سوئس سیکرٹس نے پاکستان کے امیر ترین شخص کے غلط بیانات اور آفشور کمپنیز میں چھپائی گئی دولت کو کیسے بے نقاب کیا؟

ایزی انویسٹمینٹ لمیٹڈ کمپنی کے ساتھ کھولے گئے ایک جوائنٹ اکاونٹ نے پاکستانی ادارے  ایف بی آر کی سالوں سے جاری تحقیقات کا معمہ کی حل کر دیا۔

عمارہ شاہ

پاکستان کے امیر ترین شخص میاں منشا جن کا نام ہر آفشور لیکس میں سامنے آتا رہا ہے اس بار او سی سی آر پی کے سوئس سیکرٹس کی زینت بنا۔

میاں منشا، جن کو پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کی اعلی  قیادت کے قریب سمجھا جاتا ہے، نہ صرف پاکستان کی  ٹیکس اتھارٹیزسے اپنے سوئس اکاونٹس چھپاتے رہے بلکہ سوئس سیکرٹس کی تحقیقات نے ان کے  لندن ہوٹل کی خریداری کے ساتھ  تعلق سے انکار پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دئیے ہیں۔

____________________________________________________________________________________________

اشتہار

تحقیقاتی صحافت کو آگے بڑھائیں۔

"گوفنڈمی” کے اس لنک پر جائیں اور فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپئن میں اپنا حصہ ڈالیں۔

https://gofundme.com/FactFocus

[فیکٹ فوکس کی "گوفنڈمی” کیمپیئن کی ویڈیو دیکھیں۔]

______________________________________________________________________________________________

میاں منشا نے دو ہزار پانچ میں سوئس بینک کریڈٹ سوئس کے ساتھ دو اکاونٹس کھولے۔ پہلا اکاونٹ میاں منشا اور ان کی اہلیہ ناز منشا نے چودہ فروری دو ہزار پانچ میں کھولا۔  جس میں تیس اکتوبر دو ہزار پانچ تک زیادہ سے زیادہ رقم چار لاکھ اٹھانوے ہزار سوئس فرانکس تھی۔

میاں منشا اور ناز منشا

اس کے باوجود اسی سال چھ اکتوبر دو ہزار پانچ کو ایک دوسرا اکاونٹ کھولا گیا۔ اس دوسرے اکاونٹ کے تین اکاونٹ ہولڈرز تھے۔

ایزی انویسٹ مینٹ لیمیٹڈ

میاں محمد منشا

ناز منشا۔

    اس اکاونٹ میں تیس ستمبردوہزار بارہ کو زیادہ سے زیادہ رقم اٹھارہ اعشاریہ پانچ ملین سوئس فرانک تھی۔

میاں منشا کا آفشور کمپنیز کا نیٹ ورک:

پیراڈائز لیکس اور ایک دوسرا سوئس بینک اکاونٹ:

نشاط گروپ کے سابق چئیرمین میاں منشا کا نام پیراڈائز لیکس میں چھ کمپنیز کے ساتھ منسلک  ہوا تھا۔ ان میں سے چار برٹش ورجن آئی لینڈ میں موجود ہیں: میلین سیکوریٹیز لمیٹیڈ، میپل لیف انویسٹمینٹ لمیٹڈ، لائل ٹریڈنگ لمیٹڈ اور ڈولن انٹرنیشنل لمیٹڈ ۔

باقی دو موریشیس میں تھیں: کروفٹ لمیٹڈ اور بیسٹ ایگلز ہولڈنگز انک۔

ایک سوئس بینک میں موجود ایک اکاونٹ کا بھی سراغ لگا تھا جس کا تعلق ان کمپنیز کے ساتھ ہے اور جو انیس سو چرانوے میں کھلا اور دو ہزار سات تک موجود رہا۔ یہ بہت دلچسپی کی بات ہے کیونکہ یہ اکاونٹ او سی سی آر پی کی سوئس سیکرٹس کی تحقیقات میں رپورٹ نہیں ہوا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کریڈٹ سوئس کے علاوہ کسی اور بینک کا اکاونٹ ہے۔ اس سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستانیوں نے ایک سے زائد سوئس بینکوں میں اکاونٹس کھول رکھے ہیں۔

پنڈورہ پیپرز:

وہ پاکستانی شخصیات جنھوں نے سوئس بینکس میں اپنے نام اکاونٹ کھلوائے  یا آف شور کمپنیز کے ذریعے اکاونٹ کھلوائے، میاں محمد منشا کا نام اس حوالے سے بھی پنڈورا پیپرز کی زینت بنا۔

میاں منشا نے اپنے سوئس اکاونٹس اور آفشور دولت ٹیکس حکام سے چھپائی:

گو کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ میاں منشا اور ان کی بیوی  کے سوئس بینک میں دو اکاونٹس رہے جو کہ دو ہزار پانچ سے دو ہزار تیرہ تک کھلے رہے لیکن فیکٹ فوکس کی طرف سے ان دونوں کے ٹیکس ریکارڈ کا باریک بینی سے کیا گیا مشاہدہ یہ بات سامنے لاتا ہے کہ دونوں میاں بیوی پاکستانی ٹیکس حکام سے اپنے سوئس اکاونٹس چھپاتے رہے۔

ذیل میں میاں منشا اور ان کی اہلیہ کی کے سالانہ  ٹیکس گوشواروں کی تفصیلات درج ہیں۔

دو ہزار نو:

ناز منشا:

انھوں نے اپنے ٹیکس فائلنگ میں صرف ایک بینک اکاونٹ جو کہ رائل بینک آف سکاٹ لینڈ  کی لاہور برانچ  میں ہے کا ذکر کیا جس میں تقریبا آٹھ سو تین ملین روپے کی رقم موجود تھی۔

ناز منشا

دو ہزار دس:

میاں منشا:

اثاثہ: سنتالیس ملین۔

مسلم کمرشل بینک میں موجود  صرف تین بینک اکاونٹس ڈکلئیر کیئے گئے جن میں چار اعشاریہ پانچ ملین، چھبیس ہزار سات سو بیس اور تراسی ہزار نو سو دس روپے موجود تھے۔

دو ہزار گیارہ:

میاں منشا:

اثاثہ : پانچ کروڑ روپے۔

مسلم کمرشل بینک میں موجود صرف تین بینک اکاونٹس ڈکلئیر کیئے گئے جن میں چھ ملین، چھبیس ہزار سات سو چوالیس اور ایک اعشاریہ پانچ ملین روپے موجود تھے۔

ناز منشا:

کل اثاثہ: تقریبا دو ارب روپے۔

تین بینک اکاونٹس ڈکلئیر کیئے گئے۔ ایک برکلے بینک میں موجود ڈالر اکاونٹ تھا جس میں موجود رقم پاکستانی روپوں میں مالیت  اٹھاون ہزار پانچ سو چودہ روپے ڈکلئیر کی گئی تھی۔

 دوسرے برکلے بینک کے اکاونٹ میں بائیس اعشاریہ آٹھ ملین روپے موجود تھے۔ تیسرا اکاونٹ رائل بینک آف سکاٹ لینڈ کی لاہور برانچ میں تھا جس میں تین اعشاریہ پانچ ملین روپے موجود تھے۔

دو ہزار بارہ:

میاں منشا:

اثاثہ: پچپن ملین روپے۔

مسلم کمرشل بینک میں موجود صرف تین بینک اکاونٹس ڈکلئیر کیئے گئے جن میں چار ملین، چھبیس ہزار اور آٹھ ملین روپے موجود تھے۔

ناز منشا:

رائل بینک آف سکاٹ لینڈ لاہور برانچ میں موجود ایک بینک اکاونٹ ڈکلئیر کیا گیا۔

ناز منشا

دو ہزار تیرہ:

میاں منشا:

کل اثاثہ: انچاس ملین روپے۔

مسلم کمرشل بینک میں موجود صرف تین بینک اکاونٹس ڈکلئیر کیئے گئے۔

ایک ملین، چھبیس ہزار سات سو اور ایک اعشاریہ چھ ملین روپے موجود تھے۔

ناز منشا:

کل اثاثہ: دو اعشاریہ دو ارب روپے۔

پاکستان میں موجود صرف چار بینک اکاونٹس ڈکلیئر کیئے گئے۔ کوئی بیرون ملک موجود بینک اکاونٹ ڈکلئیر نہیں کیا گیا۔ برکلے بینک لاہور کے ایک اکاونٹ میں پچپن ہزار پانچ سو پینتیس، اسی بینک کے دوسرے اکاونٹ میں بیس ہزار آٹھ سو بیاسی، رائل بینک آف سکاٹ لینڈ لاہور  کے اکاونٹ میں دو لاکھ پچھتر ہزار اور ایم سی بی کے ایک اکاونٹ میں نو لاکھ چھتیس ہزار روپے موجود تھے۔

میاں منشا کا دس سال تک لندن کے ایک لگزری ہوٹل کی خریداری سے انکار:

پاکستان میں ٹیکس حکام نے منشا اور ان کے خاندان کے دیگر ارکان سے دو ہزار پندرہ میں تحقیقات کیں جب  تاریخی ہوٹل  سینٹ جیمز ہوٹل اور کلب کی نومبر دو ہزار دس میں ہونے والی  تقریبا پچاس ملین ڈالرز کی خریداری میں  بےقاعدگیوں کا شبہ ہوا۔

سینٹ جیمز ہوٹل اور کلب، لندن کا مشہو فائیو سٹار ہوٹل

میاں منشا اس بات سے صاف انکار کرتے رہے کہ لندن میں قائم ہوٹل کی خریداری سے ان کا کوئی تعلق ہے اور وہ اپنی اس بات پر کئی سالوں سے قائم ہیں۔

ایف بی آر کی جانب سے میاں منشا کے بیٹوں سے سرمائے کے ذرائع کے متعلق  تحقیقات کی جاتی رہی ہیں۔ ایف بی آر کی جانب سے جب میاں منشا کو بلایا گیا تو انھوں نے اپنے آپکو اس معاملے سے بالکل علیحدہ کر لیا۔ میاں منشا کے بیٹوں عمر اور حسن نے بتایا کہ ان کی سنگاپور میں موجود کمپنی ریذیڈینشیا ہولڈنگ پی ٹی ای لمیٹیڈ نے برٹش ورجن آئی لینڈ اوربرٹش کراون کے زیر انتظام گورینسے میں موجود کمپنیوں سے قرض لیا تھا۔ ایف بی آر کی جانب سے برٹش ورجن اٗئی لینڈ اور گورینسے کو لکھا گیا۔ صرف گورینسے کی طرف سے جواب آیا اور بتایا گیا کہ ایزی انویسٹمینٹ لمیٹیڈ نامی کمپنی کا وہاں کبھی کوئی وجود ہی نہیں رہا۔ جس کی وجہ سے اس سارے معاملہ کو شبہ کی نظر سے دیکھا جانے لگا۔

اب ڈیٹا لیک ہونے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہیکہ میاں منشا اور ان کی اہلیہ ناز منشا کا ایزی انویسٹمنٹ نامی کمپنی کے ساتھ ایک جوائنٹ اکاونٹ تھا۔ میاں بیوی کے دو اکاونٹس تھے اور ان میں سے ایک ایزی انویسٹمنٹ کے ساتھ مشترکہ تھا۔ اس اکاونٹ میں دو ہزار بارہ میں رقم اٹھارہ اعشاریہ پانچ سوئس فرانک تک پہنچ گئی تھی۔ منشا خاندان کے افراد نے ایف بی آر کو بتایا تھا کی ایزی انویسٹمنٹ نامی کمپنی نے دو ہزار دس میں انھیں بیس ملین ڈالر کا قرض دیا تھا جبکہ اس اکاونٹ میں تقریبا اتنی ہی رقم اس سے دو سال بعد موصول ہوئی۔ یہ بات ایک معمہ ہے کہ پیسے کی لین دین اس کمپنی کے ذریعے ہوئی یا اس کا صرف نام استعمال ہوا۔ میاں منشا نے صحافیوں کی جانب سے پوچھے گئے کسی سوال کا جواب نہیں دیا اور نہ ہی وہ یا ان ک خاندان کا کوئی فرد ان معاملات کے حوالے سے کسی جرم یا سزا کا مرتکب ہوا۔

ناز منشا اور میاں منشا

میاں منشا حال ہی میں نشاط گروپ  کے عہدے سے دستبردارہوئے ہیں۔  جس کی بنیاد انیس سو اکیاون میں ان کے والد اور چچاوؐں نے رکھی تھی۔ وہ اپنے والد کی وفات کے بعد انیس سو اٹھسٹھ میں خاندانی کاروبار کا حصہ بنے۔

دو ہزار دس میں وہ پہلے پاکستانی تھے جن کا نام فوربز کی ارب پتیوں کی فہرست میں آیا تھا۔

اگرچہ میاں منشا بذات خود اس بات پر مصر ہیں کہ ان کی اس ہوٹل میں کوئی دلچسپی نہیں ہے جو کہ ان کے دونوں بیٹوں عمر، حسن ایمل ان کی بہو رضا منشا کی ملکیت ہےاور

ان کا دعوی ہیکہ انھوں نے  برٹش ورجن آئی لینڈ کی ایک گمگشتہ آفشور کمپنی سے  بائیس ملین ڈالر ادھار لیکر اس رقم کا بندوبست کیا جبکہ بقیہ بیس ملین ڈالر ایک اور آفشور کمپنی جو کہ برٹش کراوؐن کراون کے زیر انتظام گورینسے میں واقع ہے، سے ادھار لیا۔

عدالت میں جمع کروائی گئی دستاویزات کے مطابق قرض کے دونوں معاہدوں پر حسن منشا کے دستخط ہیں جبکہ گواہ معظم راشد ہے جو کہ منشا خاندان کے پاکستان میں کاروبار کے اسسٹنٹ مینیجرہیں۔

منشا خاندان کے مطابق گورینسے کمپنی ایزی انویسٹمینٹ لمیٹڈ کے نام سے جانی جاتی تھی۔

ایف بی آر نے اس معاملے کی تحقیقات تب شروع کیں جب انھیں اس بات کا شبہ ہوا کہ منشا خاندان کی طرف سے  پیسہ ملک سے باہر لے جایا گیا ہے۔

ایف بی آر کی تحقیقات کسی نتیجہ پر نہ پہنچیں کیونکہ تحقیق کار منشا خاندان کو ادھار دینے والی آفشور کمپنیوں کا کوئی سراغ نہ لگا سکے۔ تحقیقات کا بنیادی مقصد آف شور کمپنیوں کے فراہم کردہ پیسوں کی کھوج لگانا تھا جو کہ پاکستانی قوانین کی صریحا خلاف ورزی کرتے ہوئے فراہم کیئے گئے تھے۔ لیکن اس سلسلے میں تحقیق کاروں کو مذ کورہ بالا آفشور کمپنیوں کا کوئی سرا نہ مل سکا ۔

برٹش ورجن آئی لیلنڈ کے اہلکاروں نے منشا خاندان کو بائیس ملین ڈالر ادھار دینے والی کمپنی ایوینڈیل انٹرپرائز لمیٹیڈ کے متعلق کوئی معلومات فراہم نہ کیں۔

گروینسے کے اہلکاروں نے ہر طرح کا تعاون کیا لیکن جب ان سے ایزی انویسٹمنٹ کے متعلق پوچھا گیا تو ان کے جواب نے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس نام کی کوئی کمپنی ان کے ہاں کبھی رجسٹر نہیں ہوئی۔ پاکستانی تحقیق کار پوری دنیا میں اس کمپنی کا کوئ شائبہ تک ڈھونڈنے سے قاصر رہے۔

او سی سی آر پی کی تحقیقات میں  یہ چیز سامنے آئی کہ دنیا میں اس وقت تین

مختلف مقامات  پرایزی انویسٹمینٹ کے نام سے تین کمپنیز رجسٹرڈ ہیں۔ برطانیہ، افریقہ اور ایشیا میں۔  برطانوی کمپنی جو کہ اسی ملک میں واقع ہے جہاں ہوٹل ہے  بظاہر شیل کمپنی دکھتی ہے ۔ جس میں اصل مالکان کو خفیہ رکھا گیا ہے اس لیئے اس کے حقیقی مالک تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔  باقی دو کمپنیاں جو کہ افریقہ اور ایشیا میں رجسٹرڈ ہیں ان کا ہوٹل کی خریداری سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

فی الحقیقت کمپنی کا وجود دو ہی جگہ پر ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک تو ان بینک ریکارڈز میں جو کہ او سی سی آر پی نے حاصل کیئے دوسرا لندن میں موجود کمپنی جس کے مالکان کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا ہے۔

حقیقت میں یہ دونوں ایک ہی کمپنی سے منسلک ہو سکتے ہیں۔

یہ بات پوری طرح ثابت نہیں ہو سکی کہ جس کمپنی کا نام بینک اکاونٹ پر ہے  یہ وہی کمپنی ہے جس نے منشا فیملی کو رقم قرض کے طور پر دی  کیونکہ سوئس سیکرٹس کے ڈیٹا میں کمپنیز کہاں پر رجسٹر ہیں اس قسم کی کوئی معلومات نہیں ہیں۔

ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل کی پالیسی ایکسپرٹ ماریہ ماریٹنی نے او سی سی آر پی کو بتایا ہے کہ سوئس سیکرٹس کے ڈیٹا سے یہ بات پتا چلتی ہیکہ منشا کا ایزی انویسٹمنٹ لمیٹڈ کمپنی سے گہرا تعلق ہے۔

ان کا کہنا ہیکہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ کوئی آپ کے سے ساتھ  بینک اکاونٹ میں شریک ہو اور اس کا آپ سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔ اکاونٹ میں موجود ہر چیز کا تعلق آپ دونوں یعنی کہ جو دو شریک اکاونٹ ہولڈرز ہوتے ہیں ان سے ہوتا ہے۔

سوئس سیکرٹس کے ذریعے او سی سی آر پی کی فراہم کردہ معلومات  سنجیدہ سوالات کو جنم دیتی ہے۔   ان معلومات سے یہ بات سامنے آتی ہیکہ ہوٹل کی خریداری میں میاں منشا کا اہم کردار رہا ہے۔

منشا اور ان کی اہلیہ ناز نے کریڈٹ سوئس کے ساتھ دو ہزار پانچ میں ایک جوائنٹ اکاونٹ کھولا۔ بینک کا ریکارڈ ایزی انویسٹمیٹ لمیٹیڈ کو بھی مشترکہ اکاونٹ ہولڈر بتاتا ہے۔ (یاد رہے یہ وہی آف شور  کمپنی ہے جس نے ہوٹل کی خریداری کیلیئےمیاں منشا کے بیٹوں کو بیس ملین  ڈالر کا قرض دیا)۔

مذ کورہ اکاونٹ  ہوٹل کی خریداری کے عمل کے مکمل ہونے کے تین سال بعد دو ہزار تیرہ میں بند ہو گیا تھا اور اس میں دو ہزار تیرہ میں اٹھارہ اعشاریہ پانچ ملین سوئس فرانکس یعنی کہ  بیس ملین ڈالرز کی رقم موجود تھی۔

اس اکاونٹ میں پیسہ کہاں سے آیا اور پیسہ بھی اتنا ہی جتنا کہ اس ہوٹل کی خریداری کیلیئے قرض بتایا گیا یہ آج بھی وضاحت طلب بات ہے ۔

دو ہزار بیس میں عدالت میں جمع کرائے گئے دستاویزات میں ایف بی آر نے یہ موقف اپنایا  کہ جب گروینسے نے ایزی انویسٹ مینٹ لمیٹڈ کمپنی کی اپنے ہاں رجسٹریشن کی تردید کر دی  تو اس نے کئی ملین ڈالرز کے قرض کو مشکوک بنا دیا اور منشا خاندان کے ممبران کی طرف سے کیئے گئے دعوں کی صداقت پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیئے۔

ادارے نے منشا خاندان پر الزام لگایا کہ انھوں نے دھوکہ دہی سے پیسوں کے لین دین کو مختلف ممالک کی حدود تک صرف اس لیئے پھیلایا کہ یہ سامنے نہ آسکے کہ پیسہ کہاں سے آیا۔

منشا خاندان نے ایف بی آر کے قانونی دائرہ کار کو چیلینج کر دیا اور ان کا کہنا تھا کہ ریزیڈینشیا ہولڈنگز پی ٹی ای لمیٹیڈ جس  کے نام پر یہ ہوٹل خریدا گیا وہ تو بذات خود ایک غیر ملکی کمپنی ہے۔

انھوں نے نیب کے دائرہ اختیار پر بھی سوال اٹھایا جو کہ ایک علیحدہ کیس میں یہ تحقیق کر رہا ہیکہ مزکورہ ہوٹل کی خریداری میں منی لانڈرنگ تو نہیں ہوئی؟

ایزی انویسمینٹ لمیٹڈ کے متعلق نئی معلومات ان دونوں تحقیقات کا رخ تبدیل کر سکتی ہیں۔ اگر کمپنی کا خفیہ اور حقیقی مالک منشا ہے اور انھوں نے تحقیق کاروں سے جھوٹ بولا ہے تو ان کو انجام کار بھاری جرمانوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔

 او سی سی آر پی کے ساتھ منسلک ایک ٹیکس آفیشل کے مطابق انھیں دروغ گوئی اور جھوٹے حلف نامے جمع کروانے کی سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

’’اگر مذ کورہ معلومات کا دستایزی ثبوت سامنے آتا ہے تو منشا کو نہ صرف متعلقہ ٹیکسزبلکہ چوری شدہ ٹیکس پر بھاری جرمانے بھی ادا کرنے پڑیں گے‘‘ بقول ہارون خان ترین جنھوں نے دو ہزار پندرہ میں منشا تحقیقات  کا آغاز کیا۔

نوے کی دہائی میں میاں منشا کی دولت میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب انھوں نے مسلم کمرشل بینک خریدا جو کہ پاکستان کا تیسرا بڑا بینک ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سیمنٹ کمپنیاں بھی خریدیں۔ یہ سب اس  وقت کے وزیراعظم میاں نواز شریف کی نجکاری پالیسی کی مرہون ہے۔

بینک کی خریداری کے متعلق آج بھی سوالات اٹھائے جاتے ہیں۔ منشا نے جو بولی لگائی وہ سب سے زیادہ لگائی جانے والی بولی نہیں تھی لیکن انھیں اس بات کی اجازت دی گئی وہ سب سے بڑی بولی کے برابر بولی لگائیں اور نیلامی اپنے نام کریں۔اس سلسلے میں دو ہزار دو میں نیب نے تحقیقات شروع کیں جو آج بھی جاری ہیں۔

میاں منشا  کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے قریب سمجھا جاتا ہےجنھیں دو ہزار سترہ میں بدعنوانی کے الزام پر عوامی عہدے سے نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔

میاں منشا کا دو سوچالیس ایکڑ پہ محیط رہائشی فارم ہائوس بھی سابقہ وزیراعظم کے جاتی عمرہ کے فارم ہائوس کے پڑوس میں ہی واقع ہے۔

Scroll to Top