وائس آف امریکہ / فیکٹ فوکس
ارشد شریف قتل کیس: ارشد شریف کے قتل کے وقت انکے ساتھ موجود خرم احمد آج تک خاموش کیوں رہے؟
آخر خرم احمد کا اس سب پر مئوقف کیا ہے؟
کیا کینیا پولیس کی حادثے کی جگہہ پر پولیس تھی بھی یا وہاں کوئی تھا ہی نہیں؟
اے آر وائی کے سلمان اقبال اور طارق وصی سے وقار احمد، خرم احمد اور جمشید خان کا کیا تعلق ہے؟
نیروبی کی شوٹنگ رینج ایموڈمپ کے شریک مالک جمشید حسین خان کا فیکٹ فوکس اور وائس آف امریکہ کیلیے تفصیلی انٹرویو
جمشید خان صحافی ارشد شریف کے نیروبی میں قیام کے دوران انہیں متعد مرتبہ ملے۔ ارشد کے ساتھ آخری ڈنر میں بھی شامل تھے اور ان پر فائرنگ کے بعد انکے پاس پہنچنے والے ابتدائی دو لوگوں میں سے ایک ہیں۔ گولی لگنے کے بعد ارشد شریف کو ٹنگا میں جمشید خان کے ہی فارم ہاؤس پر لے جایا گیا۔ جمشید خان کے مطابق ان سے کینیا کے چار مختلف تحقیقاتی اداروں کے علاوہ پاکستان سے آنے والی تحقیقاتی ٹیم نے بھی تفتیش کی۔
جمشید خان وقاراحمد کے ساتھ ایموڈمپ کے برابر کے مالک ہیں۔ یہ دونوں کینیا کے بزنس رجسٹریشن سروس کے ادارے کے ریکارڈ کے مطابق کینیا کے شہری بھی ہیں۔ فیکٹ فوکس نے بزنس رجسٹریشن سروس سے باقاعدہ اپلائی کر کے ایموڈمپ کی ملکیت کے کاغذات حاصل کیے اور بالآخر جمشید خان تک پہنچے۔ جمشید خان بڑے بزنس مین ہیں۔ وہ نیروبی میں جاپانی کاروں کے بڑے امپورٹر ہیں اور نازش موٹرز کے نام سے شہر میں اپنا کاروبار چلاتے ہیں۔ عرصہ ستائیس سال سے نیروبی میں رہ رہے ہیں اور زراعت اور کنسٹرکشن کے کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔
فیکٹ فوکس اور وائس آف امریکہ جمشید حسین خان کا تفصیلی انٹرویو جاری کرہے ہیں جس میں انہوں خوفناک قتل سے جڑے مختلف پہلووں اور سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ حکومت پاکستان کی طرف سے وقار احمد اور خرم احمد کو قتل کی سازش میں ملوث قرار دے دیے جانے کے بعد انکا مئوقف کتنا جاندار ہے، اس کا فیصلہ قارئین ہی کر سکتے ہیں۔
درج میں انٹرویو کا مکمل ٹیکسٹ دیا گیا ہے۔
(00:00:00 – 00:01:00)
سوال: میں جرنلسٹ ہوں پاکستان سے۔آپ کیسے ہیں؟
جواب: الحمد للہ
سوال: جمشید صاحب میں یہ جاننا چاہتا تھا آپ سے کہ آپ کی پارٹنر شپ ہے ایموڈمپ کے اندر وقار صاحب کے ساتھ اور یہ واقعہ آپ کے سامنے پیش آیا، پاکستانی صحافی کی شہادت کا۔ اس حوالے سے آپ کے پاس کوئی ایسی معلومات جو اب تک سامنے نہیں آئی ہوں اور کیا آپ سے بھی کوئی تفتیش کی گئی؟
جواب: بالکل جو ہم سے پوچھا گیا ہم نے بتا دیا۔
سوال : تو کوئی ایسی بات جو آپ شیئر کرنا چاہیں ہم سے پاکستانیوں کے لیے جس سے حالات کو سمجھنے اور جاننے میں کوئی مدد ملے۔
جواب: نہیں جو چیز ہمارے سامنے ہوئی ہی نہیں ہے اس کے بارے میں ہم کیسے بول سکتے ہیں۔
(00:01:00 – 00:02:01)
سوال: وہ جگہ آپ کی ملکیت ہے جہاں پر وہ (ارشد شریف) ٹھہرے تھے اور وہاں سے وہ نکلے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ خرم صاحب کے ساتھ تھے۔ تو آپ کی بات ہوئی؟ آپ کو کیا لگتا ہے کہ پولیس جس طرح کہہ رہی ہے واقعتاً اسی طرح ہوا ہے۔
جواب: بالکل سر۔کیوں کہ اس کے علاوہ کوئی اور جگہ ہی نہیں۔ مجھے تو یہاں 12 سال ہوگئے رہتے ہوئے۔یہاں تو کبھی کسی کا چوہا نہیں مرا۔ یہاں تو کبھی کوئی پرابلم نہیں ہوا۔ ہم لوگ تو یہاں رات کو دو دو تین تین بجے سفر کرتے ہیں۔ کھاتے ہیں۔ گھومتے ہیں۔ کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ یہ مغالطے کی وجہ سے ہوا۔ یہاں کے تو بندے خود بول رہے ہیں کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ اب اس کے بعد آپ بتائیں اور کر کیا سکتے ہیں۔ اور وہ جگہ ایسی ہے بالکل گھر جیسی ہے ہماری۔ وہاں پورا علاقہ جانتا ہے۔
(00:02:00 – 00:05:28)
سوال:نہیں سر، میرا تو صرف یہ سوال ہے کہ وہ (پولیس) کہہ رہے ہیں کہ ایک گاڑی چوری ہوتی ہے نیروبی سے، ایک بندے کی۔ اب وہ گاڑی سات بجے چوری ہوتی ہے، سات بج کے 20 منٹ پر وہ بندہ رپورٹ کرتا ہے پولیس کو۔ پولیس کو جب وہ رپورٹ کرتا ہے تو پولیس اس کے ساتھ نکلتی ہے۔ اس کی گاڑی میں ٹریکر لگا ہوا ہے اور پولیس اس کی لوکیشن ٹریک کر رہی ہے۔ اور وہ ٹریکر کمپنی ریپلائی کر رہی ہے ہمیں کہ وہ گاڑی نیروبی سے باہر نکلی ہی نہیں۔ اور سر یہ گاڑی سات بجے چوری ہوئی ہے اور وہاں تک، جہاں واقعہ ہوا ہے، جاتے جاتے آپ کو پتا ہے چار گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اور انہوں نے دس بجے بندہ مار دیا ہے سر۔ آپ کو اس میں کوئی چیز غیر معمولی نہیں لگتی؟
جواب: میں تھوڑی سی وضاحت کردوں۔ یہ جو بندے ہیں۔ یہ جی ایس یو کے ہیں۔ جی ایس یو کون سا یونٹ ہے یہاں پر؟ اس کی ساری انفارمیشن ہونی چاہیے آپ کو۔ پھر اس کے بعد آپ بات کیجیے گا۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جی ایس یو فوج ہے۔ اور ان کا کیمپ ہے ہمارے پاس۔ جس جگہ یہ کھڑے تھا، جہاں واردات ہوئی ہے۔ اس سے ایک کلومیٹر دور ان کا کیمپ ہے۔ یہ لوگ یہاں ٹریننگ کرتے ہیں۔ ہمارے علاقے میں یہ ٹریننگ کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے؟ یہ چیز سب سے پہلے رپورٹ ہوئی۔ یہاں پر کار ہائی جیکنگ کی جب رپورٹ ہوتی ہے۔ سب سے پہلے پولیس آتی ہے۔دوسرا یہاں ہے فلائنگ اسکواڈ۔ وہ سویلین ہوتے ہیں۔ اس کے بعد آتے ہیں سی آئی ڈی۔ سب سے پہلے رپورٹ کی جاتی ہے فلائنگ اسکواڈ میں۔ جہاں تک میں نے سنا۔ تحقیقات کیں تو مجھے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے فلائنگ اسکواڈ میں اس کی رپورٹ کی گئی۔ اچھا فلائنگ اسکواڈ والے کیا کرتے ہیں۔ وائر لیس کردیتے ہیں پورے علاقوں میں یعنی پولیس اسٹیشنز میں اور ہر جگہ۔ سب جگہ پر کہ یہ رپورٹ ہوئی ہے اور اس گاڑی کو ٹریک کیا جائے۔ اچھا۔ یہاں پر کیا ہے۔ یہاں ہر ہائی ویز پر کیمرے ہیں۔ جو گاڑی گزرتی ہے اس کی تصویر لی جاتی ہے۔ تو گاڑی کو پکڑنا۔ مجھے نہیں پتا ان کا کیا سسٹم ہے۔ ہر جگہ کیمرے لگے ہوتے ہیں۔ یہاں پر جو گاڑی انہوں نے رپورٹ کی۔ وہ فلائنگ اسکواڈ میں کی۔ یہ ہے جی ایس یو۔ اب ان کو انفارمیشن کس نے دی؟ ہیں؟ کہاں سے آئی؟ یہ ایک انسی ڈینٹ میرے ساتھ بھی ہوچکا ہے۔ میری اپنی گاڑی، مجھے روڈ پر کھڑا کردیا گیا کہ آپ کی گاڑی چوری کی ہے۔ میں نے کہا سر یہ میری گاڑی ہے میرے نام پر ہے۔ سب کچھ ہے۔ بولے نہیں۔ ہم نہیں جانتے۔ آپ چلیں پولیس اسٹیشن۔ میں پولیس اسٹیشن گیا۔ میں نے وہاں کہا آپ مجھے بتائیں۔ یہاں پر آپ اپنے موبائل میں سرچ کرسکتے ہیں اپنی گاڑی کا رجسٹریشن نمبر ڈال کر۔ ہمارا رجسٹریشن ڈپارٹمنٹ آن لائن ہے۔ تو میں نے ان کو بتایا کہ دیکھیے سر یہ گاڑی میرے نام پر ہے۔ تو آپ کو پتا ہے پولیس والے کیسے ہوتے ہیں۔ وہ کسی کی نہیں سنتے۔ انہوں نے کہا کہ آپ کھڑے ہوجائیں یہاں پر۔ ہمارے پاس آپ کی یہ رپورٹ ہے۔جس کے بعد انہوں نے اپنے بندوں کو فون کیا کہ ہم نے گاڑی پکڑی ہے فلاں فلاں نمبر کی۔ وہاں سے جواب آیا کہ نہیں ہم سے غلطی ہوگئی ہے۔ ہمارا گاڑی کا نمبر فلاں فلاں ہے۔ اب آپ بتائیے اس میں کس کی غلطی ہے۔ میری؟
سوال: نہیں آپ کی غلطی نہیں ہے۔
جواب: جس نے پکڑا اس کی۔ یا جس نے غلط انفارمیشن دی اس کی۔ اب آپ مجھے بتائیں۔
(00:05:28 – 00:08:29)
سوال: نہیں نہیں، آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔
جواب: یہاں پر دو فورس کا جو کمیونیکیشن سسٹم ہے۔ میں اس کو بلیم کروں گا۔ کیوں کہ یہ مس کمیونیکیشن ہوئی ہے۔ رانگ انفارمیشن انفارم کی گئی ہے۔ اس وجہ سے یہ چیز ہوئی ہے۔ نہیں تو ہمارے علاقے میں کوئی بھی چیز۔۔۔ اور ان کو پتا ہے۔ جی ایس یو والے ہمارے پاس آتے ہیں۔ جو ہمارے پاس کلائنٹ آتے ہیں، ان کے ساتھ آتے ہیں۔ وہ خود آئے ہیں۔ وہ ہمارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور ان کو پتا ہے کہ ہماری یہاں رینج ہے۔ ہم رجسٹرڈ ہیں۔ سب لیگل ہیں۔ ہمارے پاس سب چیز کا ریکارڈ ہے۔ ہر ایک چیز کا ہے۔ کوئی بھی ہمارے پاس سے گزرے۔ کوئی بھی ہمارے پاس آئے۔ تو یہ چیز کبھی ہو نہیں سکتی۔ یہ چیز ضرور مس کمیونیکیشن کا رزلٹ ہے۔ ہم کیا بول سکتے ہیں۔ ہم تو 10، 12 سال سے یہاں بیٹھے ہیں۔ ہمارے پاس پولیس والے بھی آتے ہیں۔ہمارے پاس سی آئی ڈی والے بھی آتے ہیں۔ ہمارے پاس آرمی والے بھی آتے ہیں۔ سب آتے ہیں۔۔۔
سوال: نہیں نہیں۔۔۔
جواب: ۔۔۔ ان کو پتا ہے کہ ہم یہاں لیگل کام کر رہے ہیں۔
سوال: نہیں نہیں۔ وہ بات ٹھیک ہے۔ جمشید بھائی ایک صرف میرا نکتہ سن لیں۔ آپ کا زیادہ وقت نہیں لیتا۔ آپ کا تعلق کراچی سے ہے جمشید بھائی؟
جواب: جی جی سر۔
سوال: جمشید بھائی یہ دیکھیں ایک جگہ کراچی میں گاڑی چوری ہوئی تو پولیس پر وائرلیس چلتی ہے۔ ٹھیک ہے؟ پوری دنیا میں ایک ہی نظام ہے۔ کوئی بہت ہی یونیک نظام نہیں ہوتا۔ گاڑی کا نمبر نہیں چلتا سر۔ ہمیں پتا ہے۔ امریکہ میں، میں بیٹھا ہوں۔ امریکہ کے اندر نمبر نہیں چلتا۔ سر میک بتاتے ہیں۔ وہ بتائیں گے سفید رنگ کی ٹویوٹا کرولا ہے۔ ٹھیک ہے سر؟ لال رنگ کی سوزوکی ہے۔ نمبر بھی بتا دیں گے۔ لیکن یہ ضرور بتائیں گے۔ دیکھیں نا٘ سر وہ جو گاڑی چوری ہوئی ہے، وہ بالکل مختلف شیپ کی ہے۔ وہ مرسڈیز گاڑی ہے سر۔ نمبر ایک۔ نمبر دو، سر آپ میرا پوائنٹ نہیں سمجھے۔ جمشید بھائی آپ صرف میرا پوائنٹ سمجھ لیں۔ پھر آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔
جواب: میں آپ کا پوائنٹ بالکل سمجھ گیا۔ دو تین ہفتے سے سر ہم اسی میں تو پھنسے ہوئے ہیں۔
سوال: دیکھیں نا۔۔۔
جواب: اسی چیز میں تو پھنسے پڑے ہیں۔ اسی نکتے میں تو ہم پھنسے ہوئے ہیں کہ بھائی یہ غلطی کس کی ہے۔ آپ مجھے ایک بات بتائیں۔
سوال: ہاں جی، ہاں جی۔
جواب: پولیس والے انفارمیشن دے رہے ہیں آرمی والے کو۔ آپ مجھے بتائیں آرمی اور پولیس والے کو آپ برابر سمجھتے ہیں۔
سوال: نہیں نہیں۔ بالکل مختلف ہے۔ آپ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں۔
جواب: بالکل مختلف ہے نا؟ یہاں یہ پرابلم ہے۔ جی ایس یو از اے آرمی۔
سوال: نہیں نہیں۔ وہ ٹھیک ہے۔ آپ میرا پوائنٹ نہیں سمجھ رہے۔ میرے پاس اس بات کی ایک اتھینٹک انفارمیشن ہے کہ جو ٹریکر لگا ہوا تھا گاڑی کا۔۔۔ اس کی ایکسیس دے دی گئی تھی پولیس کو۔ اور پولیس نے گاڑی ٹریس کرلی۔ پولیس کو پتا لگ گیا کہ گاڑی مل گئی ہے۔ یہ نو بجے یا ساڑھے نو بجے کے آس پاس کی بات ہے۔ اور پولیس وہ بات کہہ چکی تھی۔ مطلب آپ بالکل نہیں دیکھتے کہ اس بندے کو پاکستان میں خطرہ تھا۔ اور جن سے خطرہ تھا وہ بھی آپ نے سن لیا ہو گا۔ تو آپ یہ نہیں سمجھتے کہ ان لوگوں کا کوئی آپس میں ادھر والے لوگوں کے ساتھ کوئی رابطہ ہو۔ کوئی ایسا معاملہ ہوگیا ہو۔ مطلب یہاں تو پولیس کو پتا لگ گیا تھا کہ گاڑی مل گئی ہے۔
جواب: وہ کس طرح سے پتا کرسکتے ہیں؟ اس سے پتہ کر سکتے ہیں یہ مجھے بتائیں۔ آرمی والوں کے ساتھ آپ مجھے بتائیں کس کا کنیکشن ہوسکتا ہے؟
سوال: صحیح ہے۔
جواب: کون آرمی والوں کے ساتھ بات کرسکتا ہے؟
سوال: صحیح ہے۔
(00:08:30 — 00:12:00)
جواب: کون ہے ادھر جو آرمی والوں سے بات کرسکتا ہے؟
سوال: صحیح ہے۔
جواب: وہاں تو بالکل ہی الگ ہے۔ وہ علاقہ غیر کی طرح ہے۔ وہاں کوئی بندہ پھٹک سکتا ہے۔ نہ وہ کہیں جا سکتا ہے۔ نہ وہ کہیں آسکتا ہے۔ان لوگوں کی کیا کمیونیکیشن ہے؟ اور دوسرا یہ جو آپ بات کر رہے ہیں کہ پولیس والوں کو نو بجے پتا لگ گیا۔ ٹھیک ہے؟
سوال: جی جی
جواب: ہم نے آپ کی بات مان لی۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: اگر یہ انفارمیشن آگے نہیں پاس آن ہوئی؟
سوال: ہاں ہاں
جواب: تو جس جس اسٹیشن میں اس کی رپورٹ نہیں آئی ہے۔ وہ سرچ کریں گے؟ وہ دیکھیں گے؟ وہ تو اپنی ڈیوٹی کرتے رہیں گے۔ ایم آئی رائٹ اور رانگ؟
سوال: نہیں نہیں۔ یو آر رائٹ۔ آپ بالکل صحیح ہیں۔
جواب: وہ کریں گا ناں اپنی ڈیوٹی؟ تو یہاں پر انفارمیشن پوری سپلائی نہیں ہوئی ہے۔ میرے حساب سے۔ جو میں نے دیکھا ہے۔ جو مجھے پتا لگتا ہے۔ پتا نہیں لوگوں کا کیا (خیال) ہے۔ لیکن یہاں پر جس طریقے سے بات ہو رہی ہے ںاں سر۔ یہ صرف اور صرف لیک آف انفارمیشن ہے۔ اور۔۔۔
سوال: اگر لیک آف انفارمیشن کی بات ہوگی تو پھر بھی بات آپ پر آئے گی۔ ایموڈمپ پر اس لیے آئے گی کہ آپ کی ویب سائٹ پر بھی لکھا ہوا ہے کہ آپ کا بڑھا اچھا تعلق ہے۔ آپ کام کرتے ہیں۔ وہ آپ کی جگہ پر آ کر پریکٹس کرتے ہیں۔۔۔ پولیس والے بھی آرمی والے بھی۔ تو یہ دیکھیں کہ خرم بھائی گاڑی ڈرائیو کر رہے ہیں۔ اور اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ ان کی بات ٹھیک ہے اور غلط فہمی پر ہوا ہے۔ تو وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جب گاڑی روکی گئی تو خرم بھائی نے گاڑی نہیں روکی۔ پھر خرم بھائی نے گاڑی کیوں نہیں روکی؟ جمشید بھائی؟
جواب: سرکار، آپ صرف سن رہے ہیں ناں۔ آپ صرف باتیں کررہے ہیں ناں۔ آپ موقعۂ واردات پر تو نہیں تھے ناں؟
سوال: نہیں نہیں۔ بالکل نہیں۔
جواب: نہیں تھے ناں؟
سوال: جی سر۔ جی سر۔
جواب: آپ صرف وہ بول رہے ہیں جو آپ نے سنا ہے۔۔۔
سوال: جی سر۔ جی سر۔۔۔ نہیں سر یہ لکھا ہوا ہے۔ یہ انہوں نے لکھ کر کہا ہے سر۔۔۔
جواب: ارے جو وہ۔۔۔ سرکار۔ لکھنے سے کیا ہوتا ہے صاحب۔ میں آپ کو اسٹیٹمنٹ دے دوں غلط، آپ لکھ دیں گے وہ۔
سوال: صحیح ہے، صحیح۔۔۔
جواب: آپ اس کو پکڑ لیں گے کہ میں نے بیان دیا ہے۔۔۔ ٹھیک ہے؟
سوال: صحیح ہے۔۔۔
جواب: سرکار، یہاں پر ہے قبائلی علاقہ۔
سوال: صحیح ہے سر۔۔۔
جواب: ہم جس علاقے میں رہتے ہیں ناں۔ وہاں پر رہتے ہیں مسائی۔ ہمارے ہاں مسائی لینڈ ہے۔۔۔
سوال: صحیح ہے سر۔۔۔
جواب: وہاں پر کبھی بھی روڈ پر کسی کو بلاک کرنا ہوتا ہے سر۔۔۔ تو یہاں دو طریقے ہیں۔ یا تو وہ درخت کاٹ کر رکھ دیتے ہیں چھوٹے چھوٹے۔۔۔ یا چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ دیتے ہیں۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: اچھا۔ ان لوگوں میں ایک چیز ہے کہ جب کوئی چیز ایسے رکھ دیتا ہے ناں۔۔۔ تو ان میں انسانیت ہے تھوڑی۔۔۔ تو وہ رک جاتے ہیں۔ رک کر وہ کیا کرتے ہیں کہ سائیڈ سے نکل جاتے ہیں۔ یا کوئی بندہ کھڑا ہوتا ہے تو اس سے بات کرتے ہیں۔ یہ بھی ہوتا ہے۔ اب ہم۔۔۔ مجھے جو خرم نے بولا۔ جو بتایا کہ بھئی وہ آئے۔ وہ رکے۔ انہوں نے دیکھا پتھر رکھے ہوئے تھے چھوٹے چھوٹے۔ کوئی بھی نہیں تھا وہاں پر۔ انہوں نے بولا ٹھیک ہے۔ چھوٹے چھوٹے پتھر ہیں۔ ہم سائیڈ سے نکل جاتے ہیں۔ وہ سائیڈ سے نہیں۔۔۔ وہ خرم مجھے بولتے ہیں کہ میں نے صرف آگے کراس کیا ہے۔ مجھے کچھ۔۔۔ وہاں اندھیرا۔۔۔ اچھا وہ ایسی جگہ ہے جو پیور جنگل ہے۔ کوئی نہ آدم نہ آدم کی ذات رہتا ہے وہاں پر دور دور تک۔ وہاں پر ایک چھوٹا ٹاؤں بھی ہے۔ لیکن وہ ایک کلومیٹر دور ہے۔۔۔
سوال: ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔
جواب وہ بھی ایک کلو میٹر دور ہے۔۔۔
سوال: اس ٹاؤن کا کیا نام ہے؟ اس ٹاؤن کا جو ایک کلومیٹر دور ہے؟
جواب: آپ نے اس میں دیکھا بھی ہوگا ویڈیو میں۔۔۔ اس میں لکھا ہوا ہے کاما کورو۔۔۔
سوال: اچھا کاما کورو۔۔۔
جواب: کاما کورو۔۔۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: کاما کورو دیکھا ہے نا آپ نے ۔۔۔۔
سوال: جی بالکل۔۔۔۔
جواب: وہ کاما کورو پر اگر آپ چلیں بھی ناں تو آپ کو ایک کلومیٹر جانا پڑتا ہے۔
سوال: ٹھیک ہے۔۔۔
جواب: تو آف روڈ پر تو اندھیرے میں آپ کو نہ بندہ نہ بندے کی ذات نظر آئے گی۔ آپ کیوں رکیں گے؟ اور مزے کی بات یہ ہے کہ وہ پبلک روڈ ہے۔ وہ کسی کی پرائیوٹ لینڈ نہیں ہے۔ وہ پبلک روڈ ہے۔ سب بندے گزرتے ہیں۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: اب آپ مجھے ایک بات بتائیں کہ پبلک روڈ پر کوئی پتھر رکھ دے تو اس کا کیا مطلب آپ لیں گے؟ آپ بتائیں؟ بھئی کسی نے یا تو شرارت کی ہے۔ یا کوئی روکنا چاہ رہا ہے۔ یا کچھ کرنا چاہ رہا ہے۔ آپ مجھے بتائیں اندھیرے میں ۔۔۔ جنگل میں آپ رکیں گے؟
(00:12:00 – 00:15:00)
سوال: اچھا۔ نہیں تو۔ نہیں
جواب: آپ سے پوچھتا ہوں۔۔ آپ رکیں گے؟
سوال: نہیں نہیں۔ رکنے والی بات نہیں ہے۔ یہی تو میں عرض کر رہا ہوں کہ آپ تو اس علاقے کے لوگ ہیں ناں۔ وہ فوج والے تھے تو وہ تو آپ بھی ان کو جانتے ہیں۔ وہ ہوسکتا ہے۔ میں سمجھ رہاں ہوں کہ وہ آپ کو شاید نہ جانتے ہوں۔ خرم بھائی کو۔ لیکن خرم بھائی کو تو پتا ہوگا ناں کہ یہ تو یہیں پر ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کیمپ ہے۔ ہمارے کیمپ پر پریکٹس بھی کرنے آتے ہیں۔۔۔
جواب: ارے سرکار، اندھیرے میں۔۔۔ گاڑی میں کون بیٹھا ہے اور گاڑی کون چلا رہا ہے۔ نہیں پتا لگتا ناں سر۔ آپ مجھے بتائیں ناں اندھیرے میں کیسے؟ آپ کے سامنے سے گاڑی آ رہی ہے۔ آپ صرف قریب آنے پر اس کی نمبر پلیٹ پڑھ سکتے ہیں۔ اندر کون بیٹھا ہوا ہے۔ آپ کو کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ بھلے کتنا بھی اچھا بندہ ہوگا۔
سوال: ہاں وہ ٹھیک ہے۔۔
جواب: وہ بھی نہیں دیکھے گا۔ دوسرا۔۔ ایک اور چیز آپ کو بتا رہا ہوں۔ اندھیرے میں اگر کوئی سائیڈ میں کھڑا ہوا ہے اور آپ کے دائیں بائیں، رائٹ اور لیفٹ میں پیور جنگل ہے، اتنی جھاڑیاں ہیں کہ بندہ اندر نہیں گھس سکتا۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: لیکن یہ لوگ کھڑے ہوئے تھے۔۔۔ یہ لوگ کیا کر رہے تھے۔ مجھے نہیں پتا اس بارے میں۔ جو مجھے خرم نے بتایا۔۔۔ جو خرم کی بات ہوئی۔ ٹھیک ہے۔ اور کچھ بھی نہیں ہے سر۔ سارا مسئلہ یہی ہے کہ اندھیرے میں ایک بندے کو نہیں پتہ لگا کہ دائیں بائیں کون ہے۔ جب وہ کراس کرکے نکلتا ہے اور پیچھے سے اچانک آپ پر گولیاں برسنا شروع ہوجاتی ہیں تو آپ مجھے بتائیں کہ سناٹے میں اچانک آپ پر کوئی ڈبہ بھی بجا دے ناں سر تو بندہ گھبرا جاتا ہے۔ نارمل بندہ۔ جس کی سان و گمان میں بھی نہ ہو کہ ہمارے ساتھ کیا ہوسکتا ہے۔
سوال: نہیں مجھے ساری بات سمجھ آ رہی ہے آپ کی۔ آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ اس شخص کو جنت نصیب کرے جو اس دنیا سے چلا گیا۔ لیکن بات یہی ہے کہ جب آپ کہتے ہیں کہ آپ کا تعلق ہے۔ مطلب آپ کو پتہ ہے۔ آپ اس علاقے کے ہیں۔ آپ کا کاروبار آج سے نہیں بڑا پرانا ہے۔ دنیا جانتی ہے آپ کو۔ تو جب خرم بھائی کو روکا گیا تو پھر ان کو رک جانا چاہیے تھا۔ صاف ہے۔ ظاہر ہے۔ آپ کہہ رہے ہیں کہ انجانے میں۔۔۔
جواب: ایسا کوئی نہیں آیا سامنے۔۔۔
سوال: اچھا۔۔۔
جواب: اب یہی تو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ وہ بول رہا ہے۔۔ خرم نے بتایا ہے کہ کوئی نہیں تھا سامنے۔ کوئی بھی نہیں تھا۔ صرف چھوٹے چھوٹے پتھر رکھے ہوئے تھے۔
سوال: اور انہوں نے فائر مارا اور وہ چلے گئے۔
جواب: بھئی ظاہر سی بات ہے۔ اب اچانک سے آپ پر گولیاں چلنا شروع ہوں گی تو پھر آپ مجھے بتائیں گھبراہٹ میں کیا کرے گا انسان؟
سوال: نہیں میں عرض کر۔۔۔
جواب: اچانک آپ پر گولیاں چل جائیں تو آپ کیا کریں گے؟
سوال: نہیں نہیں۔ اگر ان ایکسپیکٹڈ ہوجائے۔۔۔ دیکھیں ان ایکسپیکٹڈ کرنے والے کون ہیں؟ فوج والے ہیں ناں؟ اگر وہ اس طریقے سے۔۔۔
جواب: آپ مجھے ایک بات بتائیں، [گولیاں] پیچھے سے آ رہی ہیں۔
سوال: ہاں ہاں۔
جواب: آپ کے نکلنے کے بعد [گولی] پیچھے سے آئے گی تو آپ پیچھے کیسے مڑ کر دیکھیں گے۔ پیچھے تو اندھیرا ہے سارا۔
سوال: وہ ٹھیک ہے سر۔
جواب: پیچھے دیکھ کر بتائیں۔۔۔
سوال: جمشید بھائی۔ وہ ٹھیک ہے لیکن یہ جو گاڑی کا ٹائر پھٹا ہے وہ تو آگے والا پھٹا ہوا ہے نا۔
جواب: ارے سرکار۔ جب یہ نکلتے ہیں۔ گاڑی نکلنے کے بعد یہ اتنی اسپیڈ میں تھے کہ انہوں نے کچھ نہیں دیکھا۔ یہ پتا نہیں کس طریقے سے نکلے۔ کہاں انہوں ںے ٹائر پھاڑا ہے۔ جب یہ وہاں پہنچے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ میرا ٹائر برسٹ تھا۔
سوال: تو انہوں نے جو فوج والے تھے وہ تو گولیاں بھی مار دیں تو جانے نہیں دیتے ناں۔ تو پھر انہوں جانے کیسے دیا؟ انہوں نے پیچھے گاڑی نہیں لگائی۔
(00:15:00 – 00:20:25)
جواب: سرکار یہ تو سمجھ میں نہیں آ رہا۔ گاڑی نہیں تھی۔ بندے پیدل تھے۔ گاڑی کوئی نہیں تھی۔ اگر کوئی گاڑی کھڑی ہو۔ مجھے ایک بات بتائیں۔ یار ہمارا علاقہ۔۔۔ ہمارے علاقے میں پولیس والے کی گاڑی کھڑی ہو تو ہم کیوں نہیں رکیں گے؟ ہم کیوں نہیں پوچھیں گے؟ پولیس والے تو ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمارے پاس ہیں۔ ہم تو ہر روز ۔۔ یعنی ان سے جو ہے نا۔۔۔ جب بھی ان کو ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہوتی ہے تو ہم ان کو بولتے ہیں۔ ہمارے ہاں گیسٹ آتے ہیں۔ ان کے ساتھ آتے ہیں۔
سوال: خرم بھائی کہتے ہیں کہ انہوں کال کی وقار بھائی کو تو وقار بھائی کسی فارم ہاؤس پر تھے۔ ایموڈمپ والی جو اونچی ہے، یہ ادھر نہیں تھے۔ کسی فارم ہاؤس پر تھے وقار بھائی۔ وہ پھر ادھر چلے گئے؟
جواب: ارے بھئی فارم ہاؤس پر نہیں تھے۔ رینج ہی پر تھے۔
سوال: رینج پر تو نہیں تھے؟
جواب: وہاں ہمارا فارم ہاؤس ہے۔
سوال: تو وہ پھر رینج میں واپس گئے۔ فائرنگ رینج میں واپس گئے پھر وہ۔
جواب: سر۔ آپ کو تھوڑا نا سیناریو میں آنا پڑے گا۔
سوال: جی، جی۔ بتائیں۔
جواب: پھر آپ کو سمجھ میں آئے گا۔ ہمارے پاس ٹینٹ لاج بھی ہے۔
سوال: بالکل۔
جواب: ہمارے پاس شوٹنگ رینج بھی ہے۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: ٹھیک ہے۔ جس میں ہمارے پاس ہمارے کلائنٹ آتے ہیں۔ وہ رہتے ہیں۔ رکتے ہیں۔ اور وہ اپنی ٹریننگ کرتے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ یہ ساری بات ہم بتا چکے ہیں کہ ہم ڈنر کرکے واپس آئے تھے۔ ٹھیک ہے۔ ہم ڈنر کرکے واپس آئے۔ اس درمیان میں ہم کو خرم کا فون آیا۔ خرم کا فون آیا تو ہم رینج پر لاج ہی میں تھے۔ اب ہمارے پاس بڑی زمین ہے۔ ہمارا کچھ حصہ لاج میں اور شوٹنگ رینج میں ہے اور ڈاؤن پارٹ ہمارا ہے ناں۔۔۔ اصل میں دو پارٹ ہیں۔۔۔ ایک اوپر ماؤنٹین ہے۔ ایک نیچے زمین ہے۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: تو نیچے زمین پر ہم فارمنگ کرتے ہیں۔ اور اوپر ہمارا رینج ہے۔ ٹھیک ہے؟
سوال: توآپ اوپر تھے اس وقت۔ ڈنر آپ نے اوپر کیا؟
جواب: ہم لوگ نیچے۔ نہیں نیچے ہم لوگوں نے ناں بش ڈنر آرگنائز کیا تھا۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: ہمارے پاس جو ہے ناں ایک گیسٹ تھے جو جاننے والے تھے۔ تو ان کے لیے رات کا ڈنر کیا تھا۔ تو اس دن خرم اور ارشد بھائی بھی آئے ہوئے تھے۔ تو ڈنر کرنے کے بعد ارشد بھائی اور خرم نکلے۔ چلے گئے کیوں کہ انہوں نے کہا کہ ہمیں نیروبی جانا ہے تو ہم لوگ تو نکل رہے ہیں۔ ٹھیک ہے۔ وہ نکل گئے۔ ہم نے بولا ٹھیک ہے۔ وہ نکل گئے۔ پھر ہم لوگوں نے اپنا سارا ڈنر وغیرہ ختم کیا۔ پیک اپ کیا۔ پیک کر کے بش سے نکل کر ہم واپس اپنی جگہ پر آئے۔
سوال: یہ جو نیچے والی بش ہے وہاں سے نکل کر آپ اوپر والی جگہ پر۔۔۔
جواب: جی جی ہم واپس اپنی زمین سے اٹھ کر۔۔۔ واٹر فال جیسی ہے ناں جگہ۔ وہاں ہم نے بش ڈنر ارینج کیا تھا۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: وہاں سے ہم لوگ آئے۔ ہمارے ساتھ ہمارے گیسٹ تھے۔ وہ چلے گئے۔ پھر ہم نے اپنا پیک اپ کیا۔ پیک اپ کرکے ہم لوگ اوپر آگئے۔ سب ساتھ تھے ہم لوگ۔ ہم نے سارا پیک اپ کیا۔ پیک اپ کرکے اوپر آئے ہم لوگ۔۔۔ اوپر آئے۔۔ اچھا ہمارے علاقے میں ڈاؤن سائیڈ جاتے ہیں تو وہاں پر نیٹ ورک کا پرابلم ہے۔ نیٹ ورک نہیں ہے ہمارے پاس۔ تو میرے خیال میں خرم نے ٹرائی کیا تھا فون وغیرہ کرنے کا۔ آئی ڈونٹ نو۔ پھر کیا ہوا۔ جب ہم اوپر آئے تو اس کے میسجز آئے کہ بھئی ’ٹرائی ٹو کالنگ‘۔ پھر وہ مسلسل فون کرنے کا ٹرائی کر رہے تھے۔ تو پھر کال لگ گئی خرم کی۔۔۔ اس کے ساتھ۔۔۔ وقار کے ساتھ۔ وقار کو فون کیا کہ بھئی میرے ساتھ ایسے ایسے ہوا ہے۔ ابھی میں کیا کروں۔ تو مجھے نہیں پتا۔ بہت زیادہ ہی ہے ناں۔ گولیاں چلی ہیں۔ پٹاخے چلے ہیں۔ میں تو نکل گیا اسپیڈ میں۔ تو ابھی مجھے کیا کرنا ہے۔ تو ہمارا ایک اور فارم ہے۔ وہاں سے تقریباً 20 کلومیٹر پر۔ جہاں ہماری رینج ہے ناں۔۔اس سے بیس کلومیٹر دور ہے۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ آپ جب کسی آفت میں ہوں گے۔ آپ کسی پریشانی میں ہوں گے تو آپ کدھر جائیں گے۔ آپ کسی محفوظ جگہ جائیں گے ناں۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: کہ میں سیف جگہ پہنچوں اپنی۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: ایم آئی رائٹ اور رونگ؟
سوال: صحیح ہے۔ کریکٹ ہے۔
جواب: تو اب سب سے سیف جگہ ہماری تو اپنی ہوگی ناں؟
سوال: ہاں جی۔
جواب: جہاں ہمارے بندے ہیں۔ جہاں ہمارا کام چل رہا ہے سب کچھ ہے۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: تو وقار نے بولا ٹھیک ہے۔ تم ایک کام کرو تم سیدھا۔۔۔ اچھا وہ راستے میں پڑتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ الگ راستے میں جانا ہے۔ راستے میں پڑتا ہے۔ نیروبی کے راستے میں پڑتا ہے۔ تو وقار نے بولا کہ ٹھیک ہے آپ وہاں پہنچو، میں آ رہا ہوں۔
سوال: اچھا۔
جواب: پھر وقار نکلا ہے۔
سوال: آپ بھی ساتھ گئے وقار کے؟
جواب: نہیں، نہیں۔ وقار اپنی گاڑی میں گئے۔ میں اپنی گاڑی میں۔ کیوں کہ میں نیچے فارم ہاؤس چلا گیا تھا۔ میں نیچے چلا گیا تھا فارم میں۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: وقار اوپر تھے رینج میں۔ وہاں پر ہی۔ کیوں کہ وہ سامان آف لوڈ کروا رہے تھے۔ میں نے بھی آف لوڈ کرایا۔ میں نیچے آگیا۔ پھر وقار نے مجھے فون کیا کہ بھائی ایسا ایسا ہوا ہے۔ مجھے اوپر ان کا فون آیا ہے تو اب وہاں جانا ہے۔ میں نے کہا پھر ٹھیک ہے نکلو۔ اس نے بولا میں نکل گیا ہوں۔ میں نے کہا میں آ رہا ہوں۔ میں پیچھے نکلا۔ خرم آگے۔ اس کے پیچھے وقار اور اس کے پیچھے میں۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: یہ بات ہوئی۔ پھر جب ہم وہاں پہنچے۔ تو وقار مجھ سے پہلے پہنچ گئے۔ پھر میں پہنچا ہوں۔ تو ہم نے دیکھا کہ بھئی یہ چیز ہے۔ تو پھر ہم نے وہاں خرم سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا بھئی۔ تو اس نے کہا کہ ایسے ایسے ہوا تھا وہاں پر ۔۔۔ یعنی کہ پتھر رکھے تھے ۔۔۔ ہم لوگوں نے بولا کہ اب آپ بتائیں روڈ کے اوپر۔۔۔ کوئی ایک جو نارمل سروس روڈ ہے ۔۔۔ پبلک روڈ ہے۔ اس کے اوپر کوئی پتھر رکھے گا۔ آپ کیوں رکیں گے۔ آپ کسی کی پرائیوٹ لائن پر چل رہے ہیں تو وہ بول سکتا ہے کہ ہاں بھئی انہوں نے شاید اس لیے کیا ہے کہ آپ یہاں سے نہیں گزریں گے۔
سوال: صحیح ۔ صحیح۔
جواب: تو یہ ہوا۔
[2:27 pm, 10/11/2022] Rana Asif: (00:00:00 – 00:01:00)
سوال: میں جرنلسٹ ہوں پاکستان سے۔آپ کیسے ہیں؟
جواب: الحمد للہ
سوال: جمشید صاحب میں یہ جاننا چاہتا تھا تھا آپ سے کہ آپ کی پارٹنرشپ ہے وقار صاحب کے ساتھ ایموڈیمپ (Ammodup) کے اندر اور یہ واقعہ آپ کے سامنے پیش آیا، پاکستانی صحافی کی شہادت کا۔ اس حوالے سے آپ کے پاس کوئی ایسی معلومات جو اب تک سامنے نہیں آئی ہو اور کیا آپ سے بھی کوئی تفتیش کی گئی۔
جواب: بالکل جو ہم سے پوچھا گیا ہم نے بتا دیا۔
سوال : تو کوئی ایسی بات جو آپ شیئر کرنا چاہیں ہم سے پاکستانیوں کے لیے جس سے حالات کو سمجھنے اور جاننے میں کوئی مدد ملے۔
جواب: نہیں جو چیز ہمارے سامنے ہوئی ہی نہیں ہے اس کے بارے میں ہم کیسے بول سکتے ہیں۔
(00:01:00 – 00:02:01)
سوال: وہ جگہ آپ کی ملکیت ہے جہاں پر وہ(ارشد شریف) ٹھہرے تھے اور وہاں سے وہ نکلے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ خرم صاحب کے ساتھ تھ…
[3:08 pm, 10/11/2022] Rana Asif: 05:28-08:29
سوال: نہیں نہیں، آپ بالکل سہی کہہ رہے ہیں۔
جواب: یہاں پر دو فورس کا جو کمیونیکیشن سسٹم ہے نا۔ میں اس کو بلیم کروں گا۔ کیوں کہ یہ مس کمیونیکشن ہوئی ہے۔ رانگ انفارمیشن جو ہے نا انفارم کی گئی ہے اس وجہ سے یہ چیز ہوئی ہے۔ نہیں تو ہمارے علاقے میں کوئی بھی چیز اور ان کو پتہ ہے۔ جی ایس یو والے ہمارے پاس آتے ہیں۔ جو ہمارے پاس کلائنٹ آتے ہیں ان کے ساتھ آتے ہیں ہیں۔ وہ خود آئے ہیں۔ وہ ہمارے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ اور ان کو پتا ہے کہ ہماری یہاں رینج ہے۔ سارے ہم رجسٹرڈ ہیں۔ سب لیگل ہیں۔ ہمارے پاس سب چیز کا ریکارڈ ہے۔ ہر ایک چیز کا ہے۔ کوئی بھی ہمارے پاس سے گزرے، کوئی بھی ہمارے پاس آئے۔ تو یہ چیز کبھی ہو نہیں سکتی یہ چیز ضرور مس کمیونیکیشن کا رزلٹ ہے۔ ہم کیا بول سکتے ہیں۔ ہم تو 10 ، 12 سال سے یہاں بیٹھے ہیں۔ ہمارے پاس پولیس والے بھی آتے ہیں۔ہمارے پاس…
[4:50 pm, 10/11/2022] Rana Asif: 08:30—12:00
جواب: کون ہے ادھر جو آرمی والوں سے بات کرسکتا ہے۔
سوال: صحیح ہے۔
جواب: وہاں تو بالکل ہی الگ ہے۔ وہ علاقہ غیر کی طرح ہے۔ وہاں کوئی بندہ پھٹک سکتا ہے۔ نہ وہ کہیں جا سکتا ہے۔ نہ وہ کہیں آسکتا ہے۔ان لوگوں کی کیا کمیونیکیشن ہے۔ اور دسرا یہ جو آپ بات کررہے ہیں کہ پولیس والوں کو نو بجے پتا لگ گیا۔ ٹھیک ہے؟۔۔۔
سوال: جی جی
جواب:۔۔۔ ہم نے آپ کی بات مان لی۔۔۔
سوال: ٹھیک ہے۔
جواب: اگر یہ انفارمیشن آگے نہیں پاس آن ہوئی۔۔۔
سوال: ہاں ہاں
جواب:۔۔۔ تو جس جس اسٹیشن میں اس کی رپورٹ نہیں آئی ہے۔ وہ سرچ کریں گے؟ وہ دیکھیں گے؟ وہ تو اپنی ڈیوٹی کرتے رہیں گے۔ میں صحیح کہہ رہا ہوں یا غلط(ایم آئی رائٹ اور رانگ) ؟
سوال: نہیں نہیں۔ یو آر رائٹ۔۔۔آپ بالکل صحیح ہیں۔
جواب: وہ کریں گا نا اپنی ڈیوٹی؟ تو یہاں پر انفارمیشن پوری سپلائی نہیں ہوئی ہے۔ میرے حساب سے،…
[5:32 pm, 10/11/2022] Rana Asif: 15:00-12:00
سوال: اچھا ۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ نہیں
جواب: آپ سے پوچھتا ہوں۔۔ آپ رکیں گے؟
سوال: نہیں نہیں، رکنے والی بات نہیں ہے۔ یہی تو میں عرض کررہا ہوں کہ آپ تو اس علاقے کے لوگ ہیں نا۔ وہ فوج والے تھے تو وہ تو آپ بھی ان کو جانتے ہیں۔۔۔وہ ہوسکتا ہے۔ میں سمجھ رہاں ہوں کہ وہ آپ کو شاید نہ جانتے ہوں۔۔۔ خرم بھائی کو۔۔۔لیکن خرم بھائی کو تو پتا ہوگا نا کہ یہ تو یہیں پر ہوتے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کیمپ ہے۔ ہمارے کیمپ پر پریکٹس بھی کرنے آتے ہیں۔۔۔
جواب: ارے سرکار، اندھیرے میں۔۔۔ گاڑی میں کون بیٹھا ہے اور گاڑی کون چلا رہا ہے، نہیں پتا لگتا نا سر۔ آپ مجھے بتائیں نا اندھیرے میں کیسے۔۔۔آپ کے سامنے سے گاڑی آرہی ہے۔ آپ صرف قریب آنے پر اس کی نمبر پلیٹ پڑھ سکتے ہیں۔ اندر کون بیٹھا ہوا ہے، آپ کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ بھلے کتنا بھی اچھا بندہ ہوگا۔
سوال: ہاں وہ ٹھیک ہے۔۔
جواب:…
[6:19 pm, 10/11/2022] Rana Asif: 15:00-
20:25
جواب: سرکار یہ تو سمجھ میں نہیں آ رہا۔ گاڑی نہیں تھی۔ بندے پیدل تھے۔ گاڑی کوئی نہیں تھی۔ اگر کوئی گاڑی کھڑی ہو مجھے ایک چیز بتائیں یار ہمارا علاقہ۔۔۔ ہمارے علاقے میں پولیس والے کی گاڑی کھڑی ہو تو ہم کیوں نہیں رکیں گے۔ ہم کیوں نہیں پوچھیں گے۔ پولیس والے تو ہمارے ساتھ ہیں۔ہمارے پاس ہیں۔ ہم تو ہر روز یعنی ان سے جو ہے نا۔۔۔جب بھی ان کو ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہوتی ہے تو ہم ان کو بولتے ہیں۔ ہمارے ہاں گیسٹ آتے ہیں ، ان کے ساتھ آتے ہیں۔
سوال: خرم بھائی کہتے ہیں کہ انہوں کال کی وقار بھائی کو تو وقار بھائی کسی فارم ہاؤس پر تھے۔ ایموڈمپ والی جو آُ کی ہے یہ ادھر نہیں تھے کسی فارم ہاوس پر تھے وقار بھائی۔ وہ پھر ادھر چلے گئے؟
جواب: ارے بھئی فارم ہاؤس نہیں تھے۔ رینج ہی پر تھے۔
سوال: رینج پر تو نہیں تھے؟
جواب: وہاں ہمارا ف…
00:20:25 – 00:30:46
سوال: وہ صحیح ہوگیا۔ تو یہ بتائیے گا کہ یہ بش ڈنر کیا ہوتا ہے؟ بش ڈنر سے آپ کیا کہنا چاہ رہے ہں۔
جواب: سرکار، ہمارے پاس ایک جگہ ہے جہاں ایک واٹر فال ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ وہ بہت اچھی بیٹھک کی جگہ ہے۔ بہت اچھی بیٹھک کی جگہ ہے۔ تو اکثر ہم لوگ کبھی شام کی چائے وغیرہ یا رات کا ڈنر وغیرہ ۔۔ اسی طرح آرگنائز کرتے ہیں۔
سوال: تو اس کو آپ بش ڈنر کہہ دیتے ہیں؟
جواب: بش ہی ہے نا سر۔ وہ تو جنگل ہی ہے نا سارا۔
سوال: ہاں جنگل ہی ہے۔ صحیح ہے۔
جواب: وہ تو سارا جنگل ہے۔
سوال: میں سمجھا کہ کوئی خاص طرح کی کھانے کی چیز ہے۔تو اس لیے آپ کہہ رہے ہیں۔
جواب: سمجھیں بش اور جنگل
سوال: وہ میں سمجھ گیا۔ میں سمجھ گیا۔ تو وہاں پر ڈنر تھا جو ارشد بھائی نے، مہمانوں نے اور آپ سب نے کیا۔ اس کے بعد خرم اور ارشد بھائی نکل آئے۔ آپ دونوں اوپر چلے گئے۔ اور اس کے بعد کال آئی۔۔۔ خرم بھائی کی۔۔۔ وقار بھائی کو۔ اور پھر وقار بھائی نے آپ کو فون کرکے بتایا۔ اور پھر آپ دونوں نکلے وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ان کی وفات ہوچکی تھی۔ تو وفات کے بعد آپ نے سب سے پہلا فون آپ نے طارق وصی صاحب کو کیا؟
جواب: میں نے نہیں۔ وقار نے کیا۔
سوال: وقار بھائی نے کرنا تھا کیوں کہ ظاہر ہے ان کا ریفرنس تھا۔
جواب: وقار نے سب سے پہلے یہاں کے جتنے پولیس والے تھے۔ یہاں کے او سی پی ڈی، او سی ایس۔ ڈی سی آئی او۔ سب کو انہوں نے فون کردیا۔ کہ بھی ایسا ایسا ہوا ہے۔
سوال: صحیح ہے۔
جواب: اچھا ہمارا علاقہ ایسا علاقہ ہے نا جو بہت ریموٹ ہے تو وہاں آنے میں ٹائم لگتا ہے۔
سوال: صحیح ہے۔
جواب: تو ہم لوگ پہلے پہنچے پھر وہ آئے۔ جب میں پہنچا تو میرے پیچھے ہی وہ لوگ انٹر ہوئے۔
سوال: ٹھیک ہے۔ تو انہوں نے طارق وصی صاحب کو بعد میں فون کیا اور پہلے پولیس کو کیا یعنی کہ؟
جواب: سب سے پہلے پولیس کو فون کیا نا۔
سوال: اچھا اچھا۔۔۔
جواب: ہمیں کچھ پتا ہی نہیں تھا نا سر ہم کو کچھ نہیں پتا۔ ہم کیسے کسی کو غلط بیانی سے کیسے جواب دے دیں۔ کدی کو کیا بول دیں۔ یہ تو غلط بیانی ہوگی نا جب آپ اپنی آنکھ سے دیکھیں نہیں آپ کیوں بولیں گے کسی کو کہ بھی کیا ہوگیا۔
سوال: آپ نے دیکھا ہوگا پاکستان میں تو پورا پروپیگنڈا چل رہا ہے نا کہ پھر جو سلمان اقبال کو یہ جو ایک ٹی وی کے مالک ہیں اے آر وائی کے۔ اس کے اوپر ڈال رہے ہیں کہ اس کا کوئی تعلق تھا۔ لیکن آپ کا یا وقار بھائی کا تعلق طارق وصی بھائی سے تھا۔
جواب: بھائی آپ کو پتا ہے نا کہ پچاس منہ پچاس باتیں آپ کس کو روک سکتے ہیں۔
سوال: ہاں ہاں
جواب: آپ الگ بات بولیں وہ الگ بات بولے۔ اپنی اپنی جو من گھڑت کہانیاں بولے رہے ہیں۔ آپ کس کو روکیں گے۔ یہاں ایسے ایسے صحافی بیٹھے ہوئے ہیں جنھوں نے ایسی ایسی باتیں کی ہیں کہ جیسے وہ سامنے کھڑے تھے۔ وہ اتنی وضاحت سے بات کررہے ہیں۔ کہ جیسے سامنے کھڑے ہوکر انہوں نے سین دیکھا۔ اور ان کے سامنے یہ سین ہوا۔ اب آپ مجھے بتائیں کہ کس طریقے سےبولیں۔
سوال: اس کا حل اسی طرح سے ہوتا ہے۔ دیکھیں یہ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اور بہت بڑا مسئلہ بننا ہے۔ اس کا حل یہی ہوتا ہے۔ ویسے میں آپ کو بتاؤں اور آپ بھی میری بات سے اتفاق کریں گے کہ سچ بول دیا جائے۔ تو جو سچ ہوتا ہے نا وہ آٹومیٹیکلی جھوٹ پر غالب آجاتا ہے نا۔ تو اس سے سارے معاملات کلیئر ہوجاتے ہیں۔
جواب: سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
سوال: بالکل زندہ رہتا ہے۔ بالکل یہ بات سچ ہے۔
جواب: سچ ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔
سوال: تو یہ بات حقیقت ہے کہ جو سلمان اقبال ہیں ان کا کوئی تعلق نہیں تھا وقار بھائی سے ۔ ان کا تعلق طارق وصی بھائی سے تھا۔ انہوں ہی نے بھیجا تھا ان کے پاس؟
جواب: بھئی طارق اور سلمان کو ہم ایک ہی کاؤنٹ کرتے ہیں۔
سوال: صحیح صحیح۔
جواب: آپ ان کو الگ کاؤنٹ کرتے ہیں۔
سوال: نہیں نہیں۔ الگ تو نہیں ادارہ تو ایک ہی ہے۔
جواب: اے آر وائی۔
سوال: جی ہاں اے آر وائی۔
سوال: اچھا یہ بتائیں کہ آپ کا یا وقار بھائی کا کسی طرح کا کوئی پاکستان میں جب لوگوں سے مخالفت چل رہی ہے آج کل اے آر وائی والوں کی، ان سے کبھی کوئی تعلق رہا ہے؟ جو مطلب ادارے والے لوگ ہیں؟
جواب: سرکار مجھے پاکستان چھوڑے ہوئے 27 سال ہوگئے۔
سوال: ٹھیک ہو گیا ٹھیک ہو گیا۔
جواب: ٹھیک ہے۔
سوال: اور کوئی آپ کا ہائی کمیشن میں یا ان لوگوں سے کوئی رابطہ نہیں؟
جواب: بھائی آپ اپنے ہئی کمشنر سے بھی پوچھ لیجیے گا۔ ہائی کمیشن بھی مجھے جانتی ہے۔ نہ میں کسی سیاسی میں ہوں۔ نہ میں یہاں پر ہوں۔ یہاں پر اپنے علاقے میں جو مجھ سے ہوسکتا ہے الحمد اللہ اپنے علاقے کے لیے کرتا ہوں۔ لیکن میں کبھی کسی سیاست میں۔۔۔ کبھی کسی کسی ایجنڈے میں یا کسی بھی جگہ پر نہ میں جاتا ہوں۔
نہ میں کسی کی حمایت کرتا ہوں کہ بھائی آپ صحیح ہیں، آپ غلط ہیں۔ میں صرف ایک چیز بولتا ہوں۔آپ جو کررہے ہیں ہماری پبلک کے لیے کررہے ہیں۔ اور ہماری کنٹری کے لیے کررہے ہیں۔ آپ انسانیت کے لیے کررہے ہیں۔ بس۔ میں جو کام کرتا ہوں وہاں کے بندوں کے لیے کرتا ہوں۔ کیوں ؟ کیوں کہ میں ان کے درمیان میں بیٹھا ہوں۔ مجھے پتا ہے کہ ان لوگوں کے کیا پرابلم ہیں۔ میں وہ کام کرتا ہوں۔ باقی کون کیا کرتا ہے ، کون کیسے کرتا ہے۔ مجھے نہ تو کسی میں انٹرسٹ ہے۔ اور میں سیاست کو سب سے بڑی گند بولتا ہوں۔
سوال: نہیں نہیں۔ وہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔۔۔۔
جواب: میں اس چیز سے بہت دور رہتا ہوں۔ مجھے کسی بندے کا نہیں پتا۔ کون کیا ہے؟ کیا کررہا ہے؟ میں کسی۔۔۔ ہم اپنے کام میں خوش ہیں بھائی۔ ہم اپنا ملک چھوڑ کر آئے تھے یہاں کام کرنے کے لیے۔ ٹھیک ہے؟
سوال: بالکل بالکا
جواب: ہم یہاں صرف کام کرنے کے لیے آئے تھے اور ہم صرف کام ہی کررہے ہیں۔ الحمد اللہ۔ آج پاکستانیوں میں کوئی یہ نہیں بول سکتا کہ ہم نے پاکستان کا نام خراب کیا ہے۔
سوال: بالکل بالکل۔
جواب: ہم نے آج پاکستان کا نام یہاں پر رکھا ہے اور بنایا ہے۔ کہ کوئی آج نہیں بول سکتا کہ یہ پاکستانیوں نے غلط کام کیا ہے۔
سوال: بالکل صحیح ہے۔ لیکن دیکھیں۔ آخری بات کر رہا ہوں آپ سے کہ ارشد شریف بہت امپورٹنٹ آدمی تھے۔ بہت ہی زیادہ بڑے بڑے کام انہوں نے کیے ہوئے تھے۔ ان کی بہت ہی بڑے بڑے اور طاقتور لوگوں سے دشمنی تھی۔ آپ جتنی بات کہہ رہے ہیں اس میں مجھے باقی باتیں پھر بھی سمجھ آجاتی ہیں۔ ایک بات پر تھوڑا سا اٹکتا ہوں کہ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ نہیں جی غلطی ہوگئی، غلطی ہوگئی ہوگی۔ دیکھیں یہ ہو تو سکتا ہے نا کہ جو بھی طاقتور ان کے خلاف تھے ان کا یہاں کے طاقتور لوگوں سے رابطہ ہو۔ انہوں نے ٹارگٹ کیا ہو ارشد شریف کو۔ اس اندھیرے میں گاڑی روک کر۔ دیکھیے ان کے لیے لوکیشن معلوم کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے؟
جواب: میں آپ کی پوری بات سننے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن مجھے ایک چیز سمجھائیں نا سر۔ ہم تو ہیں اپنے علاقے کے بندے۔ ہم ہیں اپنے اس میں۔ ہم کو کیا پتا کہ کل کو۔۔۔ میں بھی ٹارگٹ بنا ہوا ہوں۔ مجھے کیا پتا۔ میں جاؤں مجھے مار دیا جائے۔
سوال: آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
جواب: آپ مجھے بتائیں کسی کا کچھ پتا چلتا ہے۔
سوال: آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔
جواب: ہم نے تو اپنی دوستی کی خاطر۔ اپنی ہاسپٹیلیٹی کی خاطر۔ ہم جو کچھ کرسکتے تھے ہم نے کیا۔ ہم کو نہیں پتا تھا سر کہ ان کے ساتھ کیا مسئلہ چل رہا ہے۔ ان کے ساتھ کیا ہے۔
سوال: اوہو۔ اوہو
جواب: ہمارے پاس مہمان آئے ہم نے الحمدللہ بسم اللہ کرکے ان کو بٹھایا۔ سب کچھ کیا۔ کوئی ایسی بات نہیں تھی۔ ہم نے یہاں تک کسی کو بتایا نہیں کہ ہمارے ساتھ کون گھومتا ہے ۔ ہم بالکل لو پروفائل رہتے ہیں۔ ہم کو کسی بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں بھائی ، ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے۔ ہم کو شو شا چاہیے ہی نہیں بھائی۔ ہم لوگ لو پروفائل رہتے بہت اچھے۔
سوال: آپ اتنے عرصے سے رہ رہے ہیں۔ یہ تو آپ کو پتا لگ گیا ہوگا کہ جس طرح پاکستان میں موبائل سے لوکیش ٹریس ہوجاتی ہے۔ تو کینیا کوئی اتنا گیا گزرا ملک تو نہیں ہے یہ موبائل سے لوکیشن تو ٹریس کرلیتے ہوں گے نا یہ لوگ بھی۔
جواب: سرکار، آپ مجھے ایک بات بتائیں۔ آپ کو کہیں سے بھی کوئی بھی چیز کرنی ہو۔ آپ کیا کچھ نہیں کرتے؟ آج آن لائن ساری چیزیں ملتی ہیں۔
سوال:تو ارشد بھائی کے پاس کے۔۔۔ ارشد بھائی کے پاس کینیا کا موبائل نمبر بھی تھا ویسے۔
جواب: مجھے نہیں پتا سرکار۔ ارشد بھائی سے صرف میری یہ بات ہوتی تھی کہ ارشد بھائی سلام علیکم۔ ارشد صاحب خیریت سے ہیں۔ ٹھیک ہے وعلیکم السلام۔ میں نے اس سے زیادہ کبھی ارشد بھائی سے بات ہی نہیں کی۔ وہ بالکل اپنی سوچوں میں رہتے تھے۔ اپنے کام میں مگن تھے۔ بھی ایک آدمی اپنے کام میں مگن ہے ہم اس کے پاس بیٹھ کر کیا کریں۔ ہم اپنے کام میں بزی ہیں وہ اپنے کام میں بزی ہیں۔ہمارا کام ملتا ہی نہیں تھا ان کا۔ وہ الگ فیلڈ کے بندے ہم الگ فیلڈ کے بندے۔ میں فارمنگ کرتا ہوں۔ وقار رینج کو دیکھتے ہیں۔ اب ایک مہمان ہمارے پاس آئے ہوئے ہیں وہ اپنی اس میں لگے ہوئے ہیں۔ وہ ہمارے پاس مہمان ہے ہمیں اس سے کوئی پرابلم نہیں ہے۔
سوال: بالکل ٹھیک ہوگیا۔ یہ دیکھیں اچھی باتیں ہوگئی ہیں۔ آپ نے اچھی باتیں کی ہیں۔ جو سچی باتیں آپ جانتے تھے کی ہیں۔ ان سے لوگوں کی رہنمائی ہوگی ۔ وہ آپ کہہ رہے تھے نا کہ لوگ غلط باتیں کررہے ہیں تو پھر اس طرح کا جھوٹ پھر مٹتا ہے اس سے۔
جواب: اتنی ساری باتیں کی ہیں۔ کہ میں تو سوچتا رہا کہ بھائی یہ کس طرح کے بندے ہیں۔یہ کس طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ یہ ایسے وثوق سے بات کررہے ہیں۔ یار آپ مجھے ایک بات بتائیں۔ آپ نے کبھی نقشے میں بھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کینیا کہاں ہے۔ آپ اس کے بارے میں ایسی ایسی باتیں کر رہے ہیں۔ انسان وہ بات کرے جو اپنی آنکھ سے دیکھے۔
سوال: جی جی بالکل بالکل۔
جواب: من گھڑت کہانیاں تو دس ہزار بنا سکتے ہیں۔ بن چکی ہیں۔ ہمارے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ ہمارے بارے میں کیا کچھ نہیں بولا گیا۔ سب کچھ کیا گیا۔ لیکن بھائی سچائی کیا ہے وہ تو دیکھو۔ آپ سنو تو سہی سچائی کیا ہے۔ آپ کے بندوں کو سب کچھ بتا دیا گیا تھا۔ کیا چیز ہے کیسی ہے۔ لیکن۔۔۔
سوال: میں سمجھ گیا۔ بالکل صحیح۔ لیکن آپ دیکھیے گا جب سچ سامنے آئے گا۔۔ یہی چیز ہوتی ہے۔ سچ سامنے آتا ہے نا جب۔
جواب: ہم تو چاہتے ہیں کہ بھائی سچ سامنے آئے۔ بخدا ہماری طرف سے کوئی چیز کا نہیں ہے۔جیسے ہم مہمان نواز ہیں نا سر یہاں جو کوئی بھی آتا ہے الحمد للہ کبھی کوئی یہ بول کر نہیں گیا کہ ہم نے مہمان نوازی میں کوئی کسر چھوڑی ہے۔
سوال: نہیں نہیں۔ بالکل ٹھیک ہے۔ اللہ تعالیٰ جزا دے اور امید کرتے ہیں کہ اگر کوئی بندہ ملوث ہے کسی بھی حوالے سے تو وہ پکڑا جائے اور جس ادارے میں ہے اس کو سزا ہو۔
جواب: سرکار۔ بالکل پکڑا جائے اگر کوئی ملوث ہے اور اگر یہ خدانخواستہ کوئی غلطی ہے یا ان کی وہ ہے جو یہ بیان کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ ہم تو اس میں کچھ بھی نہیں بول سکتے کیوں کہ کیا ہے کہ نہ تو ہم ان کے ڈپارٹمنٹ میں آتے ہیں۔ نہ ہم ان کے ساتھ رہتے ہیں۔ نہ ہم ان کے پاس رہتے ہیں۔
سوال: بالکل صحیح۔
جواب: ہم اپنی جگہ پر ہیں وہ اپنی جگہ پر ہیں۔ وہ کیا کررہے ہیں ہم کو نہیں پتا۔ ہم کیا کررہے ہیں ان کو نہیں پتا۔
سوال: بالکل صحیح۔
جواب: اب کیا غلطی ہوئی ، کس سے غلطی ہوئی ؟ یہ کیا ہوا ہے؟ اللہ بہتر جانتا ہے یا کرنے والا جانتا ہے۔
سوال: سر ٹھیک ہوگیا۔ بہت بہت شکریہ جمشید بھائی آپ نے ۔۔۔۔
سوال: اخبارات میں شائع ہو رہا ہے کہ مورین نام کی کوئی خاتون ہیں جو ’ ایمو ڈمپ ‘ کی مالکن ہیں؟ آپ اس کی تصدیق یا تردید کریں گے؟
جواب: جی بالکل ہے۔
سوال: کیا وہ مالکان میں سے ایک ہیں
جواب۔ ڈائریکٹر ہیں
سوال: یہ بات بھی سامنے آ رہی ہے کہ وقار کے نام پر جو بہت سی املاک ہیں، وہ بنیادی طور پر مورین کی ملکیت ہیں؟
جواب: نہیں
سوال: میڈیا کے لیے آخری تصاویر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، بندہ (ارشد شریف) پاکستان میں بہت پسند کیا جاتا تھا، آپ کے لیے ممکن ہے کہ آخری ڈنر کی کچھ تصاویر شئر کر سکیں؟
جواب: میرے پاس تو کوئی تصویر نہیں ہے، ان فیکٹ، ارشد بھائی ہی تصویریں لے رہے تھے۔۔۔۔ ان کے موبائل میں ہوں گی تصویریں، ہم تو اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔
سوال: آپ نے ڈید باڈی کی تصاویر تو نہیں لی ہوں گی؟
جواب: نہیں
سوال: تو گاڑی میں (ارشد شریف کے ) بیٹھے ہوئے کی جو تصویر آئی تھی جو اے آر وائی والوں کو بھیجی گئی، وہ تصویر کس نے بنائی تھی؟
جواب: وہ پولیس والوں نے
سوال: جب پولیس والے آئے، کیونکہ آپ نے فوراً پولیس کو بلا لیا، تو اس وقت تو خرم کو معلوم ہی نہیں تھا ناں کہ پولیس نے مارا ہے تو پولیس نے پہلی بار کب بتایا کہ ہم نے ارشد شریف کو مارا ہے؟ یا دوسرے یونٹ والوں نے مارا ہے؟
جواب: یہ میں بتاتا ہوں، جس علاقے (۔۔ نام) میں یہ واقعہ ہوا، وہاں کا ایک چیف ہوتا ہے، پاکستان میں جیسے نمبردار ہوتے ہیں۔ تو اس جگہ کے چیف نے ہمارے علاقے آلٹیپیسی کے چیف کو، جہاں گاڑی آ کے رکی تھی، فون کر کے بولا کہ فلاں علاقے میں فائرنگ ہوئی ہے اور گآڑی آ رہی ہے۔ تو پھر یہ بات دوسرے پولیس سٹیشن میں سرکولیٹ ہوئی۔ ویسے بھی آج کل ہر ایک کے پاس ٹیلی فون (موبائل) موجود ہوتا ہے۔ تو گیارہ بجے جب پولیس والے آئے تو انہوں نے بتایا کہ ان سے ہوئی ہے یہ (مطلب پولیس نے کی ہے ارشد شریف کی گاڑی پر فائرنگ)
سوال: یہ بات پولیس والوں نے آپ کو بتائی جب وہ آپ کے ٹنگا والے فارم ہاوس پر پہنچے تھے؟
جواب: جی، جب پولیس والے آئے تو انہوں نے بتایا کہ ہاں، ہم کو انفارمیشن آ چکی ہے کہ کس نے شوٹ کیا ہے۔
سوال: جو ہم بات پہلے کر رہے تھے، گاڑی کو پیچھے سے دیکھیں تو واضح نظر آتا ہے کہ پیسنجر سائیڈ پر بیٹھے شخص کو ٹارگٹ کر کے گولیاں ماری گئی ہیں ۔ آپ کہہ رہے تھے کہ ڈرائیور سیٹ پر گولیاں لگی ہیں جبکہ ڈرائیور والی سائیڈ پر پیچھے والے شیشے پر گولیاں لگی ہیں؟ ڈرائیور والے شیشے پر نہیں ہیں۔ یعنی ڈرائیور سیٹ پر کوئی گولی نہیں لگی، یہ بات تو درست ہے ناں؟
جواب: نہیں نہیں نہیں۔ آپ کو پتا ہے، تین جگہ لگی ہیں۔ ایک گاڑی کے پچھے کارنر پر، اس کے اوپر اس کے کوارٹر گلاس پر، وہاں لگا، اور ایک ڈرائیور کے پیچھے والی دروازے پر لگی۔ اور دو گولیاں گلاس پر لگیں۔ تو ٹوٹل چار اس سائیڈ پر آئیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ دھول میں کوئی کس طرح ٹارگٹ کر سکتا ہے۔ میں کسی کو پروٹیکٹ نہیں کر رہا، لیکن میں سمجھ نہیں پا رہا کہ دھول میں کیسے ٹارگٹ کیا جا سکتا ہے۔ ایک سیناریو دیکھ رہا ہوں، ہم وہاں سے روزانہ گزرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی گاڑی آگے جا رہی ہو تو ہم کو رکنا پڑتا ہے کہ ہم کو روڈ نظر نہیں آتی۔ فاصلہ اتنا رکھنا پڑتا ہے کہ اگلی گاڑی دو سو تین سو میٹر آگے چلی جائے تب ہم اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی گاڑی چلا سکیں۔ دھول میں ہم کو نظر ہی نہیں آتا کہ آگے کیا چیز ہے، اچانک سے کوئی گاڑی آ جائے تو ہمارا ایکسیڈنٹ ہو جائے۔ اس لیے ہم رکتے ہیں کہ گاڑی آگے چلے، دھول ہوا سے دور ہو جائے تب ہم چلتے ہیں۔ اتنی دھول ہوتی ہے۔ دن میں چلو پھر بھی بندہ سمجھ سکتا ہے، اندھیرے میں، رات میں اس دھول میں صرف اور صرف لائٹ کا عکس نظر آ سکتا ہے۔ یہ میں مان سکتا ہوں، لائٹ کا عکس نظر آئے گا، وہ بھی آگے سے۔
سوال: دیکھیے، کینیا کے اندر بھی لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ پولیس مارتی ہے لوگوں کو، پولیس کے ہاتھونں ماورائے عدالت قتل کے بہت سے واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، اور یہ یونٹ کے بھی ایسے معاملات ہیں۔ دیکھیں چوری شدہ گاڑی پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جائے، ایسے واقعات نہیں ہوتے۔
جواب: بہت ساری باتیں، بہت سارے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ ان کا جواب وہی دے سکتے ہیں جو۔۔۔
سوال: یہ بتائیے کہ آپ کا ٹنگا والا فارم ہاوس ہے، ہمارے نیروبی میں موجود لوگوں نے باہر سے وڈیو بنائی ہے۔ آپ اس فارم ہاوس کا ایڈریس دے سکتے ہیں تاکہ وہ وڈیو وغیرہ بنا کے آ جائیں۔ یہ بات ذہن میں رکھیے گا کہ یہ ساری چزیں اہم ہیں، وہ ایک اہم شخص تھا، وہ جہاں جہاں گیا، اٹھا بیٹھا، ان جگہوں کی وڈیون بننی ہے۔
جواب: ہم کو بھی بہت دکھ ہے۔ ہمارے مہمان تھے یار
انٹرویور: جی، آپ کے دوست تھے، انہوں نے انے آخری دن آپ کے ساتھ گزارے۔۔۔ ٹنگا والے فارم ہاوس کا ایڈریس بتا دیں۔۔
جواب: کہیں سے بھی جا کے پوچھ لیں، ہمارے نام سے ایک ہی ہے۔اور اس نام سے اور کوئی نہیں ہے۔
سوال: کیا وہ بھی ایمو ڈمپ کے نام سے ہے، ٹنگا میں
جواب: نہیں نہیں۔ وہ خان کے نام سے ہے، میرے نام سے ہے۔ سب اس کو میرے نام سے جانتے ہیں۔
سوال: ویسے وہاں کتنی دیر ٹھہرے آپ، جب خرم پہنچے، وقار پہنچے، پولیس پہنچی۔۔
جواب: پولیس پندرہ بیس منٹ میں وہاں پر آ گئی تھی
سوال: پھر پولیس وہاں کتنی دیر ٹھہری ہسپتال جانے سے پہلے
جواب: بھئی تقریبا وہ ایک گھنٹہ وہاں پر رہے، ان کے ساتھ بہت سارے بندے تھے۔ سی آئی ڈی والے تھے، رپورٹر تھے، فوٹو گرافر تھے، پولیس کے ایریا کے ڈی ایس پی تھے، ایس ایچ او تھے۔ یہ تقریبا چار یا پانچ گاڑیاں آئی ہوئی تھیں۔