انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا سیکورٹی اہلکار طالبات کی نازیبا ویڈیوز بنانے، جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے پر گرفتار

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کا سیکورٹی اہلکار سیکورٹی کے مقصد کے لئے رکھے گئے طالبات کے شناختی کارڈز سے ان کی ذاتی معلومات نکلوا کر انھیں ہراساں اور بلیک میل کرنے اور خود کو امریکی شہری اور ایف آئی اے کا ASI بتانے میں ملوث نکلا

بیس ہزار سے زائد طالبعلموں کو تعلیم دینے والی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے پاس ایسی حساس پوزیشنز پر تعیناتی کے لئے اہلیت یا بیک گراؤنڈ چیک کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں

سیکورٹی اہلکار یونیورسٹی کی پالیسی کےتحت یونیورسٹی آنے والی لڑکیوں کے قومی شناختی کارڈز اپنے پاس سیکورٹی کیبن میں جمع کرتا لیکن پھر ان کارڈز کی تصاویر بنا کر اپنے پاس محفوظ کر لیتا۔

ایف آئ اے راولپنڈی کے سائبر کرائمز ونگ کی ابتدائی تحقیقات کےمطابق سیکورٹی اہلکارمحمد جابر لڑکیوں کے شناختی کارڈز سے شناختی کارڈ نمبرز حاصل کرتا اور کچھ پیڈ موبائل ایپس کےذریعےشناختی کارڈز سے منسلک موبائل نمبر حاصل کرتا اور لڑکیوں کے بارے میں ان کے یونیورسٹی آنے اور دیگر ذاتی معلومات حاصل کر لینے کے بعد ان سے موبائل فون پر رابطہ کرتا اور تعلق بنانے کی کوشش کرتا۔

دلچسپ امر یہ ہے کہ ایسی پیڈ ایپس جو شہریوں کا ذاتی ڈیٹا پیسوں کے بدلے میں فروخت کرتی ہیں کے خلاف کاروائی کرنا بھی ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کا کام ہے۔

اس کیس میں ایف آئی اے کی تحقیقات کے مطابق انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سیکورٹی آفیسر محمد جابر لڑکیوں کی ذاتیمعلومات حاصلکر لینے بعد اور ان سے موبائیل پر رابطہ قائم ہو جانے کے بعد ان سے قریبی تعلق بناتا اور برہنہ حالت کی ویڈیوزریکارڈ کر لیتا۔ جابر موبائل پر بھی نیوڈ چیٹ کرتا اور ایسی چیٹ کے ثبوت بھی محفوظ کر لیتا اور بعد میں لڑکیوں کو بلیک میل کرتا 

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے سیکورٹی اہلکار محمد جابر کا شکار بننے والی لڑکیوں میں سے ایک بہادر لڑکی نے آخر کار ایف آئی اے سے رابطہ کر کے شکائت درج کروائی۔ جس کے بعد تحقیقات ہوئیں۔ جابر کی گرفتاری عمل میں آئی اور اس کے موبائیل اوربرآمد ہونے والی دیگر اشیا کے فارنزک معائنے میں شکائت درج کروانے والی لڑکی کے علاوہ کچھ دوسری لڑکیوں کی بھی نازیباتصاویر اور ویڈیوز ملیں۔ 

جب انٹرنیشنل اسلام یونیورسٹی کی انتظامیہ سے اس واقعہ کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو یونیورسٹی کے ترجمان اور میڈیا ڈائریکٹر نے اس واقعہ سے مکمل لا علمی کا اظہار کیا۔

واضح رہے کہ  انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی انتظامیہ  ماضی میں بھی جنسی سکینڈلز کے واقعات پر قانونی کاروائی کو نا ممکن بناتی رہی ہے۔بی بی سی کے مطابق 18 جون 2021 کو یونیورسٹی ہاسٹل میں ایک طالب علم کا گینگ ریپ کیا گیا تھا۔اس واقعہ کےبعد بھی وفاقی پولیس ملزمان کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج سمیت کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی کرنے میں ناکام رہی تھی۔

۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

Scroll to Top