پاکستان اپنے 400 سے زائد نوجوانوں کا توہین مذہب کے مقدمات میں ٹرائل کر رہا ہے

شواہد سے واضح پتا لگتا ہے کہ زیادہ تر نوجوانوں کو قابل اعتراض یا توہین آمیز مواد شیئر کرنے کیلیے پھنسایا گیا

ستر فیصد لڑکے لڑکیوں کی عمر اٹھارہ سے انتیس سال کے درمیان ہے۔ توہین مذہب کے کیسز کا شکار بننے والے سو فیصد افراد کا تعلق غریب یا مڈل کلاس گھرانوں سے ہے۔ نناوے اعشاریہ نناوے فیصد شکار مسلمان ہیں۔ اسی فیصد کیسز سال دوہزار بائیس یا بعد میں رجسٹر ہوئے۔

شکار بننے والوں میں سوفٹ ویئر انجینئر، سول، الیکٹریکل، مکینیکل، کیمیکل انجینئرز، بیچلر اور ماسٹرز ڈگری ہولڈرز شامل ہیں

اس سال کے آغاز میں سپیشل برانچ پنجاب پولیس نے بلاسفیمی بزنس کرنے والے گروہ کی سرگرمیوں پر تفصیلی رپورٹ دی۔ مگر کوئی کاروائی نہ ہوئی۔

دنیا کے ستاون مسلم ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جو اپنے سینکڑوں نوجوانوں کا توہین رسالت اور توہین مذہب کے قوانین کے تحت ٹرائل کر رہا ہے۔

احمد نورانی

میرا نام سرفراز (فرضی نام) ہے، پنجاب یونیورسٹی میں بی کام کا طالب علم ہوں، شاعری سے گہری دلچسپی کے سبب میں نے واٹس ایپ پر شاعری کا ایک گروپ جوائن کیا جہاں ایک دن کسی نے گستاخانہ تصویر شیئر کی جس نے مجھے بہت پریشان کیا۔ میں نے گروپ ایڈمن ایمان سے رابطہ کیا، ایمان  نے کہا کہ انہوں نے ایسا کوئی مواد نہیں دیکھا اور مجھ سے کہا کہ میں اسے وہ تصاویر بھیجوں جن کا میں حوالہ دے رہا ہوں۔ میرے ایسا کرنے کے بعد، انہوں نے معذرت کی اور مجھے یقین دلایا کہ وہ ایسا کرنے والے شخص اور اس طرح کے مواد کو گروپ سے ہٹا دیں گی۔

ایمان نے پھر میرے بارے میں مجھ سے سوالات کئے، اور میں نے بتایا کہ میں ایک کم آمدنی والے خاندان سے ہوں اور کام کی تلاش کر رہا ہوں۔ اس نے مجھے اسلام آباد میں نوکری تلاش کرنے میں مدد کرنے کی پیشکش کی اور مجھے اس سے ملنے کی دعوت دی۔ میں نے اسلام آباد کے دورے کا منصوبہ بنایا اور وکیل کے دفتر پہنچا، جہاں ایمان نے مجھے آنے کو کہا تھا۔

میرے پہنچنے کے بعد ایمان آٹھ سے دس لوگوں کے ساتھ وہاں آئیں جنہوں نے ایمان سے کہا کہ، "میڈم، آپ کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ اب ہم اسے یہاں سے سنبھال لیں گے۔” انہوں نے مجھ پر توہین آمیز مواد تیار کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مجھ پر جسمانی تشدد کرنا شروع کردیا۔ ان کے لیڈر راؤ عبدالرحیم نے میرا فون چھین لیا اور میرے کسی بھی طرح کے گستاخانہ مواد سے تعلق نہ ہونے کا بار بار کہنے کے باوجود مجھے وہ تصویر دکھاتے ہوئے، جو میں نے ایمان کو بھیجی تھی، مجھے مارتا رہا۔ میں نے وضاحت کی کہ میں نہ تو اس تصویر کا تخلیق کار ہوں اور نہ ہی اصل بھیجنے والا، لیکن انہوں نے دھمکی دی کہ اگر میں نے اعتراف نہیں کیا تو وہ مجھے اور میرے خاندان کو نقصان پہنچائیں گے۔

اس کے بعد وہ مجھے ایف آئی اے کے دفتر لے گئے، جہاں میرے پہنچنے سے پہلے ہی میرے خلاف ایف آئی آر تیار تھی۔ ایف آئی اے کے دفتر میں مجھے مزید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ میرے والد کو طلب کیا گیا اور مجھ سے قطع تعلق کر لینے کے لیے ان پر دباؤ ڈالا گیا، اور مجھے بتایا گیا کہ مجھ پر پاکستان میں سنگین ترین مجرمانہ جرائم کے تحت فرد جرم عائد کی گئی ہے۔ جو تعزیرات پاکستان کی دفعہ دو سو پچانوے اے، بی، سی اور پیکا دوہزار سولہ کا سیکشن گیارہ ہیں۔

[٭٭٭ کی کہانی، ایف آئی آر نمبر 138/23، اڈیالہ فائنل فائل نمبر 130]

یہ ان بہت سی کہانیوں میں سے ایک ہے جو اس نیوز سٹوری کی تحقیقات کے دوران فیکٹ فوکس کے سامنے آئیں۔

پاکستان اس وقت چار سو سے زائد نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے خلاف ملک کے توہین رسالت اور توہین مذہب کے قوانین کے تحت مقدمات چلا رہا ہے، جن میں سزائے موت اور عمر قید سمیت سخت سزائیں ہیں۔ بہت سے واقعات میں، توہین مذہب کا محض الزام بھی ملزم کو شدید خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ ان نوجوانوں میں سے زیادہ تر اب ایک سال سے زیادہ عرصے سے قید ہیں۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر معاملات میں، نوجوان مرد اور خواتین ایک مذہبی انتہا پسند گروپ کے ذریعے گستاخانہ مواد کو آن لائن شیئر کرنے کے جال میں پھنساے گئے تھے، جو کہ حکومت کی اپنی تحقیقات کے مطابق، ‘توہین رسالت کا کاروبار’ چلا رہا ہے۔

پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے زیر تفتیش زیادہ تر مقدمات اسی مذہبی انتہا پسند گروپ کے ارکان کے ذریعے رپورٹ کیے جاتے ہیں جو نوجوانوں کو گستاخانہ مواد شیئر کرنے کے جال میں پھنساتے ہیں اور پھر ایف آئی اے کو رپورٹ کرتے ہیں۔

توہین مذہب کے الزامات کا سامنا کرنے والے ان قید نوجوانوں میں سافٹ ویئر انجینئرز، الیکٹریکل، مکینیکل، سول اور کیمیکل انجینئرز جیسے پیشہ ور افراد کے ساتھ ساتھ ایگریکلچر گریجویٹ، ماسٹر ڈگری کے حامل، حافظ قرآن اور کم رسمی تعلیم کے حامل بہت سے افراد شامل ہیں۔

ان میں سے 80% سے زیادہ مقدمات 2022 اور 2023 میں درج کیے گئے تھے، اور یہ سلسلہ 2024 تک جاری ہے۔ فیکٹ فوکس کی تحقیقات کے مطابق تمام شکار بننے والے افراد کا تعلق غریب متوسط طبقے کے گھرانوں سے ہے۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ، نچلی اور اعلیٰ دونوں عدالتیں مذہبی انتہا پسندوں کے دباؤ کا شکار نظر آتی ہیں، جس سے قید کیے گئے نوجوان متاثرین کی قسمت پر مزید مہر لگ جاتی ہے۔  ماضی میں ملک بھر میں یہ قوانین زیادہ تر مذہبی اقلیتی گروہوں کے خلاف استعمال ہوتے تھے لیکن اب ان نئے قائم کیے گئے مقدمات میں نناوے اعشاریہ نناوے فیصد مسلم نوجوانوں شکار بنے ہیں۔

اڈیالہ جیل میں ایسے قیدیوں کی تعداد ایک سو چوالیس ہے۔ کیمپ جیل لاہور میں ایک سو تیس، کوٹ لکھپت جیل میں تیس، کراچی سنٹرل جیل میں پچاس ایسے قیدی ہیں۔ ملک کی دیگر جیلوں میں بھی مزید ایسے نوجوان قید ہیں اور کُل تعداد یہاں لکھی گئی تعداد سے زیادہ ہے۔ اٹھارہ سال سے لے کر انتیس سال کی عمر کے نوجوانوں کی تعداد کل متاثرین کا تقریباً ستر فیصد ہے۔

پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ کی ایک رپورٹ میں "بلاسفیمی بزنس گروپ” کی سرگرمیوں کی مکمل چھان بین کی گئی ہے اور اس کا خلاصہ کیا گیا ہے، جو نوجوانوں کو نشانہ بناتا ہے اور پھنساتا ہے۔ رپورٹ نے ان نوجوانوں اور اس توہین آمیز گینگ کے ارکان کو پھنسانے کے لیے استعمال ہونے والی خواتین کے درمیان تعلق قائم کیا۔ یہ گینگ ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے ارکان کے ساتھ مبینہ طور پر ملی بھگت سے آزادانہ طور پر کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

پنجاب پولیس کی اسپیشل برانچ کو ملک میں زمینی انٹیلی جنس معلومات اکٹھا کرنے والی سب سے اہم تنظیم سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت، پنجاب کے بارے میں آئی ایس آئی کی 80 فیصد سے زیادہ رپورٹیں بنیادی طور پر اسپیشل برانچ کے تحقیقاتی معلومات کی بنیاد پر ہی مبنی ہوتی ہیں۔

ایف آئی اے نے فیکٹ فوکس کو تصدیق کی کہ اسے جنوری 2024 میں پنجاب پولیس کی اسپیشل برانچ سے "توہین رسالت کے کاروباری گروپ” سے متعلق رپورٹ موصول ہوئی تھی۔ تاہم، حکام نے تسلیم کیا کہ رپورٹ کی سفارشات کی بنیاد پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

ڈی جی ایف آئی اے احمد اسحٰق جہانگیر سے انکا مئوقف جاننے کیلیے فیکٹ فوکس نے ان کے دفتر رابطہ کیا اور اس سنگین معاملے سے متعلق سوالات کرنے کا کہا۔ انکے آفس نے کال بیک کا وعدہ کیا مگر فیکٹ فوکس کو جواب نہیں ملا۔

توہین مذہب کے مقدمات میں غیر یقینی مماثلت

ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ میں شکایات کے لیے ایف آئی آر کے اندراج میں ایک خاص مماثلت دیکھنے میں آتی ہے۔ توہین مذہب کے زیادہ تر مقدمات میں، شکایت کرنے والے وہی افراد ہوتے ہیں، جو توہین رسالت کے کاروباری گروپ کے ممبر ہیں۔ اس گروپ کے ممبران چھ سے پندرہ نوجوانوں کے خلاف شکائت کنندہ ہیں۔

توہین مذہب کے کاروباری گروپ کے ارکان، جیسے شیراز احمد فاروقی، شہزاد خان، عمر نواز، حافظ لیاقت منظور کمبوہ، حسنات فاروق اور عامر ظفر وغیرہ توہین رسالت کے مقدمات میں اکثر شکایت کنندہ ہیں۔ خاص طور پر شیراز احمد فاروقی نے سولہ، شہزاد خان نے بارہ، عمر نواز نے نو، حافظ لیاقت منظور کمبوہ نے آٹھ اور عامر ظفر نے پانچ کے خلاف شکایات درج کرائی ہیں۔

شکایت کنندگان کے ایک جیسے ہونے کے علاوہ شکایات درج کرانے کے لیے درخواستوں کی نوعیت اور الزامات کا انداز بھی زیادہ تر مقدمات میں یکساں ہے۔ ان شکایات کی بنیاد پر درج ایف آئی آر میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔

لاہور کے مقدمات میں ایک اور عام موضوع ایک "خفیہ مخبر” کا ملوث ہونا ہے جو ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کی ٹیم سے رابطہ کرتا ہے جب ایف آئی آر کے اندراج سے عین قبل شکایت درج کی جاتی ہے۔ یہ مخبر ملزمان کے بارے میں قطعی تفصیلات فراہم کرتا ہے، بشمول ایک مخصوص وقت پر شہر میں ان کا مقام، گرفتاری میں سہولت فراہم کرنے کے لیے ان کے کپڑوں کا رنگ جیسی تفصیلات وغیرہ۔ (ایف آئی آر کے کچھ نمونے ذیل میں دیئے گئے ہیں۔)

ہر کیس میں ایک ہی الزام، ایک ہی طریقہ کار اپنانے کے حوالے سے نمونے کی تین ایف آئی آرز، ایف آئی آر نمبر-ایک

ہر کیس میں ایک ہی الزام، ایک ہی طریقہ کار اپنانے کے حوالے سے نمونے کی تین ایف آئی آرز، ایف آئی آر نمبر-دو

ہر کیس میں ایک ہی الزام، ایک ہی طریقہ کار اپنانے کے حوالے سے نمونے کی تین ایف آئی آرز، ایف آئی آر نمبر-تین

مزید برآں، تحقیقات یکساں انداز میں کی جاتی ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، ایف آئی اے کے افسر گواہان بھی ایک ہی ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پورا عمل انتہائی مشکوک نظر آتا ہے۔

اس پورے عمل کا جائزہ لینے اور کیسز کی دستاویزات کا تجزیہ کرنے پر، یہ بات عیاں ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے کچھ پرائیویٹ افراد اور کچھ اہلکار زیادہ سے زیادہ مقدمات کے اندراج کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے اہلکار ہر ماہ ایک ہدف کو پورا کرنا یا ایف آئی آر کی ایک مخصوص تعداد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں ایسے الزامات کی جان لیوا نوعیت کے باوجود شکایات کی درست تصدیق کیے بغیر اور ملزم نوجوانوں کے عزائم اور ارادہ پر غور کیے بغیر ایسا کیا جا رہا ہے۔ فیکٹ فوکس نے حکام کے ذریعے تصدیق کی ہے کہ جب متاثرین کے اہل خانہ نے سائبر کرائمز ونگ کو راؤ عبدالرحیم گروپ اور لڑکیوں کے ذریعے نوجوان لڑکوں کو پھنسانے کے حوالے سے شواہد پیش کیے تو ایف آئی اے حکام نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان معلومات کو نظر انداز کر دیا۔

بلاسفیمی بزنس گروپ

بلاسفیمی بزنس گروپ مذہبی انتہا پسند افراد پر مشتمل ایک گروہ ہے جو کہ ایک حکومتی رپورٹ کے مطابق مالی فوائد کیلیے لوگوں پر توہین رسالت کے الزامات لگانے کی سرگرمیاں کرتا ہے۔ گروپ کی قیادت راؤ عبدالرحیم نام کے ایک وکیل اور ایک توہین رسالت سے منسلک مذہبی ایکٹوسٹ شیراز احمد فاروقی کر رہے ہیں۔ اس گروپ میں اب کافی لوگ ہیں مگر یہاں چند متحرک لوگوں کا مختصر تعارف دیا جا رہا ہے۔

راؤ عبدالرحیم

راؤ عبدالرحیم کا تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع وہاڑی کے علاقے بورے والا کے چک نمبر 331 ای بی سے ہے۔ انکا تعلق مالی طور پر ایک کمزور گھرانے سے تھا اور شروع میں کافی مالی مشکلات بھی سامنا رہا۔ پھر انہوں نے مشہور شخصیات کے خلاف توہین مذہب کے الزامات لگانا شروع کر کے توجہ حاصل کی۔ وہ اس کاروبار میں سال دو ہزار بارہ سے ہیں۔

راؤ عبدالرحیم، سربراہ بلاسفیمی بزنس گروپ

وہ توہین رسالت کے متعدد مقدمات میں شکایات کے وکیل ہیں اور "ناموس رسالت لائرز فورم” اور "توہین رسالت پر قانونی کمیشن” کے سربراہ ہیں۔ وہ سپین میں رجسٹرڈ سیل نمبر کے ساتھ واٹس ایپ استعمال کرتے ہیں۔ راؤ کے کردار کو بین الاقوامی میڈیا نے 2012 میں اس وقت اجاگر کیا جب انہوں نے ایک نابالغ عیسائی لڑکی پر توہین مذہب کا الزام لگایا۔ اس وقت وہ توہین مذہب کے دو مقدمات میں شکایت کنندہ ہیں اور ایک کیس میں جرح کے دوران انہوں  نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ وہ سپین کا سیل نمبر استعمال کرتے ہیں۔ ان کے سپین کے اس نمبر کو بطور ایڈمنسٹریٹر مختلف سوشل میڈیا گروپس کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ان کیسز کی دستاویزات کا جائزہ  لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کے، ان گروپس کو لڑکوں اور لڑکیوں کو پھنسانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہی گروپس میں بھی توہین مذہب کے واقعات پیش آئے ہیں۔

فیکٹ فوکس کو اپنا مئوقف دیتے ہوئے راؤ عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کرنے والوں کو سخت ترین سزا ضرور دی جانی چاہیے اور اس وقت توہین مذہب کے کیسز میں گرفتار سبھی افراد ثابت شدہ گستاخ ہیں۔ اس سوال کہ سزا بہت ہی سخت ہے جبکہ اس بات کے واضح امکانات موجود ہیں کہ چند کیسز میں افراد سے غیر ارادی غلطی ہوئی ہو، راؤ عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ جب جسم کے کسی حصے کو کینسر ہو جائے تو اسے کاٹ کر پھینک دیا جاتا نا کہ اس کا علاج کیا جاتا ہے۔

راؤ عبدالرحیم ایف آئی آئی کی سائبر کرائم ٹیم کے ساتھ مل کر بدنیتی سے کام کرنے کی نفی کرتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے کبھی بھی کسی گرفتاری کے عمل میں ایف آئی اے کا ساتھ نہیں دیا۔ تا ہم ٹیکنیکل ثبوت اور سی سی ٹی وی فوٹیج ان کے دعووں کی نفی کرتے ہیں اور یہ بات واضح طور پر ثابت ہوتی ہے کہ راؤ عبدالرحیم کا بلاسفیمی بزنس گروپ اور ایف آئی اے کا سائبر کرائمز ونگ ایک دوسرے کی ملی بھگت کے ساتھ زیادہ تر کاروائیاں اکھٹے کرتے ہیں۔

شیراز احمد فاروقی

شیراز بلاسفیمی بزنس گروپ کے سرکردہ رہنما اور کور ٹیم کے رکن ہیں اور راولپنڈی/اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ وہ کئی سوشل میڈیا گروپس چلاتے ہیں اور توہین مذہب کے متعدد کیسز میں شکایت کنندہ بھی ہیں۔

شیراز احمد فاروقی، مرکزی رہنما بلاسفیمی بزنس گروپ

شہزاد خان ولد زرشاد خان

شہزاد، راؤ عبدالرحیم کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک ہیں۔ وہ گروپ کے دیگر ارکان اور متاثرین کو پھنسانے میں ملوث لڑکیوں سے رابطہ رکھتا ہے۔

شہزاد خان، شہزاد، راؤ عبدالرحیم کے دفتر میں کلرک اور بارہ لوگوں کے خلاف توہین مذہب اور توہین رسالت کے مقدمات کا مدعی

ایک سرکاری تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ شہزاد خان کے بینک اکاؤنٹ سے گروپ کے دیگر اراکین اور نئے شکایت کنندگان میں رقم تقسیم ہوتی ہے۔ اپنے بینک اکاؤنٹ کا استعمال کرتے ہوئے، اس نے بین الاقوامی انٹرنیٹ فون کمپنی ڈیلمونٹ کو بھی ادائیگی کی ہے۔ اس سروس کو کال کرنے والے کی شناخت ظاہر کیے بغیر انٹرنیٹ پر مبنی ٹیلی فون کال کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ فی الحال یہ تفتیش جاری ہے کہ آیا شہزاد اور توہین رسالت کے کاروباری گروپ نے اپنے متاثرین کو کال کرنے کے لیے اس سروس کا استعمال کیا۔ مزید برآں، شہزاد ابتدائی شکایات درج کرانے کے لیے درخواستیں تیار کرتا ہے۔ مختلف سرکاری دستاویزات میں، اس نے دو مختلف پتے فراہم کیے ہیں: ایک چارسدہ اور دوسرا اسلام آباد۔

شہزاد کے بنک اکائونٹ اسٹیٹمنٹ سے کالر آئی ڈی کے بغیر لوگوں کو انٹرنیٹ کالز کی سروس ڈل مونٹ کو کی گئی ادائیگی

فیکٹ فوکس کی طرف سے سوال کرنے پر راؤ عبدالرحیم نے کہا کہ انکے علم میں نہیں کہ شہزاد نے اپنے بنک اکائونٹ سے انکے گروپ کے لوگوں اور توہین رسالت کے نئے کیسز کروانے والوں کو رقوم بھیجی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں خفیہ انٹرنیٹ کالز کی کمپنی کو ادائیگیوں کا بھی علم نہیں۔

حسنات فاروق

حسنات کی کبھی انیقہ عتیق نامی لڑکی سے دوستی تھی۔ بعد میں، وہ اس کے خلاف شکایت کنندہ بن گیا، اور الزام لگایا کہ اس نے اس کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے توہین مذہب کا ارتکاب کیا تھا۔ انیقہ نے دعویٰ کیا کہ وہ حسنات کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنا چاہتی تھی جس کی وجہ سے اس نے اس پر توہین مذہب کا الزام لگایا۔ راؤ گروپ کے ایک اور رکن عمران خلیل اس کیس میں حسنات کے وکیل تھے۔ انیقہ کو اس کے بعد موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

 حسنات نے انیقہ کے خلاف کیس کے ذریعے توہین رسالت بزنس گروپ کے ساتھ اپنی شمولیت کا آغاز کیا۔ اب وہ مختلف افراد کے خلاف دو دیگر مقدمات میں بھی شکایت کنندہ ہے۔

حسنات، ایک ناکام عاشق مگر ایک کامیاب بلاسفیمی ایکٹیوسٹ، اس گروپ فوٹو میں حسنات دائیں سے تیسرے نمبر پر نظر آ رہا ہے

غضنفر علی

غضنفر راؤ عبدالرحیم کے ڈرائیور کے طور پر کام کرتا تھا۔ وہ توہین رسالت کے مقدمات میں بھی شکایت کنندہ ہے۔ سرکاری ریکارڈ ان سے منسلک چار مختلف پتے دکھاتا ہے: دو حیدرآباد، اور نوشہرو فیروز، سندھ کے ہیں اور راولپنڈی میں درج توہین مذہب کے مقدمے میں، وہ پیر وداہی، راولپنڈی میں ایک پتہ فراہم کرکے شکایت کنندہ بن گیا۔ اسلام آباد میں ایک اور کیس میں، اس نے اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ ون میں رہنے کا دعویٰ کیا ہے۔

حافظ احتشام احمد

احتشام لال مسجد سے تعلق کی وجہ سے اسلام آباد میں ایک جانا پہچانا کردار ہے۔ وہ توہین مذہب کے اس کاروباری گروپ کا سرگرم رکن ہے۔ اوپر دی گئی گروپ تصویر میں حافظ احتشام بھی نظر آ رہے ہیں۔

لاہور میں کیسز

لاہور میں مقدمات کے اندراج کے لیے یہ گروپ حسن معاویہ اور غلام مصطفیٰ چوہدری کی مدد سے کام کرتا ہے۔ حسن معاویہ مشہور مذہبی شخصیت حافظ طاہر محمود اشرفی کے چھوٹے بھائی ہیں۔ غلام مصطفیٰ "خاتم النبوت لائرز فورم” کے نام سے ایک پلیٹ فارم کے سربراہ ہیں۔

جال میں پھنسانے کا طریقہ واردات

بلاسفیمی بزنس گروپ کے اراکین مختلف فیس بک آئی ڈیز استعمال کرتے ہیں، متعدد واٹس ایپ اور گروپس کا انتظام کرتے ہیں جہاں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو شامل ہونے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ بہت سے لڑکوں کو پھنسانے کے لیے "لائبہ مذہبی کنگ”، "متحدہ مذہبی کہانی” اور "آزاد مذہبی علم” کے نام سے مشہور فیس بک اور واٹس ایپ گروپس کا استعمال کیا گیا ہے۔

واٹس ایپ اور فیس بک گروپس بنانے کے لیے سپین کے ورچوئل فون نمبرز استعمال کیے گئے۔ ان نمبروں کو گروپس قائم کرنے  کے لیے استعمال کیا گیا تھا، جس سے منتظمین اپنے پاکستانی سیل نمبروں کو ظاہر کرنے سے گریز کر سکتے تھے۔

"ایمان” نام کی ایک لڑکی کافی عرصے سے "لائبہ مذہبی کنگ” آئی ڈی چلا رہی تھی۔ اس نے خود کو ایک شادی شدہ خاتون کے طور پر پیش کیا جس کا شوہر بیرون ملک مقیم تھا اور اسلام آباد میں تنہا رہنے کا دعویٰ کرتی تھی۔ اس کے ساتھ فیس بک کی دوستی وٹس ایپ پر منتقل ہوجاتی ہے، جس کا آغاز میسج کے تبادلے سے ہوتا ہے، اس کے بعد وائس کالز اور ویڈیو کالز، آخر کار ان نوجوانوں کو اسلام آباد میں اس سے ملنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ کچھ متاثرین، ان ویڈیو کالز کے ذریعے اعتماد پیدا کر کے، اس سے ملنے سے پہلے قابل اعتراض مواد آن لائن شیئر کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر معاملات میں، متاثرین نے ایمان کو کبھی ذاتی طور پر نہیں دیکھا۔

پھر توہین رسالت کے کاروباری گروپ کا ایک رکن آن لائن شیئر کیے گئے مواد کا استعمال کرتے ہوئے شکایت درج کرائے گا۔ ایف آئی اے کا سائبر کرائمز ونگ نئے ٹارگٹ کو گرفتار کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ توہین مذہب کے کاروباری گروپ کے ساتھ ایف آئی اے کے تعاون کا واحد مقصد ہے۔

بعض صورتوں میں، عریاں تصویریں جن پر مذہبی شخصیات کے نام لکھے ہوتے ہیں، کسی دوست کو بھیجے جاتے ہیں۔ جب وصول کنندہ نے نامناسب مواد دریافت کیا اور احتجاج کیا تو بھیجنے والا اس قسم کی کوئی بھی چیز بھیجنے سے انکار کر دے گا۔ وصول کنندہ کا اصرار ہوگا کہ گستاخانہ تصاویر اس کے فون سے موصول ہوئی ہیں۔ جب مواد دکھانے کے لیے کہا جائے تو وصول کنندہ وہی تصویر بھیجنے والے کو واپس بھیجے گا۔ اس مقام پر، بھیجنے والا وصول کنندہ کو بلاک کر دے گا اور غائب ہو جائے گا۔ کچھ عرصے بعد، سائبر کرائمز ونگ کی ایک ٹیم کے ذریعے وصول کنندہ کو گرفتار کر لیا جائے گا اور اس پر گستاخانہ مواد کے موجد ہونے کا الزام لگایا جائے گا۔

 دوسرے معاملات میں، دوستی کے کچھ عرصے کے بعد، گستاخانہ مواد شیئر کرنے کے براہ راست مطالبات سامنے آئے۔ کچھ واٹس ایپ گروپس خاص طور پر فحش مواد شیئر کرنے کے لیے بنائے گئے تھے۔ فحش مواد کی مخصوص کیٹیگریز کو شئیر کرنے کی درخواستیں کی جاتی تھیں۔ بعد ازاں مذہبی موضوعات کے ساتھ فحش مواد شیئر کرنے کی درخواست کی جاتی تھی۔ اگر کوئی انکار کرتا ہے تو اسے اس پر مجبور کیا جاتا اور تعمیل کرنے کیلیے دباؤ ڈالا جاتا۔ اس طرح کی صورتحال میں، بعض کیسز میں، بعض اوقات غلطی کاامکان ہو بھی سکتا ہے۔ تاہم، اصل مجرم وہ ہیں جو اس جال کو ترتیب دیتے ہیں اور اس طرح کا مواد تیار کرتے ہیں۔ ان میں سے کسی کو بھی ایف آئی اے نے گرفتار نہیں کیا۔

جال میں پھنسانے والی لڑکیوں اور توہین مذہب کے کاروبار کرنے والے گروہ کے درمیان تعلق

ایک اہم سرکاری تحقیقات میں سامنے آیا کہ کال ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ راؤ عبدالرحیم کے کلرک شہزاد خان کا اپنے موبائل نمبر

03165155***

سے ایک لڑکی "ایمان” سے اس کے موبائل نمبر

03136431***

پر رابطہ رہتا تھا۔ فیکٹ فوکس نے اس حقیقت کی تصدیق متعلقہ دستاویزات سے بھی کی۔ ایمان وہ لڑکی ہے جس نے درجنوں افراد کو توہین مذہب کے مقدمات میں پھنسایا۔ ایمان اور راؤ عبدالرحیم کے قریبی ساتھی شہزاد خان کے درمیان ہونے والی یہ بات چیت اس گینگ کے ارکان کے درمیان قریبی ورکنگ ریلیشن شپ کی تصدیق کرتی ہے۔ راؤ اور ایمان اس پلاٹ کے مرکزی کردار ہیں۔

تاہم فیکٹ فوکس سے بات کرتے ہوئے راؤ عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ انہیں شہزاد کے کسی لڑکی سے رابطہ میں رہنے کا بالکل علم نہیں ہے۔

سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے اور بلاسفیمی بزنس گروپ کا براہ راست رابطہ اور مشترکہ کارروائیاں

ایف آئی آر نمبر 138/2023 کے معاملے میں، ملزم کے تحریری بیان کے مطابق، وہ نوکری حاصل کرنے کے بہکاوے کی وجہ سے اسلام آباد میں راؤ عبدالرحیم کے دفتر پہنچا، جہاں اس پر شدید تشدد کیا گیا اور راؤ عبدالرحیم اور اس کے ساتھیوں نے اسے اغوا کر کے ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے حوالے کیا۔

اسی طرح ایف آئی آر 85/2023 کے معاملے میں لڑکی ایمان نے بائیس جولائی دوہزار تئیس کو دن ایک بج کر اکتیس منٹ پر کال کر کے متاثرہ لڑکے کو اسلام آباد بلایا اور اسے بتایا کہ اسکا ڈرائیور اسے لے کر کے گھر آ جائے گا۔ متاثرہ لڑکے کو اگلی کال ڈرائیور کے نمبر 0336-53**240 سے رات دس بج کر بیالیس منٹ پر وصول ہوئی۔ یہ ڈرائیور دراصل بلاسفیمی بزنس گروپ کا مرکزی رہنما شیراز احمد فاروقی تھا جو لڑکے کو اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ میں راؤ عبدالرحیم کے ڈیرے پر لے آیا۔ رات کو لڑکے کو اسی ٹھکانے پر رکھا گیا۔

اگلے دن یعنی تئیس جولائی دوہزار تئیس کو اتوار کا دن تھا۔ اتوار کے دن ہی توہین رسالت کی ایف آئی آر درج ہوئی اور اتوار کے دن ہی گرفتاری ڈالی گئی اور لڑکے کو ایف آئی اے کے حوالے کیا گیا۔ تاہم ایک اہم سرکاری تحقیقات میں یہ انتہائی دلچسپ بات سامنے آئی کہ اگر لڑکے کے پاس موجود موبائل کے لوکیشن ڈیٹا کا تجزیہ کیا جائے تو وہ موبائیل بائیس جولائی دو ہزار تئیس کی رات اسلام آباد کے سیکٹر جی ایٹ کی ایک مخصوص لوکیشن پر آ گیا مگر اگلے دن جب ایف آئی اے لڑکے کو گرفتار کر کے ایک مختلف جگہہ پر لے گئی تب بھی موبائیل سیکٹر جی ایٹ کی اسی لوکیشن پر موجود رہا اور بعد میں ایف آئی اے کو دیا گیا۔ اس ٹیکنیکل ایوی ڈنس سے ثابت ہوتا ہے کہ بلاسفیمی بزنس گروپ اور سائبر کرائمز ونگ کس طرح اکھٹے کاروائیاں ڈالتے ہیں اور اسے مذہبی رنگ دیتے ہیں۔

اس سب کے علاوہ تین مختلف متاثرین کے خاندانوں نے فیکٹ فوکس کو بتایا کہ جب انکے خاندان کے فرد کو گرفتار کر کے ایف آئی اے لے جایا گیا تو راؤ عبدالرحیم وہاں پہلے سے موجود تھا۔

ٹویٹر پر راؤ عبدالرحیم کے لیگل کمیشن آن بلاسفیمی کے پیج پر اعلان کیا گیا اور بتایا کہ کس طرح انکا گروپ ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے کنٹریکٹ ملازمین کے مستقل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔

راؤ عبدالرحیم کے لیگل کمیشن آن بلاسفیمی کے ٹویٹر اکائونٹ پر ایف آئی اے کے ملازمین کیلیے اعلان

ایک تصدیق شدہ سی سی ٹی وی ویڈیو شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ چند ماہ پہلے ایف آئی آر نمبر 52/2024 میں ننکانہ صاحب سے ایک شخص گرفتار کرنے کیلیے شہزاد خان جو کہ راؤ عبدالرحیم کا قریبی ساتھی ہے اور بارہ افراد کے خلاف مقدمات میں شکایت کنندہ ہے، خود ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کے ساتھ مل کر ملزمان کو نہ صرف گرفتار کر رہا ہے بلکہ وہاں موجود دیگر شہریوں پر تشدد کر رہا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چونکہ ایف آئی اے کی ٹیم سول کپڑوں میں گرفتاری کر رہی تھی تو موقع پر موجود شہری یہ سمجھتے ہوئے کہ شاید لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں، دوسروں کو پکڑنے اور چھڑوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شہزاد خان ایسے شہریوں کو سبق سکھانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔

یہ ثبوت پوری کہانی کو ختم کرتا ہے کہ کس طرح بلاسفیمی بزنس گروپ درحقیقت کس طرح ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کے ساتھ کام کرتا ہے۔

مارچ دو ہزار چوبیس میں توہین مذہب کے ایک نامزد ملزم کو ننکانہ صاحب سے گرفتار کرنے کی ویڈیو، ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کی ٹیم راؤ عبدالرحیم کے دفتر میں کلرک شہزاد خان کی قیادت میں آپریشن کر رہی ہے۔

راؤ عبدالرحیم نے فیکٹ فوکس کو بتایا کہ اس سال مارچ میں ننکانہ صاحب سے ایک متاثرہ فرد کی گرفتاری کے وقت انکے کلرک شہزاد خان کے گرفتاری کے عمل میں ایف آئی اے کی ٹیم کا حصہ بننے کے بارے میں ان کے پاس معلومات نہیں ہیں۔

ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی کرپشن اور جرائم میں ملوث ہونے کی تاریخ

ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کی کرپشن اور شرمناک جرائم میں ملوث رہنے کی ایک پوری تاریخ ہے۔

سال دوہزار انیس میں اس وقت کے ایف آئی اے کے سرکل انچارج سجاد مصطفٰے باجوہ نے ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کو خط لکھا کہ ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ مختلف جرائم پیشہ افراد اور خواتین کے ساتھ مل کر شہریوں کو بلیک میل کرنے اور مجرمانہ کاروایوں میں ملوث ہے۔ سجاد مصطفٰے باجوہ نے ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے تمام افسران کو آخری وارننگ دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ اب جیسے ہی انہیں کوئی شکائت ملی وہ قانون کے مطابق کاروائی کریں گے۔

جب فیکٹ فوکس نے سجاد مصطفٰے باجوہ سے اس خط کے حوالے سے تصدیق کرنے کیلیے رابطہ کیا تو انہوں نے خود یہ خط لکھنے کی تصدیق کی۔

ایف آئی اے کے اس وقت کے سرکل انچارج سجاد مصطفٰے باجوہ کا دوہزار انیس میں ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کو لکھے گئے تاریخی خط کا عکس

بلاسفیمی بزنس گروپ کا چھوٹی عدالتوں اور ہائیکورٹ کے ججز کو دبائو میں لانے کا طریقہ کار

متاثرین کے لواحقین کے مطابق ان مقدمات کی عدالتی کارروائی کے دوران ججز، وکلاء اور اہل خانہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے ڈرانے دھمکانے کے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔

توہین مذہب کے کاروباری گروپ کے ارکان اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے ملازمین سمیت دیگر افراد عدالت میں آٹھ سے بارہ کے جتھے کی صورت میں پہنچتے ہیں۔ ان میں سے کچھ باہر سے کمرہ عدالت کا گھیراؤ کرتے ہیں اور بلند آواز سے نعرے لگاتے ہیں "گستاخ رسول کی ایک ہی سزا، سر تن سے جدا، سر تن سے جدا۔

توہین رسالت کے کاروباری گروپ اور ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے درمیان ہم آہنگی کی سطح اس حد تک ہے کہ بعض اوقات ایف آئی اے کے افسران پرائیویٹ لوگوں کو ساتھ عدالت لا کر ذاتی ویڈیو کیمرہ استعمال کرتے ہوئے کارروائی کے دوران ججوں کے طرز عمل کو ویڈیو پر ریکارڈ کرواتے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ میں ایک کیس کی کارروائی کے دوران ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایم اقبال نے ایسا ہی کیا جس کے بعد انکے خلاف توہین عدالت کی کاروائی شروع کرنے کا حکم دیا گیا۔ اگرچہ بعد میں کاروائی "بند ہو گئی” مگر یہ واقعہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ان حساس مذہبی معاملات کے کیسز میں کس طرح ججز کو دبائو میں رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کا حکم نامہ جو تب جاری ہوا جب ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کا افسر پرائیویٹ لوگوں کے ذریعے جج اور کورٹ روم کی ویڈیو بناتا ہوا پکڑا گیا۔

وہ گستاخانہ مواد کی بڑی، پرنٹ شدہ کاپیاں عدالت میں لہرانے، وکیل دفاع کو اسلام کا غدار قرار دینے جیسے حربے بھی استعمال کرتے ہیں۔ بعض اوقات وہ مخالف کونسل اور خاندان کے افراد کو جان سے مارنے کی کھلی دھمکیاں دیتے ہیں مگر عمومی طور پر ججز سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔

سپیشل برانچ کی رپورٹ

چار جنوری 2024 کو، ذوالفقار حمید، ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف پولیس (سپیشل برانچ) لاہور نے "دی بلاسفیمی بزنس” کے عنوان سے ایک "خصوصی رپورٹ” وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ، چیف سیکرٹری آفس، آئی جی پولیس آفس، ڈائریکٹر ایف آئی اے آفس کو بھجوائی۔ اسلام آباد ڈائری نمبر ایس آر نمبر 07/2024 کے ساتھ۔ رپورٹ کے ساتھ خط میں لکھا گیا ہے، ایک مشکوک گینگ نوجوانوں کو توہین رسالت کے مقدمات میں پھنسا رہا ہے اور راولپنڈی اور اسلام آباد میں FIA سے رجوع کر کے ان سے رقم بٹور رہا ہے۔  مزید تحقیق اور ضروری کارروائی کے لیے، گزارش ہے۔

مکمل رپورٹ یہاں سے ڈائون لوڈ کریں۔

ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس سپیشل برانچ ذولفقار حمید کا جنوری 2024 میں وزیر اعلٰی اورایف آئی اے کو سپیشل رپورٹ کے ہمراہ لکھے گئے خط کا عکس

سپیشل برانچ رپورٹ، صفحہ ایک

سپیشل برانچ رپورٹ، صفحہ دو

سپیشل برانچ رپورٹ، اردو، صفحہ ایک

سپیشل برانچ رپورٹ، اردو، صفحہ دو

سپیشل برانچ رپورٹ، اردو، صفحہ تین

نو جنوری 2024 کو، ڈائریکٹر ایف آئی اے، اسلام آباد نے وہی خصوصی رپورٹ چیف آف اسٹاف کو ڈی جی ایف آئی اے کو نمبر DIZ/S.O/Misc/2024/52 کے ذریعے بھیج دی۔ اسی طرح 24 جنوری 2024 کو ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ لاہور کے ایڈمن آفس نے یہ خصوصی رپورٹ لاہور اور راولپنڈی کے سائبر کرائمز ونگ کے ایڈیشنل ڈائریکٹرز کو بھجوا دی۔

رپورٹ کا مختصر خلاصہ (مکمل رپورٹ کی تصاویر اوپر دکھایا گیا ہے) یہ ہے کہ ایک گروہ توہین مذہب کے کاروبار میں ملوث ہے اور نوجوانوں کو پھنس رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق شیراز احمد فاروقی اس گینگ کا سرغنہ ہے اور راؤ عبدالرحیم اس گینگ کا سینئر رکن ہے۔