ملک کی تاریخ کے سب سے مہلک دہشت گرد حملے میں، 16 دسمبر 2014 کو بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشت گردوں نے اے پی ایس کی عمارت پر حملہ کیا، جس میں 147 افراد، جن میں 132 اسکول کے بچے شامل تھے، شہید ہوگئے۔
حملہ:
16 دسمبر کی صبح دہشت گردوں نے اسکول کی حدود میں داخل ہو کر تقریباً 10 بجے حملہ شروع کیا۔ حملہ آوروں نے اندر داخل ہو کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ دہشت گرد کمرہ جماعت سے کمرہ جماعت جاتے رہے، جہاں انہوں نے طلباء اور اساتذہ کو نشانہ بنایا۔ زندہ بچ جانے والوں نے یہ ہولناک مناظر بیان کیے، جن میں طلباء کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ساتھیوں اور اساتذہ کی قتل و غارت گری کو دیکھیں۔ حملہ آوروں نے مبینہ طور پر یہ نعرے لگائے کہ وہ قبائلی علاقوں، خاص طور پر شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائیوں کا بدلہ لے رہے ہیں۔
یہ قتل و غارت کئی گھنٹوں تک جاری رہی، یہاں تک کہ پاکستانی فوج نے شام تک ساتوں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا۔
جانی نقصان:
اس حملے میں 147 افراد شہید ہوئے، جن میں 8 سے 18 سال کی عمر کے 132 بچے شامل تھے۔ اساتذہ، اسکول کے عملے کے افراد اور پرنسپل طاہرہ قاضی، جو طلباء کو بچانے کی کوشش میں بہادری سے شہید ہوئیں، بھی اس سانحے کا نشانہ بنے۔ اس کے علاوہ 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے کئی کی حالت نازک تھی۔
ٹی ٹی پی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستانی فوج کی جاری آپریشن ضربِ عضب کا بدلہ تھا، جو شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کے خلاف چلایا جا رہا تھا۔ تنظیم کے ترجمان نے کہا کہ انہوں نے جان بوجھ کر اسکول کو نشانہ بنایا کیونکہ وہاں زیادہ تر طلباء فوجی اہلکاروں کے بچے تھے۔
ردعمل اور قومی اقدامات:
اے پی ایس حملے کے نتیجے میں پورے ملک میں احتجاج، دعائیہ اجتماعات اور انصاف کے مطالبے کیے گئے۔ اس سانحے کے بعد حکومت اور فوج نے چند اہم اقدامات کیے:
نیشنل ایکشن پلان (NAP): حکومت نے دہشت گردی کے خلاف 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا، جس میں موت کی سزا پر پابندی کا خاتمہ اور انتہا پسند گروہوں کے خلاف کارروائیاں شامل تھیں۔ فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور قبائلی علاقوں میں جاری آپریشن میں تیزی لائی گئی۔
احسان اللہ احسان کی گرفتاری:
تحریکِ طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کو 2017 میں پاکستانی فوج نے حراست میں لیا۔ احسان اللہ احسان پر آرمی پبلک اسکول پر کیا جانے والا ہولناک حملہ سمیت ملالہ ہوسفزئی پر کیا جانے والا حملے کے الزامات بھی شامل تھے لیکن 2020 میں احسان اللہ احسان پاکستان سیکورٹی فورسز کی حراست سے حیران کن طور پر فرار ہو گیا اور پھر ایک آڈیو پیغام میں یہ دعوی کیا کہ وہ اور اس کا خاندان پاکستان سے بھاگ چکے ہیں۔ احسان اللہ احسان کو تین سال کے عرصے میں اس پر لگے الزامات کی کوئی سزا نہیں دی گئی اور رپورٹس کے مطابق اس کو ان ہولناک جرائم کے الزامات کے باوجود ایک جیل میں دوسرے مجرموں کی طرح رکھنے کی بجائے کسی سیف ہاوس میں رکھا گیا۔ البتہ یہ بات ابھی تک ایک معمہ ہے کہ احسان اللہ احسان پاکستانی سیکورٹ ایجنسیز کی حراست سے کیسے فرار ہوا یا اسے فرار کیا گیا۔
شہید بچوں کے والدین:
اے پی ایس پشاورسانحہ میں شہید ہونے والے بچوں کے والدین:
پشاور سانحہ میں شہید بچوں کے والدین نے سانحہ کی دوسری برسی پر ہی کئی شکایات سامنے لائیں۔ ان کے والدین نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اس سانحہ کی انکوائری مین کوئی ترانسپیرینسی نہیں۔ اور وہ اس حملے سے متعلق کاروائی سے مطمئن نہیں ہیں۔ انھوں نے مزید یہ بھی بتایا کہ انھیں اس کاروائی پر کسی بھی قسم کی تنقید کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ اور ان کے بیانات کو ٹی وی پر نشر ہونے سے بھی روک دیا۔
عدالتی کمیشن:
آرمی پبلک اسکول پشاور کے دہشت گرد حملے کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن اکتوبر 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے قائم کیا تھا۔
جسٹس ابراہیم کو اس کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ عدالتی کمیشن نے 30 جون 2020 کو اپنی تحقیقات مکمل کیں اور نتیجہ اخذ کیا کہ پاکستان کے دشمنوں کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی 2013-2014 میں اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔
عدالتی کمیشن کے اہم نکات:
رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں داخلی اور خارجی دشمنوں کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردی 2013-2014 میں اپنی انتہا کو پہنچی۔
- کمیشن نے دہشت گردوں کو فراہم کی گئی مقامی مدد کو ناقابل معافی قرار دیا، جس کی وجہ سے یہ حملہ ممکن ہوا۔
- یہ بھی واضح کیا گیا کہ انٹیلیجنس اور سیکیورٹی اقدامات میں خامیاں موجود تھیں، حالانکہ ایسے حملوں کا خدشہ پہلے سے ظاہر کیا جا چکا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، تعلیمی اداروں پر ممکنہ حملے کی پیشگی اطلاعات ہونے کے باوجود کارروائی میں ناکامی ایک بڑی غلطی تھی۔
ایک اہم نتیجہ یہ تھا کہ اندرونی غداری اور حملہ آوروں کو فراہم کی گئی مدد اس سانحے میں کلیدی کردار ادا کر گئی۔ کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا؛
"جب دشمن اندر موجود ہو، تو کوئی بھی ادارہ، چاہے جتنا بھی قابل یا جدید آلات سے لیس ہو، کسی حملے کو روک نہیں سکتا۔”
رپورٹ نے دہشت گردوں کو ختم کرنے میں سیکیورٹی فورسز کی بہادری کو تسلیم کیا، لیکن ان کے اسکول پہنچنے میں ہونے والی تاخیر پر بھی تنقید کی، جس کی وجہ سے حملہ آور زیادہ نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔
کمیشن نے سول اور عسکری حکام کے درمیان کوآرڈینیشن کی کمی کو اجاگر کیا، جو خاص طور پر خطرناک علاقوں کے اسکولوں کی حفاظت کے لیے ضروری تھی۔
سقوطِ ڈھاکہ کو 53 سال گزر گئے:
مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے 53 برس گزر چکے ہیں۔ پاکستان میں 1970 کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی بحران کا نتیجہ 16 دسمبر 1971 کو سقوطِ ڈھاکہ یعنی مشرقی پاکستان کی علیحدگی اور بنگلہ دیش کے قیام کی صورت میں نکلا۔ اس بحران میں پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے، عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مچیب الرحمان، بھارت کی مداخلت، یحیی خان کی مارشلا حکومت، سابقہ آمر جنرل ایوب خان، پنجابی سول سٹیبلشمنٹ اور کچھ دیگر کے کردار پر سوال اٹھتے رہے ہیں۔ ان سب پر لگائے جانے والے الزامات کی حقیقت کیا ہے اور کیا پاکستان توڑنے کا ذمہ دار کون تھا سب حقائق تاریخ میں موجود ہوتے ہوئے بھی قومی منظر نامے پر مختلف بیانیے فروغ پذیر ہیں۔
مشرقی پاکستان کی پاکستان سے علیحدگی اور بنگلہ دیش کا قیام دنیا کی معلوم تاریخ میں پہلا واقعہ تھا جب اکثریت نے اقلیت سے آزادی حاصل کی۔اس سے قبل پاکستان میں ایک نعرے نظریہ پاکستان کا دور دورہ تھا۔نظریہ پاکستان کا پرچار کرنے والے اس نعرے کی تعریف یوں کرتے تھے کہ مسلمان اور ہندو کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔بنگلہ دیش کے قیام کے ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ نا انصافی کی موجودگی میں مسلمان بھی مسلمان کے ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
۔1966 میں عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب نے حکومت سے 6 نکاتی مطالبہ کیا تھا۔جن میں پہلا مطالبہ یہ تھا کہ مشرقی پاکستان کے لیے علیحدہ فوج تشکیل دینے کا اختیار دیا جائے۔دورسر مشرقی پاکستان کی مقامی حکومت کو ٹیکس وصولی کا اختیار دیا جائے اس وصول شدہ ٹیکس میں سے کچھ حصہ وفاق کو دیں گے۔تیسرا یہ کہ مشرقی پاکستان کو آزاد وزارت خارجہ تشکیل دینے کی اجازت دی جائے۔
مشرقی اور مغربی پاکستان میں فوجی مارشلا ایڈمنسٹریٹڑ کے خلاف بھرپور عوامی تحریکوں کے نتیجے میں ایوب خان اقتدار چھوڑنے پر مجبور ہوئے مگر انہوں نے اقتدار قومی اسمبلی کے بنگالی سپیکر کے سپرد کرنے کی بجائے جنرل یحیی خان کو سونپ دیا۔
انتخابات کے نتیجے میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان سے 167 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان سے 81 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔باقاعدہ آئین موجود نہ ہونے کا باعث انتخابات کے نتائج مسائل کو ختم کرنے کی بجائے مسائل میں اضافے کا باعث بنے۔مشرقی اور مغربی پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے مابین اقتدار کے حصول کے لیے رسہ کشی جاری رہی۔
اس دوران بنگالی نوجوانوں کی عسکری تنظیم مکتی باہنی نے پاکستانی فوج کے خلاف سارے مشرقی پاکستان میں گوریلا جنگ شروع کر دی۔مکتی باہنی کو بھارت کی طرف سے فوجی مدد ملنے کے بعد شکست پاکستانی فوج کا مقدر بن گئی۔16 دسمبر 1971 کو ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں پاکستانی فوج کے جنرل امیر عبداللہ خان نیازی بھارتی جنرل اروڑہ سنگھ کے سامنے ہتھیار ڈالے۔دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلا موقع تھا کہ جب اتنی بڑی تعداد میں 90 ہزار فوجیوں نے ہتھیار ڈالے۔اس کے ساتھ ہی سقوط ڈھاکہ اور بنگلہ دیش کا قیام وقوع پذیر ہوا۔
ایک طرف بھارتی جنرل اروڑہ سنگھ کے سامنے پاکستانی جرنیل کے ہتھیار ڈالنے کی تصویر اس وقت سے گزشتہ ہفتے تک بھارتی آرمی چیف کے دفتر میں مہمانوں کے کمرے میں آویزاں رہی۔گزشتہ ہفتے آرمی چیف کے دفتر سے اس تصویر کو ہٹا دیا گیا ہے جس پر بھارت میں سوشل میڈیا پر شدید احتجاج کیا جا رہاہے.دوسری طرف پاکستان اپنے سے الگ ہونے والے ملک بنگلہ دیش کو کھونے پر سانحہ سقوط ڈھاکہ کے عنوان سے تعزیتی تقریبوں میں اپنا دایاں بازو کھونے پر نوحہ کناں ہے۔