈیز کرتا ہے، جو اس کے بعد متعلقہ حکام کو پیش کیے جاتے ہیں۔ تاہم، یہ ماڈل سٹڈیز شاذ و نادر ہی حتمی منظوری کے لیے کابینہ کے اجلاسوں کے مرحلے تک پہنچتی ہیں۔

"ہم منصوبوں کے حوالے سے جو ماڈل سٹڈیز تیار کرتے ہیں ان کا مقصد ان منصوبوں پر فیصلہ سازی کی رہنمائی کرنا ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے، وہ شاذ و نادر ہی اس اسٹیج پر پہنچتے ہیں جہاں صوبائی کابینہ کی میٹنگز میں ان کا جائزہ لیا جائے یا ان کی منظوری دی جا سکے۔” افسر نے ان بیوروکریٹک رکاوٹوں کا ذکر کیا جو اکثر محکمے کی سفارشات کو آگے بڑھنے سے روکتی ہیں۔

ایک اسرکاری افسر کی جانب سے یہ انکشاف کیا گیا کہ نوکر شاہی میں پائی جانی والی معمول کی تاخیر کے باوجود، یہ وہ خاص منصوبہ ہے جو دو بار کابینہ تک پہنچا اور فوراً منظور ہوا ۔ سرکاری افسر نے اس تیز رفتار عمل کی وجہ احد خان چیمہ کے نمایاں اثر و رسوخ اور طاقت کو قرار دیا، جس نے اس منصوبے کو عام رکاوٹوں کو نظرانداز کرنے اور اعلیٰ سطح پر منظوری حاصل کرنے کو ممکن بنایا ۔

"خدا نے احد خان چیمہ صاحب کو اثر و رسوخ سے نوازا ہے، اور ان کے اسی اثرورسوخ کی وجہ سے یہ منصوبہ دو دفعہ کابینہ کی میٹنگ میں پیش اور منظور ہوا”۔

اس منصوبے کے مرکزی کردار، اس وقت کے ڈپٹی کمشنر حافظ آباد، توقیر الیاس چیمہ کا ردعمل

احد خان چیمہ کی وزیر اعظم کے مشیر کے طور پر تقرری کے چند روز بعد اگست 2022 میں ایک پی ایم ایس افسر توقیر الیاس چیمہ کو حافظ آباد کا ڈپٹی کمشنر تعینات کر دیا گیا۔ عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد توقیر الیاس چیمہ نے اس منصوبے پر تیزی سے کام شروع کر دیا اور اپنی بیوروکریٹک کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ان کی سرگرمیوں کی تفصیل کے ساتھ پریس ریلیز جاری کی جائیں اور میڈیا کو بتایا کہ 120 ملین روپے کی کل لاگت کے اس منصوبے سے آس پاس کے دیہات کے بہت سے کسانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ جب فیکٹ فوکس نے پراجیکٹ شروع کرنے والے توقیر الیاس چیمہ سے سوالات پوچھے تو انہوں نے بتایا کہ انہیں یہ یاد ہی نہیں کہ اسٹدز بند پراجیکٹ کیسے شروع ہوا تھا۔

ڈپٹی کمشنر حافظ آباد کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے ستمبر 2022 کا اسکرین شاٹ

جب بہک احمد یار اور کوٹ کمیر میں بند کی تعمیر کے منصوبے کی ابتدا کے بارے میں سوال کیا گیا تو 2022 میں حافظ آباد کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر توقیر الیاس چیمہ، جن کے یہ سمری تجویز کرنے اور اس پر عمل کو شروع کرنے کا اختیار تھا، نے بالکل غیر یقینی کا اظہار کیا۔

"مجھے یاد نہیں ہے کہ یہ سب کیسے شروع ہوا،” انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعات تو سالوں پہلے کے ہیں اور اس کے بعد انہیں کسی اور عہدے پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا مقامی باشندوں نے ان سے کسی قسم کی کوئی درخواست کی تھی یا انہوں نے ذاتی طور پر ان علاقوں کو دریائے چناب کے بائیں کنارے کے کٹاؤ کے اثرات سے بچانے کی ضرورت کی نشاندہی کی تھی، تو وہ کسی بھی قسم کی تفصیلات فراہم کرنے سے قاصر رہے۔

اور جب یہ پوچھا گیا کہ آیا ان سے احد خان چیمہ نے اس پراجیکٹ کے حوالے سے رابطہ کیا تھا تو سابق ڈپٹی کمشنر نے واضح طور پر ایسی کسی بات کی تردید کی۔ توقیر الیاس چیمہ لاہور میں پنجاب لیبر اینڈ ہیومن ریسورس ڈیپارٹمنٹ میں پی ڈبلیو ڈبلیو ایف کے سی ای او کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے سابق چیئرمین نے پروجیکٹ کی منظوری کے عمل پر روشنی ڈالی۔

فیکٹ فوکس نے افتخار علی ساہو، سابق چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ (پی اینڈ ڈی) (جو اس وقت پنجاب کے سیکرٹری زراعت کی خدمات انجام دے رہے ہیں) سے بھی رابطہ کیا۔ انہوں نے 16 نومبر 2023 کو محسن نقوی کے بطور وزیراعلیٰ پنجاب کے دور میں پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کے اجلاس کی صدارت کی تھی۔ جس میں اس منصوبے کے پہلے حصے سمیت مختلف ترقیاتی سکیموں کی منظوری دی گئی تھی۔ جب اس مخصوص پروجیکٹ کو منظور کرنے میں زیر غور عوامل کے بارے میں پوچھا گیا تو، انھوں نے اس منصوبے کے حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کیں لیکن اس بات کی تصدیق کی کہ یہ اسکیم اس میٹنگ کے دوران منظور کی گئی متعدد اسکیموں میں سے ایک ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا اسی طرح کے منصوبے، خاص طور پر اتنی مالیت کے حامل منصوبے، پنجاب کے دیگر اضلاع کے لیے بھی منظور کیے گئے تھے جو ان کے علم میں ہوں تو افتخار ساہو نے کوئی خاص مثال پیش نہیں کی لیکن صوبے بھر میں دیگر ترقیاتی سکیموں کے امکان کو تسلیم کیا۔

فیکٹ فوکس کے سوال پر افتخار ساہو کا تحریری جواب تھا، "میڈم، یہ تمام معلومات P&D سے حاصل کی جا سکتی ہیں جو ترقیاتی اسکیموں کی منظوری کے ڈیٹا کو برقرار رکھتی ہے۔ درحقیقت ترقیاتی اسکیموں کی شناخت، ان کی تعمیر و تکمیل اور متعلقہ محکموں کے ذریعے کی جاتی ہے اور PDWP کی مختلف میٹنگز کے ذریعے P&D بورڈ کی طرف سے صرف جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور منظوری دی جاتی ہے۔ مزید معلومات متعلقہ محکمہ سے مانگی جا سکتی ہیں۔ اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے کہ دریا کے تحفظ کے کاموں کے لیے ترقیاتی اسکیمیں محکمہ آبپاشی کے انجینئرز اور تکنیکی ماہرین سائٹ کے دورے، تکنیکی تشخیص اور معائنہ کے بعد تیار کرتے ہیں تاکہ دریا کے کنارے کی زمینوں اور دیہاتوں کے تحفظ کے لیے دریا کے بہاؤ کو منظم کیا جا سکے۔

افتخار احمد ساہو، سابق چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب

پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ، حکومتِ پنجاب کے موجودہ چیئرمین نبیل اعوان جنہوں نے اس سال جولائی میں اس منصوبے کی لاگت کو 844 ملین روپے تک لے جانے کے لیے اجلاس کی صدارت کی تھی، سے بھی فیکٹ فوکس نے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فیکٹ فوکس کے سوالات کے جوابات دینے کے لیے انہیں پروجیکٹ کی فائلیں دیکھنا پڑیں گی۔ انھیں اس حوالے سے درج ذیل سوالات بھیجے گئے لیکن نبیل اعوان نے اس خبر کے رپورٹ ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا۔

نبیل احمد اعوان، چیئرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ پنجاب

۱) دریائے چناب کے کنارے ضلع حافظ آباد کے دو دیہاتوں (بہک احمد یار اور کوٹ کمیر) میں بندوں اور سٹڈز کی تعمیر کی منظوری دو مراحل میں دی گئی تھی- نومبر 2023 اور جولائی 2024 میں۔ وہ کون سے اصول و ضوابط ہیں جن کی وجہ سے ان علاقوں کو اس طرح کے دیگر علاقوں، جن کے متاثر ہونے کا خدشہ ہو سکتا ہے، پر ترجیح دی گئی تھی؟ خاص طور پر جب 2022 کی ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر اینڈ منیجمنٹ رپورٹ نے متعدد ایسے دیہاتوں کی نشاندہی کی جو کو دریا کے کٹاو کا شکار تھے؟

۲) اتنے قلیل عرصے میں منظور شدہ 848 ملین روپے کی خطیر رقم کے پیش نظر ان منصوبوں کی خاص اہمیت کیا ہے؟ حکومت نے ان مخصوص دیہاتوں میں سیلاب سے بچاؤ کی کوششوں کے لیے بار بار اتنی رقم کیوں مختص کی؟

۳) کیا پنجاب کے دیگر اضلاع میں اس عرصے کے دوران خاص طور پرآپ کی سربراہی میں سیلاب سے بچاؤ یا سٹڈز/بند کی تعمیر کے منصوبوں کے لئے اتنی ہی لاگت کی منظوری دی گئی ہے؟

محسن نقوی سے پوچھے گئے سوالات

نومبر 2023 میں اس وقت کے نگران وزیرِ اعلی کے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ نے اس منصوبے کے لئے 48 کروڑ کی منظوری دی۔ انھیں اس حوالے سے متعدد بار رابطہ کی کوشش کی گئی اور درج ذیل سوالات بھیجے گئے لیکن محسن نقوی نے اس خبر کے رپورٹ ہونے تک کوئی جواب نہیں دیا۔

محسن نقوی سابق نگران وزیر اعلی پنجاب اور حال وفاقی وزیر داخلہ

ان کو بھئجے گئے سوالات درج ذیل تھے۔

۱) صوبائی حکومت نے نومبر 2023 میں ضلع حافظ آباد میں ایک پراجیکٹ کی منظوری دی جو کہ دریائے چناب کے کنارے واقع گاوں بہک احمد یار اور کوٹ کمیر میں واقع زمینوں کو دریا کے کٹاو سے محفوظ کرنے کے متعلق تھا۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یہ منصوبہ کس معیار پر منظور کیا گیا تھا کیونکہ دریائے چناب کے کنارے سینکڑوں دیہات ایسے ہیں جن پر توجہ کی ضرورت ہے؟

۲) کیا نگران حکومت کے پاس اتنے بڑے منصوبوں کی منظوری کا مینڈیٹ تھا؟

۳) ان علاقوں میں زیادہ تر زمین احد خان چیمہ اور ان کے خاندان کی ملکیت ہے۔ کیا یہ عنصر اس منصوبے کی اتنی برق رفتار منظوری کا باعث بنا؟

Leave a Comment

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.