غیر قانونی طور پر یونان داخل ہونے والی کشتی کو حادثہ، ایک پاکستانی جاں بحق 135 کو بچا لیا گیا

یونان کے جزیرہ کریٹ کی تصویر

اسلام آباد پاکستانی وزارت خارجہ نے اتوار کے روز تصدیق کی ہے کہ یونان میں گزشتہ روز ہونے والے کشتی الٹنے کے واقعات میں ہلاک ہونے والوں میں ایک پاکستانی شہری بھی شامل ہے، جب کہ بچائے جانے والوں میں 47 پاکستانی بھی شامل ہیں۔

یونان کے جنوبی جزیرے گاوڈوس کے قریب لکڑی کی کشتی کے الٹنے کے بعد متعدد تارکین وطن ڈوب گئے۔کشتی میں کئی پاکستانی سوار تھے، کشتی حادثہ کے عینی شاہدین نے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ بہت سے افراد لاپتہ ہیں۔کوسٹ گارڈز کا کہنا ہے کہ ڈوبنے والوں کی تلاش کے لیے کارروائیاں جاری ہیں۔

یونانی کوسٹ گارڈ نے بتایا کہ بچائے گئے افراد کو کریٹ کے جزیرے پر منتقل کر دیا گیا ہے، انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کی تعداد کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔کوسٹ گارڈ کی کشتیاں، تجارتی جہاز، ایک اطالوی فریگیٹ اور بحریہ کے طیارے اس علاقے کی تلاشی لے رہے ہیں۔یونانی حکام کو جمعہ کی رات اس واقعے کے بارے میں آگاہ کیا گیا تھا۔

ہفتے کے روز الگ الگ واقعات میں، مالٹا کے جھنڈے والے کارگو جہاز نے گاوڈوس سے تقریباً 40 سمندری میل دور ایک کشتی سے 47 تارکین وطن کو بچایا، جب کہ ایک ٹینکر نے یونان کے جنوب میں واقع چھوٹے سے جزیرے سے تقریباً 28 سمندری میل دور دیگر 88 تارکین وطن کو بچایا۔

وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ایتھنز میں پاکستان کا سفارت خانہ ہیلینک کوسٹ گارڈ اور چانیا کے کوسٹ گارڈ کے ساتھ رابطے میں ہے، جو براہ راست تلاش اور بچاؤ آپریشن سے نمٹ رہے ہیں۔ "سفارت خانے کے اہلکار بازیاب کرائے گئے پاکستانیوں سے ملنے اور انہیں ہر قسم کی مدد فراہم کرنے کے لیے کریٹ پہنچ گئے ہیں۔”

وزارت خارجہ نے مزید کہا کہ اس نے یونان میں پاکستانیوں کی سہولت کے لیے اپنے کرائسز مینجمنٹ یونٹ (CMU) کو فعال کر دیا ہے۔ یونان میں پاکستانی شہریوں کو سی ایم یو سے (051-9207887) یا (cmu1@mofa.gov.pk) پر رابطہ کرنے کی ترغیب دی گئی۔جبکہ لاپتہ پاکستانیوں کے اہل خانہ تفصیلات بتانے کے لیے سفارت خانے سے رابطہ کر سکتے ہیں (+30-6943850188)۔

بحیرہ روم کشتی حادثے میں 2023 میں 200 سے زائد پاکستانی ڈوب کر ہلاک ہوئے تھے

۔14 جون 2023 کو جنوبی یونان کے ساحل پر ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی کشتی ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا تھا جسے یورپ میں تارکین وطن کو پیش آنے والے بدترین واقعات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ کشتی ڈوبنے کے اس واقعے میں اب تک سینکڑوں تارکین وطن افراد ہلاک ہو گئے تھے۔اس کشتی پر کم از کم 209 پاکستانی سوار تھے۔7اپریل 2024 کہ پنجاب پولیس پولیس نے یونان کشتی حادثے کے مرکزی ملزم کو سرگودھا سے گرفتار کرنے کا دعوی کیا تھا۔

پولیس کے مطابق ملزم یاسر کو علاقہ پھلروان سے گرفتار کیا گیا، ملزم سے اسلحہ بھی برآمد ہوا۔پولیس کے مطابق دوران تفتیش انکشاف ہوا کہ گرفتاریاسریونان کشتی حادثے کا مرکزی ملزم ہے، ملزم نے کشتی متاثرین سے لاکھوں روپے بٹورکر انہیں کشتی میں سوارکرایا۔پولیس کا کہنا تھا کہ ضروری کارروائی کے بعد ملزم کو ایف آئی اے کے حوالے کردیا گیا ہے۔

انسانی سمگلنگ میں ایف آئی اے ملوث ہے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق:

باکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ انسانی سمگلنگ کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے تناظر میں دیکھا جائے۔

اسلام آباد میں رواں سال 28 اگست کو پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) نے اپنی میں جاری کردہ رپورٹ میں مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان میں انسانی اسمگلنگ” کے ذریعے بے ضابطہ مہاجرین کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی جانب فوری توجہ کی جائے۔

رپورٹ میں انسانی اسمگلنگ کو محض ایک بین الاقوامی جرم کے بجائے انسانی حقوق کی ایک سنگین خلاف ورزی کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ کیونکہ انسانی اسمگلنگ کے شکار افراد کو تشدد، بھتہ خوری، زیادتی، بلیک میلنگ، قید اور یہاں تک کہ موت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کے ذریعے بے ضابطہ ہجرت عموماً معاشی مجبوری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ تاہم یہ عمومی تاثر کہ مہاجرین غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کرنے کا انتخاب خود کرتے ہیں اور یوں سفر کی مشکلات اور استحصال کو قبول کرلیتے ہیں، کی وجہ سے انسانی اسمگلنگ کو دیگر استحصالی سرگرمیوں جیسے کہ انسانی ٹریفکنگ جتنی توجہ نہیں ملی۔

رپورٹ میں ایک ایسے بے ضابطہ مہاجر کے سفر کو دستاویزی شکل میں پیش کیا گیا ہے، جس نے پنجاب سے ترکی تک (بلوچستان اور ایران کے ذریعے زمینی راستے سے) خطرناک سفر کرنے کے لیے ایک انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورک سے رجوع کیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان سے بے ضابطہ ہجرت کی بنیادی وجوہات بیروزگاری، مواقع کی کمی، غربت، عدم تحفظ اور تناعات ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے ایجنٹ نوجوان اور کمزور افراد کو نشانہ بنانے اور انہیں مغربی ممالک کے سفر کی ترغیب دینے میں ماہر ہوتے ہیں۔ انسانی اسمگلنگ کے نیٹ ورکس کی منظم کارروائیاں مجرمانہ اداروں سے ملتی جلتی ہیں۔ یہ نیٹ ورک خود کو برقرار رکھتے ہیں اور بہت سے سابق مہاجرین خود انسانی اسمگلر بن جاتے ہیں۔جبکہ یہ سملگنگ ایف آئی اے کی مگی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔