قندیل عظیم
ایک ایسے وقت میں جب حکومت دہشت گرد تنظیم تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی عائد کرنے کے منصوبے پر آگے بڑھ رہی ہے، اہم دستاویزات اور ڈیجیٹل فٹ پرنٹس کے تفصیلی معائنے سے پتا چلتا ہے کہ نہ صرف بدنام زمانہ "بلاسفیمی بزنس گروپ” (بی بی جی) کے زیادہ تر ارکان ٹی ایل پی سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ اس جماعت کے سربراہ سعد رضوی نے بھی بارہا اس گروہ کے انتہاپسند کارندوں کو تحفظ فراہم کرنے اور ان کی مدد کرنے کے لیے مداخلت کی ہے۔
بی بی جی ایک گروہ ہے جس کا مرکزی دفتر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع ہے اور اس کا وسیع نیٹ ورک ملک کے کئی شہروں تک پھیلا ہوا ہے۔ اس گروہ نے سینکڑوں شہریوں — جن میں 400 سے زائد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل ہیں — کو جھوٹے توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسایا، جن میں سے بیشتر طویل عرصے سے جیلوں میں قید ہیں۔ اگرچہ بی بی جی کو لاہور، کراچی، پشاور اور دیگر شہروں میں مختلف انتہاپسند عناصر کی حمایت حاصل ہے، لیکن توہینِ مذہب کے اس کاروباری نیٹ ورک کے ہر درجے پر ٹی ایل پی کے واضح نقوش دیکھے جا سکتے ہیں۔
ٹی ایل پی بلاسفیمی بزنس گروپ اور اسکے بیانیے کو کیسے کنٹرول کرتی ہے؟
بلاسفیمی بزنس گروپ ٹی ایل پی کی سرپرستی میں کام کرتا رہا ہے، جبکہ بی بی جی کے کئی اہم ارکان ٹی ایل پی میں فعال کردار بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ راؤ عبد الرحیم کی نام نہاد تنظیم "لیگل کمیشن آن بلاسفیمی” (جسے عوامی سطح پر بلاسفیمی بزنس گروپ یا بی بی جی کے نام سے جانا جاتا ہے) اکثر ٹی ایل پی کے ساتھ اس کی قانونی ٹیم کے طور پر کام کرتی نظر آتی ہے۔ متعدد پلیٹ فارمز پر بی بی جی کے اراکین کو "سر تن سے جدا” تحریک کی تشہیر کرتے دیکھا گیا ہے، جو ٹی ایل پی کی انتہا پسندانہ سوچ کی نمایاں پہچان ہے۔
اس تعاون کی ایک نمایاں مثال اس وقت سامنے آئی جب جسٹس اعجاز اسحاق نے شفافیت اور انصاف کے مقصد کے تحت ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ (اب این سی سی آئی اے) اور بلاسفیمی بزنس گروپ کی ملی بھگت اور سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن کی تشکیل سے متعلق عدالتی کارروائیوں کو قوم کے سامنے براہِ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے جواب میں بلاسفیمی گینگ اور ٹی ایل پی کے ارکان نے عدالت کے باہر احتجاج کیے اور دھمکیاں دیں، جس سے ان دونوں کی عدلیہ کو خوفزدہ کرنے اور کمیشن کی تشکیل کو روکنے کی منظم کوششیں واضح ہو گئیں۔
جب بلاسفیمی گینگ کی سرگرمیوں کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد کمیشن کے قیام سے متعلق عدالت کی کارروائی براہِ راست نشر ہو رہی تھی، اور راؤ عبد الرحیم پوری قوم کے سامنے بے نقاب ہونا شروع ہوئے، تو تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے رہنما بلاسفیمی گینگ کی مدد کو پہنچ گئے۔ دونوں نے مل کر ایک سلسلہ وار کانفرنسوں کا انعقاد کیا جن میں اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز تقاریر کے ذریعے جسٹس سردار اعجاز اسحاق کو خوفزدہ کرنے اور پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی تاکہ کمیشن کے قیام کو روکا جا سکے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے صرف ایک کمیشن کے قیام کا حکم دیا تھا تاکہ اس معاملے کی حقیقت معلوم کی جا سکے جس میں سینکڑوں افراد کے خلاف ایک جیسے بے شمار مقدمات درج کیے گئے تھے، جن میں 400 سے زائد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں شامل تھیں۔ ان مقدمات کی بیشتر شکایات اسی بلاسفیمی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے درج کرائیں۔ تقریباً ہر کیس میں، اس گروہ سے وابستہ خواتین کو متاثرہ افراد کو پھانسنے میں ملوث پایا گیا، جن پر بعد میں توہینِ مذہب کے الزامات عائد کیے گئے۔ یہ الزامات مشکوک حالات میں لگائے گئے تھے، اور اب تک کچھ بھی ثابت نہیں ہوا تھا۔ جج کے کمیشن بنانے کے حکم کا مقصد ان توہینِ مذہب کے مقدمات کی کارروائی روکنا نہیں تھا جو ماتحت عدالتوں میں جاری تھیں، بلکہ یہ جانچنا تھا کہ آیا بلاسفیمی بزنس گروپ اور ایف آئی اے کے سائبر کرائم وِنگ (اب این سی سی آئی اے) کے افسران کے درمیان کوئی تعلق موجود ہے یا نہیں۔
یہاں تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے چند حالیہ اہم پروگراموں کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جن کے دوران پارٹی نے تمام ملزمان جن پر صرف الزام لگا تھا ان سب کو “توہینِ مذہب کرنے والا” قرار دیا اور علانیہ طور پر ان کے قتل کے ارادے کا اعلان کیا، ساتھ ہی اس اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو بھی نشانہ بنانے کی دھمکی دی جس نے حقائق معلوم کرنے کے لیے کمیشن کے قیام کا حکم دیا تھا۔
ٹی ایل پی کے حالیہ ایک نہایت اہم عوامی اجتماع میں اس کے سربراہ سعد رضوی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق سے کہا:
“آپ کمیشن بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ ہم کلاشینکوف کی بات کریں گے۔ کمیشن بنا لیں — جو چاہیں کریں۔ اگر کوئی کسی وزیر اعلٰی پر تنقید کرے تو اسے اٹھا کر مجبوراً معافی دلائی جاتی ہے۔ ‘توہین کرنے والوں’ کا کون مقابلہ کرے گا؟ اگر ہم مداخلت کریں گے تو آپ ہمیں پرتشدد کہیں گے۔ ہاں، ہم مانتے ہیں کہ حضورِ اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حرمت کے دفاع میں ہم پرتشدد ہوں گے۔ آپ ہمیں لاکھ بار دہشت گرد کہہ سکتے ہیں۔ ہاں، پیغمبر کی حرمت کے معاملے میں ہم دہشت گرد ہیں۔ اگر پیغمبر کی حرمت کے دفاع کو جرم سمجھا جاتا ہے تو ہم یہ جرم سو بار بھی دہرائیں گے۔”
ٹی ایل پی کے اسی جلسے میں سعد رضوی نے پارلیمنٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج کو دھمکیاں دیتے ہوئے کہا:
“چاہے کوئی پاکستان کی پارلیمنٹ کا رکن ہو یا اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج، میں اُس ‘ڈیڑھ فٹے’ شخص (حوالہ جسٹس اسحاق) سے کہنا چاہتا ہوں کہ آپ غلطی پر ہیں اور آپ غلطی سے یقین رکھتے ہیں کہ آپ توہین کرنے والوں کو بچا سکیں گے (سعد رضوی یہ بات توہین کا صرف الزام لگنے پر ٹریپ ہونے والے بچوں کو حقیقی توہین کرنے والا سمجھ کر کر رہے ہیں۔) ہم جانتے ہیں کہ یہ توہینِ مذہب کا قانون کمزور ہے؛ درحقیقت ہمارے پاس "عمر لا” موجود ہے (عمر لا کے الفاظ کے استعمال سے سعد رضوی کہ رہے ہیں کہ ہم توہین کے الزام کا سامنا کرنے والے کسی بھی شخص کو بغیر قانونی عمل کے قتل کر سکتے ہیں)۔ ہم اپنے وکلاء کی تعریف کرتے ہیں جنہوں نے آپ کی بے شرمی کا بہادری سے مقابلہ کیا، مگر یاد رکھیں: ہمیں آپ کے عدالت میں پیش ہونے کے لیے وکلاء کی ضرورت ہے؛ عمر کے عدالت کے لیے ہمیں کسی وکیل کی ضرورت نہیں۔ یاد رکھیں کہ اس کے لیے ہمیں ممتاز قادری کی ایس ایم جی (چھوٹی مشین گن) اور غازی علم الدین کی خنجر چاہیے۔ آپ کچھ نہیں ہیں؛ آپ کا خاندان کچھ نہیں ہے؛ کوئی ملک بھی نہیں — اگر ہمیں اپنے نبی کی حرمت کے لیے پوری دنیا کو تباہ کرنا پڑے، تو ہم ایک لمحے کے لیے بھی ہچکچائیں گے نہیں۔”
اسی طرح ٹی ایل پی ایک اور اجتماع میں اس تنظیم کے سینئر رہنما نعیم چٹھہ نے ان الفاظ میں دھمکی دی:
“ایک جج نے کمیشن بنانے کا حکم دیا ہے۔ ٹی ایل پی کا باقاعدہ موقف ٹی ایل پی کے سربراہ دیں گے۔ لیکن میں آپ کو بتا دوں: یہ ممکن نہیں کہ ایک جج، جو دو فٹ کی کرسی پر بیٹھا ہے، 400 ‘توہین کرنے والوں’ (یہ فرض کرتے ہوئے کہ ٹریپ کیے جانے کے بعد الزامات کے سامنا کرنے والے نوجوان واقعی توہین کرنے والے ہیں) کی رہائی کا راستہ ہموار کرے جبکہ ہم بے عمل بیٹھے رہیں۔ امام مالک نے کہا تھا کہ یا تو ہمیں حضورِ اقدس کی بے حرمتی کا بدلہ لینا چاہیے یا ہم سب مر جائیں۔ اگر یہ توہین کرنے والے جیل سے باہر آئے تو ہم جتنے ہو سکے انہیں ذبح کر دیں گے۔”
ٹی ایل پی کے ایک اور اجتماع میں، "علامہ” فاروق حسن، اس دہشت گرد تنظیم کے سینئر رہنما نے کہا:
“اب جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک جج توہین کرنے والوں کی حمایت کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں (وہ خود انہی نوجوانوں کو جو پھانسنے کے بعد توہین کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، حقیقی توہین کرنے والے سمجھتے ہیں)، ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں: اے بے وقوف جج، آپ نے اپنی دو فٹ کی کرسی پر بیٹھ کر پیغمبر کے حق کو بھلا دیا؛ آپ یورپ کی چاپلوسی کرنے لگے ہیں۔ ایک بات ذہن میں رکھیں: اگر آپ نے یہ ہمت کی ہے کہ یہودیوں اور مسیحیوں کے کہنے پر توہین کرنے والوں کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، تو آج بھی ٹی ایل پی کے لوگ — ملک بھر میں پیغمبر کے پیروکار — ممتاز قادری بننے کے لیے تیار ہیں۔”
یہاں پر "ممتاز قادری” بننے کا مطلب اس دہشت گرد رہنما کی طرف سے جج اور توہین کے الزامات میں ملوث افراد کو قتل کرنے کی طرف اشارہ ہے۔ ممتاز قادری ایک بدنام زمانہ قاتل ہے جس نے بطور ذاتی محافظ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو دوہزارگیارہ میں اسلام آباد میں قتل کر دیا تھا۔ قاتل قادری نے یہی الزام لگایا تھا کہ سلمان تاثیر نے توہین رسالت کی جب کہ ایک حقیقت میں سلمان تاثیر ایک معصوم کرسچن خاتون آسیہ بی بی کی بے گناہی پر پر بات کرہے تھے اور قانون توہین رسالت میں بہتری کی باتیں کر رہے تھے۔ بعد میں عدالت میں ثابت ہوا کہ آسیہ بی بی بے گناہ تھیں اور ان پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام بالکل جھوٹا تھا۔
بلاسفیمی بزنس گروپ کے ہمراہ ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ (اب این سی سی آئی اے) میں منعقدہ ایک تقریب میں، جس میں ٹی ایل پی کی اعلیٰ قیادت بشمول اس کے سربراہ سعد رضوی بھی موجود تھے، ایف آئی اے کے اہلکاروں نے وکلاء کو دھمکیاں دیں اور انہیں کہا کہ وہ توہینِ مذہب کے مقدمات میں ملوث افراد کی وکالت نہ کریں۔ ایف آئی اے کے اہلکار (اب این ڈی این سی سی آئی اے میں اے ڈی ہیں) سرفراز چوہدری نے ٹی ایل پی کے بانی خادم رضوی اور ان کے بیٹے سعد رضوی کو خراجِ تحسین پیش کیا، جو کانفرنس کی صدارت کر رہے تھے۔
اسی طرح اس انتہائی اہم عوامی اجتماع میں ٹی ایل پی لیڈر اپنے سے اختلاف رکھنے والوں کے خلاف کسی قانونی کاروائی وغیرہ کا مطالبہ کرنے کی بجائے اعلان کر رہے ہیں کہ وہ خود ان سب مخالفیں کو مار دیں گے او ریہی نہیں ان کو پیدا کرنے والے سب کے سب یہودیوں کو بھی ختم کر دیں گے۔
تحریک لبیک اور بلاسفیمی بزنس گروپ کے رہنماؤں کی قربتیں
راؤ عبدالرحیم ایڈوکیٹ
ایڈووکیٹ راؤ عبد الرحیم، جو "بلاسفیمی بزنس گروپ” (Blasphemy Business Group) کے ماسٹر مائنڈ ہیں، تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے ساتھ نہایت قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ راؤ اور ان کے کچھ خاندانی افراد ماضی میں ایک اور دہشت گرد تنظیم سے وابستہ رہے ہیں، اگرچہ وہ خود ٹی ایل پی کے رکن نہیں ہیں۔ وہ اکثر ٹی ایل پی کی کانفرنسوں میں شریک نظر آتے ہیں اور ایسے جذباتی تقاریر کے لیے مشہور ہیں جو تشدد پر اُکساتی ہیں۔
ٹی ایل پی کے زیرِ اہتمام ایک تقریب میں راؤ عبد الرحیم نے کہا کہ پاکستان دو مقاصد کے لیے آزاد ہوا — ختمِ نبوت اور ناموسِ رسالت — اور ایک طویل جدوجہد کے بعد توہینِ مذہب کے مجرموں کو سزا دینے کے لیے قانون سازی کی گئی۔ راؤ نے کہا کہ جب پارلیمنٹ میں ایک مخصوص لابی نے اس قانون میں ترمیم کی کوشش کی، تو ہم اسلام آباد کی سڑکوں پر نکل آئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نبی اکرم ﷺ کے عاشق ایسی سازشوں کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہوں گے۔
راؤ عبدالرحیم عموماً تحریک لبیک کے دہشت گردوں کے ساتھ نظر آتے ہیں جیسا کہ زیرنظر تصویر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔

راؤ عبد الرحیم عدالت میں لیپ ٹاپ لے کر پیش ہونے والوں اور پگڑیوں والوں میں کیا فرق کرتے ہیں۔
شیراز فاروقی
شراز احمد فاروقی، جو بلاسفیمی بزنس گروپ کا اہم رہنما ہے، تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا ایک پکا حامی ہے، جس کا ثبوت اس کی سرگرمیوں اور روزانہ کی بنیاد پر کیے جانے والے سوشل میڈیا پوسٹس سے بخوبی ملتا ہے۔ وہ سوشل میڈیا پر اکثر ٹی ایل پی کے ایجنڈے کو فروغ دیتا ہے، اشتعال پھیلاتا اور مرنے مارنے کی باتیں کرتا ہے۔ حالیہ دنوں میں، پنجاب پولیس کی جانب سے ٹی ایل پی کے پرتشدد مظاہروں پر کارروائی کے دوران، اس نے تشدد پر اکسانے والے پیغامات اور سیاستدانوں کو دھمکیاں دینے والے بیانات شائع کیے۔
جولائی 2024 میں فیکٹ فوکس کی جانب سے جاری کی گئی پنجاب پولیس اسپیشل برانچ کی رپورٹ میں فاروقی کو بلاسفیمی بزنس گروپ کا سربراہ قرار دیا گیا تھا۔



شیراز فاروقی تحریک لبیک کے لوگوں سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں۔
عثمان صدیقی اور شہزاد خان
عثمان صدیق اور شہزاد خان بلاسفیمی بزنس گروپ کے نمایاں ارکان اور تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے سرگرم کارکن ہیں۔ عثمان اور شہزاد، بلاسفیمی گینگ کی جانب سے متعدد توہینِ مذہب کے مقدمات میں شکایت کنندگان ہیں جن میں زیادہ تر نوجوان شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ فیکٹ فوکس نے جولائی 2024 میں پہلی بار شہزاد خان کی سرگرمیوں کو بے نقاب کیا، جس میں اس کی جانب سے توہینِ مذہب کے الزامات میں ملوث افراد کی غیرقانونی “گرفتاریوں” میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا گیا تھا اور اس عمل کی ویڈیو بھی جاری کی گئی۔ عثمان اور شہزاد دونوں کئی مشکوک توہینِ مذہب کے مقدمات میں شکایت کنندگان ہیں، جو اس بات کو مزید واضح کرتا ہے کہ وہ قانون کو اپنے گروہ کے ایجنڈے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

دونوں افراد غیر قانونی اغوا اور تشدد میں ملوث ہیں اور ساتھ ہی وہ نام نہاد “لیگل کمیشن آن بلاسفمی” کے سوشل میڈیا پیجز بھی چلاتے ہیں۔ ان پلیٹ فارمز پر وہ خود کو کھلے عام تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے رکن ظاہر کرتے ہیں اور دھمکی آمیز پیغامات جاری کرتے ہیں، جن میں “سر تن سے جدا” جیسے انتہائی اشتعال انگیز جملے بھی مسلسل شامل ہیں۔
